مقدس راتوں میں عبادت کرنے کو بدعت کہنا

مقدس راتوں میں عبادت کرنے کو بدعت کہنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں مسلمان صدیوں سے مبارک راتوں اور دنوں میں عبادات کرتے ہیں جیسے ستائیس رجب کی رات کو عبادت اور صبح روزہ رکھتے ہیں، پندرہ شعبان کی رات بھی ایسا ہوتا ہے ،یونہی دیگر مبارک ایام ہیں ،تو دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا میں مختلف پوسٹیں وائرل ہوتی ہیں کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور ان راتوں میں عبادت اور دن میں روزہ رکھنا بدعت ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اگر بالفرض کسی بھی مبارک رات عبادت کی فضیلت نہ ہو تو اس رات عبادت کرنا ناجائز وبدعت ہوجائے گا؟

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب الھم ھدایۃ الحق والصواب

ہمارے معاشرے میں ایسے عجیب و جاہل لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے فرقے کے علاوہ تمام مسلمانوں کو بدعتی و مشرک سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ قرآن وحدیث کا نام تو لیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے بلکہ اپنے مطلب کی چند باتیں مانتے ہیں اور ہر وہ کام جو اس فرقے میں رائج نہیں اس کو بدعت و شرک کہہ دیتے ہیں اگرچہ اس سے ملتا جلتا خود بھی کرتے ہوں یعنی ہرجگہ اپنی انفرادیت چاہتے ہیں جیسے مسلمان اگر نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھیں تو کہتے ہیں یہ شرک ہے قرآن پڑھو! لیکن جب ختم پاک میں قرآن پڑھا جائے تو اس وقت ان کے نزدیک قرآن پڑھنا بھی بدعت ہوجاتا ہے اور خود درس قرآن میں وہی سب کچھ کرتے ہیں۔ میلا د منائیں تو کہتے ہیں یہ بدعت ہے اور خود سیرت کانفرنس کرتے ہیں۔اولیائے کرام کو وسیلہ دے کر دعا کی جائے تو کہتے ہیں شرک ہے،صرف اللہ عزوجل سے مانگو اور جب نماز و جنازہ کے بعد دعا مانگیں تو اس کو بھی بدعت کہہ دیتے ہیں۔

یونہی مقدس راتوں اور دنوں میں عبادات کرنے اور وزہ رکھنے مسئلہ ہے کہ احادیث میں رجب کے روزے رکھنے اور ستائیس رجب و پندرہ شعبان کی رات جسے شب براءت کہا جاتا ہے اس میں عبادت اور اگلے دن روزہ رکھنے کی فضیلت پر کثیر احادیث موجود ہیں لیکن اس فرقے کا ایک ہی کام ہے کہ مسلمان جن احادیث پر عمل کررہے ہیں ان احادیث کو زبردستی ضعیف ثابت کیا جائے۔ حالانکہ محدثین (علم حدیث کے ماہرین) نے واضح کیا ہے کہ فضائل والے کاموں میں ضعیف حدیث بھی قبول ہوتی ہے یعنی عبادت کرنا ہر رات افضل عمل ہے اب اگر کسی رات پر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو اس پر عمل بہتر ہی ہے ۔ لیکن اس فرقے نے چودہ سو صدیوں سے جو اصول و نظریات آرہے تھے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ضعیف حدیث کو نہ صرف جھوٹی حدیث کی مثل قرار دیا بلکہ فضائل پر موجود احادیث پر عمل کرنے کو بھی بدعت قرار دے دیا اور مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کی مذموم کوشش کی۔

شریعت نے ایسے لوگوں کی سخت مذمت فرمائی ہے جو اپنے خود ساختے اصولوں سے جہالت میں حلال کو حرام یا حرام کو حلال سمجھیں۔مسلمانوں پر لازم ہیں کہ ایسے لوگوں کے فتنوں سے بچیں اور عام راتوں کی طرح مقدس راتوں میں خوب عبادات کریں۔

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

’’أعظمہا فتنۃ علی أمتی قوم یقیسون الأمور برأیہم ، فیحلون الحرام ویحرمون الحلال ‘‘

ترجمہ:میری امت میں سب سے بڑا فتنہ وہ قوم ہوگی جو معاملات میں اپنے رائے سے قیاس کرے گی اور حرام کو حلال اورحلال کوحرام ٹھہرا لے گی۔(الفقیہ و المتفقہ،جلد1،صفحہ450،دار ابن الجوزی،سعودیہ)

شعب الأیمان میں ہے

”عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی رجب یوم ولیلۃ من صام ذلک الیوم وقام تلک اللیلۃ قام کان کمن صام من الدھراً مأۃ سنۃ وقام مأۃ سنۃ وھو ثلاث بقین من رجب وفیہ بعث الله محمداً “

ترجمہ:حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا رجب میں ایک دن اورایک رات ایسی ہے جس نے اس دن میں روزہ رکھا اور رات کو عبادت کی یہ اس کی طرح ہو گا جس نے سو سال روزے رکھے اور سو سال قیام کیا وہ رات رجب کی ستائیسویں رات ہے اسی میں اللہ نے نبی پاک کو مبعوث فرمايا ۔( شعب الأیمان ،کتاب الصیام ،تحصیص شھر رجب بالذکر ،جلد 5، صفحہ345 ، مکتبۃ الرشد ،ریاض)

صحیح ابن حبان میں محمد بن حبان بن احمد التمیمی الدارمی البُستی (المتوفی354ھ) روایت کرتے ہیں

’’أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَافَی الْعَابِدُ بِصَیْدَا، وَابْنُ قُتَیْبَۃَ وَغَیْرُہُ، قَالُوا:حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خُلَیْدٍ عُتْبَۃُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، وَابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مَکْحُولٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ یُخَامِرَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَطْلُعُ اللَّہُ إِلَی خَلْقِہِ فِی لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیعِ خَلْقِہِ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ‘‘

ترجمہ:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات کو اپنی مخلوق پر نظر رحمت فرماتا ہے اور سب کی مغفرت فرمادیتا سوائے مشرک اوربہت سخت دشمنی کرنے والے کے۔(صحیح ابن حبان،کتاب الحظر والاباحت،باب ما جاء فی التباغض،جلد12،481،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے

’’حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَلَّالُ قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ:أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِی سَبْرَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَیْلَہَا وَصُومُوا نَہَارَہَا، فَإِنَّ اللَّہَ یَنْزِلُ فِیہَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاء ِ الدُّنْیَا، فَیَقُولُ:أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی فَأَغْفِرَ لَہُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا،حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْر‘‘

ترجمہ:حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لئے کہ اس میں غروب شمس سے فجر طلوع ہونے تک آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور یہ کہتا ہے ،ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی دوں۔ ہے کوئی بیمار کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں ہے کوئی ایسا ہے کوئی۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلوٰۃ،باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان،جلد1،صفحہ444،دار إحیاء الکتب العربیۃ،الحلبی)

شعب الایمان للبیہقی میں ہے

’’أَنْبَأَنِی أَبُو عَبْدِ اللہِ الْحَافِظُ إِجَازَۃً، وَحَدَّثَنَا بِہِ عَنْہُ الْإِمَامُ أَبُو عُثْمَانَ إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِیدِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ ابْنَ الْبَیْلَمَانِیِّ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:خَمْسُ لَیَالٍ لَا یُرَدُّ فِیہِنَّ الدُّعَاء ُ:لَیْلَۃُ الْجُمُعَۃِ، وَأَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ رَجَبَ، وَلَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَیْلَۃُ الْعِیدِ وَلَیْلَۃُ النَّحْرِ ‘‘

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں پانچ راتوں میں دعارَد نہیں کی جاتی جمعہ کی رات،رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات(یعنی شب براء ت) ،عید الفطر اور عید الاضحی کی رات۔(شعب الایمان للبیقہی ،الباب الثالث و العشرون،جلد3،صفحہ342،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

سنن ا للبیقہی الکبری میں ہے

’’قَالَ الشَّافِعِیُّ:وَبَلَغَنَا أَنَّہُ کَانَ یُقَالُ إِنَّ الدُّعَاء َ یُسْتَجَابُ فِی خَمْسِ لَیَالٍ فِی لَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ، وَلَیْلَۃِ الْأَضْحَی، وَلَیْلَۃِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِنْ رَجَبَ، وَلَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ‘‘

ترجمہ:امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اورہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ جمعہ کی رات، عید الفطر اور عیدا لاضحی کی رات، رجب کی پہلی رات اور پندرہویں شعبان کی رات۔ (سنن ا للبیقہی الکبری ، جلد3،صفحہ319،مکتبۃ دار الباز ،مکۃ المکرمۃ)

ملا علی قاری اپنے رسالے” الادب فی رجب “میں فرماتے ہیں

”وقد جاء فی فضائل صومہ احادیث ضعیفۃ تصیر بکثرۃ طرقھا قویّۃ مع أنّ الأحادیث ضعیفۃ الاحوال معتبرۃ فی فضائل الأعمال “

ترجمہ:اور تحقیق رجب کے روزے رکھنے کے متعلق کچھ ضعیف احادیث آئی ہیں جو کثرت طرق کی وجہ سے قوی ہو چکی ہیں باوجود اس کے کہ ضعیف الأحوال احادیث اعمال کے فضائل میں معتبر ہیں ۔( مجموع الرسائل ،ملا علی قاری جلد 2 صفحہ 288،رسالہ نمبر 15 ،دارالکتب ،پشاور )

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اربعین پھر امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ پھر مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ وحرز ثمین شرح حصن حصین میں فرماتے ہیں

’’قداتفق الحفاظ ولفظ الاربعین قداتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ولفظ الحرز لجواز العمل بہ فی فضائل الاعمال بالاتفاق ‘‘

ترجمہ: بیشک حفاظِ حدیث وعلمائے دین کا اتفاق ہے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے۔ (شرح الأربعین النوویۃ فی الأحادیث الصحیحۃ النبویۃ،مقدمہ،صفحہ20، مؤسسۃ الریان)

بدمذہبوں کے ایک مولوی نے مظاہر حق میں راوی حدیث صلاۃ اوّابین کا منکر الحدیث ہونا امام بخاری سے نقل کرکے لکھا:’’اس حدیث کو اگرچہ ترمذی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے لیکن فضائل میں عمل کرنا حدیث ضعیف پر جائزہے ۔‘‘( مظاہر حق ،باب السنن وفضائلھا ،جلد1،صفحہ766، دارالاشاعت ،کراچی)

فتح القدیر میں ہے

” فالضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الأعمال“

ترجمہ:یعنی وہ ضعیف حدیث جو من گڑھت نہ ہو فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جائے گا ۔( فتح القدیر ،جلد 1 ،صفحہ 349 ،دارالفکر بیروت )

ملا علی قاری حنفی مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں

”قال ابن حجر قال آئیمتنا أفضل الأشھر لصوم التطوّع المحرم ثمّ بقیۃ الحرم رجب وذی الحجہ وذی القعدۃ “

ترجمہ: ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہمارے آئمہ فرماتے ہیں نفلی روزوں کے لئے مہینوں میں سے افضل مہینہ محرم ہے پھر بقیہ حرمت والے مہینے رجب ذولحجہ اور ذوالقعدہ ۔( مرقاۃ المفاتیح ، شرح مشکاۃ المصابیح ، جلد 4 صفحہ 1411 ،بیروت )

فتاوی ھندیہ میں ہے

”المرغوبات من الصیام أنواع أولھا صوم المحرم والثانی رجب والثالث صوم شعبان وصوم عاشوراء “

ترجمہ:یعنی مستحب روزوں کی چند قسمیں ہیں جن میں سے پہلے محرم کے روزے دوسرے رجب کے روزے اور تیسرے شعبان اور عاشوراء کے روزے ہیں ۔( فتاوی ھندیہ ، کتاب الصوم النوع الأول ما یوجب القضاء دون الکفارۃ ، جلد 1 ،صفحہ 202 دارالفکر ،بیروت )

بہار شریعت میں ہے:

” عیدین اور پندرہویں شعبان کی راتوں اور رمضان کی آخری دس راتوں اور ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں شب بیداری مستحب ہے اکثر حصہ میں جاگنا بھی شب بیداری ہے ۔“(بہار شریعت ،جلد 1 حصہ 4 صفحہ 684 مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے

” الحلال ما احل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرّم الله فی کتابہ وماسکت عنہ فھو ممّا عفا عنہ“

ترجمہ حلال وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حرام بتایا اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے یعنی اس پر کچھ مواخذہ نہیں ۔( جامع الترمذی ،ابواب اللباس ،باب ما جاء فی لبس الفراء جلد 3 ،صفحہ 272 ، دارالغرب الاسلامی ، بیروت )

ہر نیاکام بُری بدعت نہیں ہوتا بلکہ جو قرآن و سنت کے مطابق ہو اگرچہ نیا ہو وہ بدعت حسنہ ہے۔ حدیث پاک میں ہے

”من سنّ فی الاسلام سنّۃ حسنۃ فلہ أجرھا و أجر من عمل بھا بعدہ “

ترجمہ:جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو اس طریقے پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا۔( صحیح مسلم،کتاب العلم ، باب من سن سنۃ حسنۃ ، جلد 2 صفحہ 341 قدیمی کتب خانہ ،کراچی )

وقارالفتاوی میں بدعت کی تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” لہذا ہر نئے کام کو ناجائز بتانے والے اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے اور جائز بتانے والے ان کا حکم شرعی بتا کر انہیں بدعت مباح میں شامل کرتے ہیں۔“( وقارالفتای ،جلد 2 ،صفحہ 535 ،بزم وقارالدین )

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم

ابوبکر نیلمی

21 فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں