اللہ عزوجل کے لیے جسم ثابت کرنا

اللہ عزوجل کے لیے جسم ثابت کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ زید کے زوجہ اس سے مذاق میں روٹھی ہوئی تھی تو وہ اسے منانے کی کوشش کر رہا تھا، اتنے میں زید نے اپنی زوجہ کی ٹانگ پکڑی جس پر بے ساختہ اس کی زوجہ کی زبان سے مذاقاً یہ جملہ نکل گیا: “کیوں مینوں اللہ جی کلوں لت پوانی جے” یہ محض غلطی سے بولا، زید کی توجہ گئی تو فوراً بلاتاخیر ٹوکا اور توبہ کا کہا، اور ساتھ ہی اس کی زوجہ کو بھی اندازہ ہوا کہ خطاً کچھ غلط ہی منہ سے نکل گیا تو اس نے فوراً توبہ کی، اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ جملہ کفریہ ہے؟ اگر ہاں! تو اب کیا کِیا جائے؟

سائل: رضا قادری(اسپین)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

سوال میں بیان کیا جانے والا جملہ بلا شبہہ کفریہ ہے کہ اس میں اللہ ﷯کے لیے ٹانگ ماننا لازم آ رہا ہے جو کہ کفر ہے کیونکہ اللہ ﷯جسم و جسمانیت اور اعضائے جسمانی سے منزہ و مبرا (پاک) ہے۔ زید کی زوجہ پر توبہ وتجدید ایمان کے ساتھ ساتھ باہم تجدید نکاح کرنا بھی لازم ہے۔

توبہ و تجدید ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ زید کی بیوی یوں کہے: میں اللہ ﷯کے لیے ٹانگ کا لفظ استعمال کرنے پر نادم ہوں اور اس کفر سے توبہ کرتی ہوں ۔ پھر پہلا کلمہ پڑھے ” لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ﷺ (اللہ ﷯کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اللہ ﷯کے رسول ہیں)۔“ یوں ہی تجدید نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ دو شرعی گواہوں کے سامنے نئے حق مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کر لیا جائے۔مثلاً زید دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے اس عورت سے کہے: میں نے اتنے یورو حق مہر کے عوض تجھ سے نکاح کیا، جواب میں عورت کہے: میں نے قبول کیا۔

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”(وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى ‌جسم كالأجسام“ ترجمہ: اور اگر کسی شخص نے ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار کیا تو اس کے سبب اس کی تکفیر کی جائے گی، مثلاً یوں کہنا کہ اللہ تعالیٰ اجسام کی مانند جسم ہے۔ (الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الصلاۃ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 77، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت)

اس کے تحت علامہ سید احمد بن محمد الطحطاوی الحنفی ﷫(المتوفی: 1231 ھ/1815ء) اور علامہ محمد عابد بن احمد السندی المدنی ﷫ (المتوفی: 1257ھ/1841ء) لکھتے ہیں:

والفظ للسندي ”أو قال ان لله يد أو رجل كالعباد فهو كافر“

ترجمہ: یا یہ کہنا کہ بندوں کی طرح اللہ کا ہاتھ یا اس کی ٹانگ ہے تو ایسا کہنے والا کافر ہے۔(حاشية الطحطاوي على الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 263، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت- طوالع الأنوار شرح الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 28، مخطوطه)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”اللہ عزوجل مکان و جہت و جلوس وغیرہا تمام عوارض جسم و جسمانیات و عیوب و نقائص سے پاک ہے ۔ “(فتاوی رضویة، جلد نمبر 29، صفحه نمبر 139، مطبوعه: رضا فاؤندیشن لاهور)

شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی ﷫(المتوفی:1421ھ/2000ء) لکھتے ہیں:

”اللہ عزوجل جسم سے پاک ہے، اس لیے کہ ہر جسم مرکب ہوتا ہےاور ہر مرکب حادث، کیونکہ ہر مرکب پر ان اجزا کا تقدم ضروری ہے جن سے وہ مرکب ہے۔ اور اللہ عزوجل کو حادث ماننا یا ایسا قول کرنا جس سے اس کا حادث ہونا لازم آئے، کفر ہے۔ اس لیے کہ حادث کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ وہ پہلے موجود نہیں تھا معدوم تھا، پھر وہ موجود ہوا، حالاں کہ اللہ عزوجل قدیم ازلی ہے۔ نہ وہ کبھی معدوم رہا اور نہ کبھی معدوم ہوگا۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔“(فتاوی شارح بخاری، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 132-133، مطبوعه: دائرۃ البرکات، گھوسی)

سیدی و سندی، شیخ طریقت، امیر اہل سنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری ﷾ تحریر فرماتے ہیں:

” جس کُفر سے توبہ مقصود ہے وہ اُسی وقْت مقبول ہو گی جبکہ وہ اُس کُفر کو کُفر تسلیم کرتا ہو اوردل میں اُس کُفر سے نفرت و بیزاری بھی ہو۔ جو کُفرسرزد ہوا توبہ میں اُس کاتذکِرہ بھی ہو ۔مثلا جس نے ویزا فارم پر اپنے آپ کوکرسچین لکھ دیا وہ اس طرح کہے :”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!میں نے جو ویزا فارم میں اپنے آپ کو کرسچین ظاہِر کیا ہے اِس کُفر سے توبہ کرتا ہوں۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم (اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں )“ اِس طرح مخصوص کُفر سے توبہ بھی ہو گئی اور تجدیدِ ایمان بھی۔ اگرمَعَاذاللہ عَزَّوَجَلَّ کئی کفریات بکے ہوں اور یاد نہ ہو کہ کیا کیا بکا ہے تویوں کہے:”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!مجھ سے جو جو کفریات صادِر ہوئے ہیں میں ان سے توبہ کرتا ہوں۔ “ پھر کلمہ پڑھ لے۔ (اگر کلمہ شریف کا ترجمہ معلوم ہے تو زَبان سے ترجمہ دُہرانے کی حاجت نہیں ) اگریہ معلوم ہی نہیں کہ کُفر بکا بھی ہے یا نہیں تب بھی اگر احتیاطاً توبہ کرنا چاہیں تو اسطرح کہئے:”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اگر مجھ سے کوئی کُفر ہو گیا ہو تو میں اُس سے توبہ کرتا ہوں ۔“یہ کہنے کے بعد کلمہ پڑھ لیجئے ۔ … تجدیدِ نِکاح کا معنیٰ ہے:”نئے مَہر سے نیا نِکاح کرنا۔”اِس کیلئے لوگوں کو اِکٹھّا کرنا ضَروری نہیں ۔ نِکاح نام ہے اِیجاب و قَبول کا۔ ہاں بوقتِ نِکا ح بطورِ گواہ کم ازکم دو مَرد مسلمان یا ایک مَرد مسلمان اور دو مسلمان عورَتوں کا حاضِرہونا لازِمی ہے۔ خُطبۂ نِکاح شرط نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ خطبہ یاد نہ ہوتو اَعُوْذُ بِاللہ اور بِسْمِ اﷲ شریف کے بعد سورۂ فاتِحہ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔کم ازکم دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی(موجودہ وزن کے حساب سے 30 گرام 618 مِلی گرام چاندی )یا اُس کی رقم مہَر واجِب ہے۔“(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ، صفحہ نمبر 621- 622، مطبوعه: مکتبۃ المدینہ، کراچی )

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

28 ربیع الاول 1445ھ / 14 اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں