یہ کہنا کیسا کہ ”بابے تے شے ای کوئی نئیں“

یہ کہنا کیسا کہ ”بابے تے شے ای کوئی نئیں“

کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مرزا انجینئر بزرگان دین کے متعلق یہ بے ادبانہ جملہ بہت عام بولتا ہے کہ ”بابے تے شے ای کوئی نئیں“ یعنی بزرگان دین کوئی چیز نہیں ہیں۔ نیز ان بزرگان دین کی کرامات و تصرفات کا رد کرتے ہوئے یہ اور اس کے چیلے اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں کہ جو بزرگ بغیر عینک کے قرآن نہیں پڑھ سکتے وہ زمین کے اندر اور دل کی باتیں کیسے جان سکتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ یہ جملہ بولنا کیسا اور یوں عقلی اعتراضات کرکے کرامات وتصرفات کا انکار کرنا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

مرز ا نجینئر ایک نئے فرقے کا بانی ہے جس فرقے کے عقائد و نظریات میں یہ بنیادی نظریہ ہے کہ بزرگان دین کی تعلیمات کا انکار کرنا اور قرآن اور کچھ احادیث کے ترجمے پڑھ کر غلط سلط فتوے دینا اور امت مسلمہ کو گمراہ و کافر قرار دینا۔ اس مرزا انجینئر کی اولیائے کرام کے علاوہ صحابہ کرام اور حضور علیہ السلام کی شان میں کئی بے ادبیاں کرنا ثابت اور قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ ہونا واضح ہے۔

سوال میں بیان کردہ صورت کا جواب یہ ہے کہ ولی کی طرف سے بغیر دعوی نبوت کیے خلافِ عادت کام کے ظاہر ہونے کو ’’ کرامت ‘‘کہتے ہیں۔ کراماتِ اولیاء حق ہیں، جس پر قرآن وسنت اور اسلاف کی کتب معتمدہ سے کثیر دلائل موجود ہیں۔ لہذا اگرمرزا کااس طرح کے بیانات سے یہ ثابت کرنا مقصد ہو کہ کرامات شے ہی کوئی نہیں یعنی کرامات کا منکر ہے تو یہ شخص واضح گمراہ ہے کہ کرامات کا مطلقا انکار گمراہی ہے کہ یہ قرآن و حدیث کا انکار ہے۔(آگے اس پر دلائل آئیں گے۔)

اگر مرزا کرامات کا منکر نہیں لیکن جب اس کو کسی ولی کی کرامت سنائی جائے تو اس کوقبول نہیں کرتا اور اس پر عجیب و غریب قسم کے عقلی اعتراضات کرتا اور مذاق اڑاتا ہے تو یہ ہٹ دھرمی ہے کہ کرامت ہوتی ہی وہ ہے جو خلاف عادت ہو عقل میں نہ آئے۔یہ کہنا کہ ولی بغیر عینک کے قرآن نہیں پڑھ سکتے دل کے حالات کیا جانیں گے اور کرامات وتصرفات کیا کریں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا یہ دعوی ہی نہیں کہ اولیاء کرام کو دنیاوی آزمائشیں نہیں آتی ہیں بلکہ احادیث میں تو انبیاء علیہم السلام کے بعد صالحین کو آزمائشیں پہنچنا ثابت ہے لیکن ان آزمائشوں سے تصرفات کا انکار نہیں ہوتا۔ انبیاء علیہم السلام پر آزمائشیں آئیں تو کیا انہوں سے معجزات کا صدور نہیں ہوا؟صحابہ کرام،تابعین اور بزرگان دین پر مصائب آئے اسکے باوجود ان کی کرامات اُن مستند علماء کرام (جن میں محدثین بھی شامل ہیں) نے درج کی ہیں جن کو مرزا بھی مانتا ہے اور ان کی کتب کے حوالے دیتا ہے۔بلکہ مشکوۃ شریف جو حدیث کی کتاب ہے اور اس کتاب کا ترجمہ مرزا کی ٹیبل پر پڑا ہوتا ہے، اس میں ایک پورا باب کرامات کے نام سے درج ہے۔

اگر مرزا انجینئر یہ کہتا ہے کہ اولیاء کی کرامات حق ہیں لیکن اہل سنت جن بزرگان دین کی کرامات اور تصرفات کا بعد از وصال ذکرکرتے ہیں یہ نا ممکن اور مستند کتب سے ثابت نہیں تو اس کا جواب اس فتوی کے آخر میں تفصیلی دیا گیا ہے کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کے معجزات ان کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد ختم نہیں ہوتے اسی طرح اولیاء کی کرامات بھی ختم نہیں ہوتیں۔

کراماتِ اولیاء کا ثبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں:

کرامات کا ثبوت قرآن پاک سے

قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور بلقیس کے تخت کے متعلق ہے:

{قَالَ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ، قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ، وَ اِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ، قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ}

ترجمہ کنزالایمان : سلیمان ( علیہ السلام )نے فرمایا : اے درباریو !تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں ؟ ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا، قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بے شک اس پر قوت والا ، امانتدار ہوں ۔ اس نے عرض کی ، جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا، ایک پل مارنے سے پہلے۔ (پارہ 19، سورۃ النمل، آیت 38،39،40)

بطور کرامت ایک لمحے میں تخت بلقیس حاضر کرنے والی ہستی ایک ولی اللہ کی تھی چنانچہ معتبر تفاسیر جیسے تفسیر سمرقندی جلد 2 صفحہ 497،تفسیر جلالین صفحہ320، تفسیرصاوی جلد4صفحہ1498، تفسیرروح البیان جلد 6 صفحہ 349 میں راجح اور جمہور مفسرین کا یہی قول لکھا ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا اُس سے مراد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔تفسیر نسفی میں ہے

” أو آصف بن برخيا كاتب سليمان وهو الأصح وعليه الجمهور وكان عنده اسم الله الأعظم الذي إذا دعا به أجاب۔۔ويروى أن آصف قال لسليمان عليه السلام مد عينيك حتى ينتهي طرفك فمد عينيه فنظر نحو اليمين فدعا آصف فغار العرش في مكانه ثم نبع عند مجلس سليمان بقدرة الله تعالى قبل أن يرتد طرفه “

ترجمہ:یا وہ تخت لانے والے حضرت آصف بن برخیا رحمۃ اللہ علیہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے اور یہی زیادہ صحیح ہے اور اسی پر جمہور علماء ہیں۔ حضرت آصف بن برخیا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس اسم اعظم تھا جس کے ذریعے سے دعا کرتے تھے تو قبول ہوتی تھی۔ مروی ہے کہ حضرت آصف رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کی کہ آپ اپنی آنکھیں بند کرکے کھولیں،حضرت آصف نے دائیں طرف نظر کی اور دعا کی تو بلقیس کا تخت اپنی جگہ سے زمین میں غائب ہوااورپھر حضرت حضرت سلیمان علیہ السلام کی آنکھیں کھلنے سے پہلے ان کی مجلس میں اللہ عزوجل کی قدرت سے ظاہر ہوگیا۔(تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل)،صفحہ607،دار الكلم الطيب، بيروت)

مذکورہ آیات کے تحت تفسیرنورا لعرفان میں ہے:

’’ اس سے معلوم ہوا کہ ولایت برحق ہے اور اولیاء اللہ کی کرامات بھی برحق ہیں۔‘‘(نورالعرفان، صفحہ816، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)

مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے

{کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ، وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ، قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ، قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ }

ترجمہ : جب زکریا اس(مریم)کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے، اس کے پاس نیا رزق پاتے، کہا: اے مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ بولیں: وہ اللہ کے پاس سے ہے۔ (پارہ 3، سورۂ آل عمران، آیت37)

حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ عزوجل کی ولیہ تھیں ان کے پاس بے موسمی پھل آنا کرامت تھی۔اس آیت کے تحت تفسیرخازن میں ہے

”وفي هذه الآية دليل على جواز كرامات الأولياء وظهور خوارق العادات على أيديهم“

ترجمہ: آیت کراماتِ اولیاء کے ثبوت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں پر خوارق ( کرامات ) ظاہرفرماتا ہے ۔ (تفسیر خازن، صفحہ241، دار الكتب العلمية،بيروت)

تصرفات وکرامات کا ثبوت حدیث قدسی سے

کرامات و تصرفات کا ثبوت بخاری شریف کی اس حدیث قدسی سے بالکل واضح ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اُس پر فرض کی ہیں۔ مزید فرمایا”وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ“اور میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بندہ بنا لیتا ہوں۔ جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا قدم بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا فرماتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ پکڑے تو ضرور میں اسے پناہ دیتا ہوں۔(صحیح البخاري، كتاب الرقاق، باب التواضع،جلد5،صفحہ2384،حدیث 6137، دار ابن كثير اليمامة،بیروت)

امام رازی تفسیر کبیر میں منکرین کرامت کا رد اور کرامات اولیاء پر دلائل قائم کرتے ہوئے اسی حدیث قدسی کی شرح میں فرماتے ہیں

’’الحجۃ السادسۃ لا شک انّ المتولی للافعال ھوالروح لاالبدن ولہذا نری ان کل من کان اکثر علماً باحوال عالم الغیب کان اقوٰی قلباً ولہذا قال علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ واﷲ ماقلعت باب خیبر بقوۃ جسدانیۃ ولٰکن بقوۃ ربانیۃ وکذٰلک العبداذا واظب علی الطاعات بلغ الی المقام الذی یقول اﷲ تعالٰی کنت لہ سمعاً وبصراًفاذا صار نور اجلال اللہ تعالٰی سمعاً لہ سمع القریب و البعید واذاصارذٰلک النور بصراً لہ راٰی القریب والبعید واذا صارذٰلک النوریدا لہ قدر علی التصرف فی الصعب و السہل والبعید والقریب‘‘

ترجمہ: اہل سنت کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ بلاشبہہ افعال کی متولی تو روح ہے نہ کہ بدن،اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جسے احوال عالم غیب کا علم زیادہ ہے اس کا دل زیادہ قوی ہوتا ہے، ولہٰذا مولیٰ علی نے فرمایا:خدا کی قسم میں نے خیبر کا دروازہ جسم کی قوت سے نہ اکھیڑا بلکہ ربانی طاقت سے۔اسی طرح بندہ جب ہمیشہ طاعت میں لگا رہتا ہے تو اس مقام تک پہنچتا ہے جس کی نسبت رب عزوجل فرماتا ہے کہ وہاں میں خود اس کے کان آنکھ ہوجاتا ہوں تو جب اجلالِ الٰہی کا نور اس کا کان ہوجاتا ہے بندہ نزدیک ، دور سب سنتا ہے اور جب وہ نور اس کی آنکھ ہوجاتا ہے بندہ نزدیک و دور ،سب دیکھتا ہے اور جب وہ نور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہے بندہ دشوار و سہل، نزدیک و دورہرحال میں تصرف کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔(مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر )،تحت آیۃ18 ؍9،جلد21،صفحہ77،دار الکتب العلمیہ بیروت )

صحابہ کرام ،تابعین و بزرگان دین سے کثیر مستند کتب سے کرامات کا ثبوت ہے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت

مدینہ منورہ کے بہت بڑے مفتی حضرت عُروہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مرضِ وفات میں اپنی صاحبزادی اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پیاری بیٹی! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہوچکا ہے اورمیر ی اولاد میں تمہارے دونوں بھائی عبد الرحمٰن و محمد اورتمہاری دونوں بہنیں ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کر کے اپنا اپنا حصہ لے لینا ۔ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا:ابّا جان! میری تو ایک ہی بہن بی بی اسما ہیں ۔ یہ میری دوسری بہن کون ہے ؟حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” ذو بطن ابنة خارجة، أراها جارية، وأخرجه ابن سعد، وقال في آخره: ذات بطن ابنة خارجة، وقد ألقى في روعي أنها جارية، فاستوصى بها خيرًا، فولدت أم كلثوم“ترجمہ(میری زوجہ )بنتِ خارجہ جو کہ حاملہ ہے میں دیکھتا ہوں کہ اس کے شکم میں لڑکی ہے۔ ابن سعد نے اسے روایت کیا اور اس کے آخر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:بنت خارجہ حاملہ ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ وہ لڑکی ہے،میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ تو(جیسا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا اس کے مطابق)حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں ۔ (تاریخ الخلفاء، صفحہ63 ماخوذا، حجۃ اللہ علی العالمین، الخاتمۃ فی اثبات کرامات الاولیاء⋯ الخ، المطلب الثالث فی ذکرجملۃ جمیلۃ⋯الخ ، ص611ماخوذا)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت

تاریخ الخلفاء میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہت بڑی کرامت یوں لکھتے ہیں

” أخرج البيهقي وأبو نعيم، كلاهما في دلائل النبوة، واللالكائي في شرح السنة، والديرعاقولي في فوائده، وابن الأعرابي في كرامات الأولياء، والخطيب في رواة مالك عن نافع عن ابن عمر، قال: وجه عمر جيشًا، ورأس عليهم رجلاً يدعى سارية، فبينما عمر يخطب جعل ينادي: يا سارية الجبل، ثلاثًا، ثم قدم رسول الجيش، فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين هزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا ينادي: يا سارية الجبل، ثلاثًا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل، فهزمهم الله، قال: قيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك، وذلك الجبل الذي كان سارية عنده بنهاوند من أرض العجم، قال ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن “

امام بیہقی اور ابونعیم نے دلائل نبوۃ میں، علامہ لالکائی نے شرح السنہ میں،دیر عاقولی نے اپنی فوائد میں،ابن عربی نے کرامات اولیاء میں اور خطیب نے امام مالک کی نافع سے وہ ابن عمر سے مروی روایات کے حوالے سے تخریج کی حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لشکر بھیجا،جس کا سردار ساریہ نامی شخص تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ(مدینہ میں)خطبہ دے رہے تھے کہ تین دفعہ یوں پکارا:اے ساریہ پہاڑ (کی طرف دیکھو!) پھر لشکر کا قاصد آیا تو حضرت عمر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے جنگ کے متعلق دریافت کیا۔ وہ عرض گزار ہوا: اے امیر المومنین ہم شکست خوردہ ہو گئے، ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے ایک آواز سنی، کوئی پکار رہا تھا: اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو، ایسا تین بار کہا گیا، تو ہم نے اپنی پشت کو پہاڑ کی طرف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کوشکست دیدی۔حضرت عمر فارو ق کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ آپ وہ تھے جنہوں نے یہ یوں پکارا تھا ۔وہ پہاڑ جس کے پاس حضرت ساریہ تھے وہ عجم کی زمین نہاوند میں تھا( اس وقت مدینہ منورہ اور لشکر کی جگہ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔)علامہ ابن حجر نے اصابہ میں فرمایا کہ اس روایت کی سند حسن ہے۔ (تاریخ الخلفاء،صفحہ101، مكتبة نزار مصطفى الباز)

اس بیان کردہ حسن سند کی روایت سے مرزاانجینئر اور ان کے چیلوں کاوہ ظاہری اعتراض بھی باطل ثابت ہو گیاکہ جو کہتے ہیں کہ ولیوں سے بغیر عینک کے قرآن نہیں پڑھا جاتا وہ دیوار کے پیچھے کیسے غیبی طور پر دیکھ سکتے ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہزاروں میل دور نہ صرف اس جنگ کو ملاحظہ کیا بلکہ مدینہ سے اپنی آواز بھی وہاں پہنچا دی اور وہاں کے لوگوں نے اس آواز کو سنا بھی ۔یہ کرامت و تصرف نہیں تو اور کیا ہے؟

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت بیان کرتے ہوئے حضر تِ سیِّدُ نا امام مالِک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امیرُ المؤمنین حضر ت سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مر تبہ مدینہ منورہ کے قبرِستان ’’جنَّتُ البقیع‘‘ کے اُس حصّے میں تشریف لے گئے جو’’حَشِّ کَوْکَب ‘‘ کہلاتا تھا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہا ں ایک جگہ پر کھڑے ہو کر فرمایا”إنه سيدفن هنا رجل صالح “عنقریب یہا ں ایک نیک شخص دفن کیا جائے گا ۔ چُنانچِہ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہا دت ہو گئی اور باغیو ں نے جنازہ ٔمبارَکہ کے ساتھ اس قَدَر اُودھم بازی کی کہ نہ روضۂ منوَّ رہ کے قریب دَفن کیا جا سکا نہ جنَّتُ البقیع کے اُس حصّے میں مدفون کئے جاسکے جو صَحا بۂ کِبار (یعنی بڑے صحابۂ کرام علیہم الرضوان) کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دُور الگ تھلگ ’’حَشِّ کَوْکَب ‘‘ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپر دِ خا ک کئے گئے جہا ں کو ئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا کیو نکہ اُس وقت تک وہا ں کوئی قبر ہی نہ تھی ۔(کراماتِ صحابہ ص96، الرِّیا ضُ النَّضرۃ ، ج 3 ص73وغیرہ)

حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت

امام فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت بیان کرتے ہوئے تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ ایک حبشی غلام جو امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتہائی مخلص محب تھا، شامت اعمال سے اس نے ایک مرتبہ چوری کرلی، لوگوں نے اس کو پکڑ کر دربارخلافت میں پیش کردیا اورغلام نے اپنے جرم کا اقرار بھی کرلیا۔ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ جب وہ اپنے گھر کو روانہ ہوا تو راستہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورابن الکرا سے اس کی ملاقات ہوگئی ۔ ابن الکرا نے پوچھاکہ تمہارا ہاتھ کس نے کاٹا ؟تو غلام نے کہا : امیرالمومنین ویعسوب المسلمین ، داماد رسول وزوج بتول نے ۔ ابن الکرانے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہارا ہاتھ کاٹ ڈالاپھر بھی تم اس قدراعزازواکرام اورمدح وثناء کے ساتھ انکا نام لیتے ہو؟ غلام نے کہا کہ کیاہوا؟انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اورمجھے عذاب جہنم سے بچالیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کی گفتگو سنی اورامیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا تذکر ہ کیا”فَدَعَا الْأَسْوَدَ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى سَاعِدِهِ وَغَطَّاهُ بِمَنْدِيلٍ وَدَعَا بِدَعَوَاتٍ فَسَمِعْنَا صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ ارْفَعِ الرِّدَاءَ عَنِ الْيَدِ فَرَفَعْنَاهُ فَإِذَا الْيَدُ قَدْ بَرَأَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى وَجَمِيلِ صُنْعِهِ “تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کو بلوا کر اس کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی کلائی پر رکھ کر رومال سے چھپا دیاپھر کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ اتنے میں ایک غیبی آواز آئی کہ ہاتھ سے رومال ہٹا ؤ۔ جب لوگوں نے رومال ہٹا یاتو اللہ عزوجل کے حکم اور اس کی کمال صنعت سے غلام کا کٹا ہوا ہاتھ بالکل درست ہوگیا۔

(تفسیر کبیر،ج21،ص434، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

تابعی بزرگ حضرت ابومسلم خولانی کی کرامت

صحابہ کرام کی طرح تابعین سے بھی کثیر کرامات مستند کتب سے ثابت ہیں چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں عظیم تابعی بزرگ حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنے کا واقعہ صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ”حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»“ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیزگم ہوگئی تو اللہ عزوجل سے دعا کرو۔

(الزهد أحمد بن محمد بن حنبل،جلد1،صفحہ 310، رقم2253، دار الكتب العلمية، بيروت)

اس بارے میں مزید اور بھی مستند کرامات درج کی جاسکتی ہیں بلکہ علمائے کرام نے تو خاص صحابہ کرام کی کرامات پر کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن جو متکبرو منکر اور ہٹ دھرم ہے وہ اپنے مطلب کی ہی روایت پڑھ کر اس سے غلط معنی استدلال کرے گااور مستند کرامات کو انکار دلیل کے ساتھ کرنے پر جب عاجز آئے گاتو یہی بے تکے اعتراضات کرکے ہی اپنے چیلوں کو مطمئن کرے گا کہ اگر اولیاء تصرفات رکھتے ہوتےتو فلاں کام کیوں نہیں کرتے ،فلاں کیوں ہوا وغیرہ حالانکہ ان جاہلوں کو اتنا پتہ نہیں کہ اولیاء کرام ہمارے پابند نہیں کہ ہم ان کو آرڈر کریں تو یہ کرامات دکھانا شروع ہوجائیں ،اولیاء جب چاہیں تو وہ کرامت ظاہر کرتے ہیں ورنہ رب کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔ اللہ عزوجل ہر چیز پر قادر ہے اس کے باوجود کئی مرتبہ غیر مسلم مساجد کو شہید کردیتے ہیں اب اگر کوئی غیر مسلم اعتراض کرے کہ جب خدا سب کچھ کرسکتا ہے تو اپنی عبادت گاہ کیوں نہیں بچاسکتا؟ بلکہ بیت المقدس اور مسجد اقصی کیوں آزاد نہیں ہورہی ؟ تو اس کا جواب یہ انجینئر مرزا اور اس کے چیلے یہی دیں گے کہ یہ رب کی مشیت ہے،لیکن ولیوں کی بات آئے تو ان کو اعتراض اور مذاق سوجھتا ہے۔

علمائے اسلاف جن کو یہ انجینئرمرزا بھی مانتا ہے اور ان کے حوالے دیتا ہے انہوں نے واضح طور پر کرامات اولیاء کو مانا ہے اور اس کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منکر کو گمراہ قرار دیا ہے۔

کرامت کی تعریف اور اس کے منکر پر حکم

مشکوۃ شریف میں باب الکرامات کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے:

’’کرامات جمع ہے کرامت کی بمعنی تعظیم واحترام۔ اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب وغریب چیز ہے، جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔حق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے، وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے، سوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو۔ جیسے وحی اور آیات قرآنیہ۔ معتزلہ کرامات کا انکار کرتے ہیں، اہل سنت کے نزدیک کرامت حق ہے۔ آصف بن برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو یمن سے شام میں لے آنا، حضرت مریم کا بغیر خاوند حاملہ ہونا اورغیبی رزق کھانا، اصحاب کہف کا بے کھانا ، پانی صدہا سال تک زندہ رہنا کراماتِ اولیاء ہیں، جو قرآن مجید سے ثابت ہیں۔حضور غوث پاک کی کرامات شمار سے زیادہ ہیں۔ ‘‘(مراۃ المناجیح، جلد8،صفحہ268، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)

ملا علی قاری رحمہ اللہ مشکوۃ شریف میں”باب الکرامات“ کے تحت فرماتے ہیں

’’الکرامات جمع کرامۃ وھی اسم من الاکرام والتکریم وھی فعل خارق للعادۃ غیر مقرون بالتحدی وقد اعترف بھا اھل السنۃ وانکرھا المعتزلۃ واحتج اھل السنۃ بحدوث الحبل لمریم من غیر فحل وحصول الرزق عندھا من غیر سبب ظاھر وایضاً ففی قصۃ اصحاب الکھف فی الغار ثلٰثمائۃ سنۃ وازید فی النوم احیاء من غیر اٰفۃ دلیل ظاھر وکذا فی احضار اٰصف بن برخیا عرش بلقیس قبل ارتداد الطرف حجۃ واضحۃ ۔‘‘ مفہوم اوپر مذکور ہوا۔

(مرقاۃ المفاتیح، جلد11، صفحہ88، مطبوعہ کوئٹہ )

علامہ نسفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں

’’کرامات الاولیاء حق فتظھر الکرامۃ علیٰ طریق نقض العادۃ للولی من قطع مسافۃ البعیدۃ فی المدۃ القلیلۃ‘‘

ترجمہ: اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں، پس ولی کی کرامت خلافِ عادت طریقے سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ مسافتِ بعیدہ کو مدتِ قلیلہ میں طے کر لے۔‘‘

اس کی شرح میں علامہ تفتازانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں

’’کأتیان صاحب سلیمان علیہ السلام وھو اٰصف بن برخیا علی الاشھر بعرش بلقیس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافۃ‘‘

ترجمہ: مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی یا ساتھی آصف بن برخیا کا تخت بلقیس بہت دور ہونے کے باوجود پلک جھپکنے سے پہلے لے آنا۔ (شرح العقائد النسفیہ مع متن العقائد، صفحہ 146، مطبوعہ ملتان)

شرح فقہ اکبر میں ہے

’’الکرامات للاولیاء حق ای ثابت بالکتاب والسنۃ ولا عبرۃ بمخالفۃ المعتزلۃ واھل البدعۃ فی انکار الکرامۃ‘‘

ترجمہ:کراماتِ اولیاء حق ہیں۔ یعنی قرآن وسنت سے ثابت ہیں اور معتزلہ اور بدعتیوں کا کراماتِ اولیاء کا انکار کرنا ، معتبر نہیں ۔ (شرح فقہ اکبر، صفحہ130، مطبوعہ ملتان )

لوگ کرامات کے منکر کیوں ہیں؟

وہابی،انجینئر مرزا اور دیگر سیکولر لوگ کرامت و تصرف کے منکر ہیں،اس لئے وہ ان کو جھوٹ سمجھتے ہیں۔دراصل خودان میں آج تک کوئی ولی نہیں ہوا،تو کرامت ان میں کہاں سے آئے گی؟وہابیوں کی طرح معتزلہ گمراہ فرقہ بھی کرامت کا منکر تھاان کے متعلق ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’وخالفہم المعتزلۃ حیث لم یشاہد وا فیما بینہم ھذہ المنزلۃ‘‘

ترجمہ: معتزلہ کرامت کے مسئلہ میں اہل سنت کے خلاف ہوئے کیونکہ انہیں اپنے افراد میں یہ مرتبہ کرامت دکھائی نہیں دیا۔ (شرح فقہ اکبر،صفحہ79،مصطفی البابی ،مصر)

وہابیوں کی طرح اگر انجینئر مرزا بھی کرامات کا انکار اگر اس طور پر کرتا ہے کہ جو بزرگ ہستیاں دنیا سے پردہ کرچکی ہیں،ان سے مدد مانگنا اور ان ہستیوں کا مدد کرنا یہ ثابت نہیں بلکہ معاذ اللہ شرک ہے اور یہ ہستیاں اب کسی چیز کا تصرف و اختیار نہیں رکھتیں تو اس نظریے کا رد مستند دلائل سے ملاحظہ ہو:

حضور علیہ السلام کے وصال ظاہری کے بعد ان سے مدد مانگنا

امام بخاری کے استاد محترم ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث نقل کرتے ہیں

’’عن مالک قال أصاب الناس قحط فی زمان عمر بن الخطاب فجاء رجل إلی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ ، استسق اللہ لأمتک فإنہم قد ہلکوا فأتاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام فقال(ائت عمر فأقرئہ السلام ، وأخبرہ أنکم مسقون)

ترجمہ:حضرت مالک سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں لوگوں پر قحط پڑ گیا۔ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر آیا اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !اللہ عزوجل سے اپنی امت کے لئے بارش طلب کریں کہ یہ ہلاک ہورہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آدمی کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عمرکو میرا سلام کہنا اور اسے خبر دینا کہ بارش ہوگی۔

(مصنف ابن شیبہ،کتاب الفضائل ،ماذکر فی فضل عمر بن الخطاب ،جلد12،صفحہ32،الدار السلفیۃ، الہندیۃ)

اس روایت میں حضور علیہ السلام سے مدد طلب کی گئی تو آپ نے خواب میں آکر بارش کی بشارت دی۔اس حدیث کوشاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے’’قرۃ العینین‘‘ میں نقل کیا۔ علامہ ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق ‘‘ علامہ ابن عبدالبر نے’’ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ‘‘میں اورامام قسطلانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے چنانچہ’’ المواہب اللدنیہ‘‘ میں فرماتے ہیں’’وروی ابن أبی شیبۃ بإسناد صحیح من روایۃ أبی صالح السمان، عن مالک الدار قال أصاب الناس قحط فی زمن عمر بن الخطاب،الخ“ (المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،الجزء الثالث ،الفصل الرابع،جلد3،صفحہ374،المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ)

انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاء کی کرامات بعد ازوصال جاری رہتی ہیں

انبیا ء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاء کی کرامات ان کے وصال کے بعد بھی جاری رہتی ہیں۔علامہ نابلسی قدس سرہ، نے حدیقہ ندیہ میں فر مایا

” کرامات الاولیاء باقیۃ بعد موتھم ایضا ومن زعم خلاف ذلک فھو جاھل متعصب ولنا رسالۃ فی خصوص اثبات الکرامۃ بعد موت الولی۔ملخصاً“

اولیاء کی کرامتیں بعدا نتقال بھی باقی ہیں جو اس کے خلاف زعم کرے وہ جاہل ہٹ دھرم ہے ہم نے ایک رسالہ خاص اسی امر کے ثبوت میں لکھا ہے۔ ( الحدیقۃ الندیہ ، اولھم آدم ابوالبشر ،جلد1،صفحہ290، نوریہ رضویہ ،فیصل آباد )

امام جلا ل الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ اذن للانبیاء ان یخرجوا من قبورھم و یتصرفوا فی ملکوت السمٰوٰت و الارض‘‘ ترجمہ: حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے مزارات سے باہر جانے اور آسمانوں اور زمین میں تصرف کی اجازت ہوتی ہے۔ (الحاوی للفتاوٰی ،جلد 2،صفحہ263، دارالفکر ،بیروت)

حضور علیہ السلام کا مدد فرمانا

امام ابو عبداللہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں’’عن علی قال قدم علینا اعرابی بعد ما دفن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و حثا علی راسہ من ترابہٖ فقال قلت یارسول اللہ فسمعنا قولک وعیت عن اللہ فوعینا عنک و کان فیما انزل اللہ علیک {وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَہُمْ}وقد ظلمتُ نفسی و جئتک تستغفرلی فنودی من القبر انہ قد غفر لک‘‘ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے تین یوم کے بعد ہمارے پاس ایک اعرابی (دیہات کا رہنے والا) آیا اور اپنے آپ کو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر گرادیا اور اپنے سر پر قبر انور کی مِٹی ڈالنے لگا اور پھر کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پس ہم نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یاد کیا اور جو (قرآن ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے نازل کیا اس میں یہ (آیۃ) بھی ہے{وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَہُمْ}اور تحقیق میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے اللہ (عزوجل) کی بارگاہ سے مغفرت طلب کریں تو قبر انور سے آواز آئی کہ تمہاری مغفرت کردی گئی۔ (الجامع لاحکام القرآن،جلد5،صفحہ265،دار الکتب المصریۃ،القاہرۃ)

علامہ شہاب الدین خفاجی مصری حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں’’قص الاظفار وتقلیمھا سنۃ ورد النھی عنہ فی یوم الاربعاء وانہ یورث البرص و حکی عن بعض العلماء انہ فعلہ فنھی عنہ فقال لم یثبت ھذا فلحقہ البرص من ساعتہ فرای النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی منامہ فشکی الیہ مااصابہ فقال لہ الم تسمع نھی عنہ فقال لم یصح عندی فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یکفیک انہ سمع ثم مسح بیدہ الشریفۃ فذھب مابہ فتاب عن مخالفۃ ماسمع ‘‘ترجمہ:ناخن کاٹنے سنت ہیں لیکن بدھ کے دن ایساکرنے سے حدیث میں ممانعت وارد ہوئی کیونکہ اس سے مرض برص (جسم پر سفید داغ پیداہوتا ہے۔) بعض اہل علم کی حکایت ہے کہ کسی عالم صاحب نے بدھ کے روز ناخن کٹوائے انھیں اس سے منع کیا گیا لیکن انھوں نے فرمایا یہ حدیث ثابت نہیں ، انھیں فورا مرض برص لاحق ہوگیا پھر انھیں خواب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انھوں نے آپ سے مرض برص کی شکایت کی آپ نے ان سے فرمایا کیا تم نے بدھ کے روز ناخن کٹوانے کی ممانعت نہیں سنی تھی؟ انھوں نے جواباً عرض کیا کہ ہمارے نزدیک وہ حدیث پایہ صحت کو نہیں پہنچی تھی۔ اس پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہونا چاہئے تھا کہ حدیث سن لی تھی۔ ازاں بعد آپ نے اپنا دست اقدس ان کے جسم پر پھیرا تو فورا مرض زائل ہوگیا۔ اس کے بعد عالم موصوف نے اسی وقت سماع کردہ حدیث کی مخالفت سے توبہ کی ۔ (نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض ،فصل وامانظافۃ جسمہ،جلد1،صفحہ344، دارالفکر بیروت)

مشہور معروف محدث امام طبرانی کے متعلق لکھا ہے’’وقال الإمام أبو بکر بن المقریء :کنت أنا والطبرانی وأبو الشیخ فی حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکنا علی حالۃ، وأثّر فینا الجوع، وواصلنا ذلک الیوم، فلما کان وقت العشاء حضرت قبر النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقلت:یا رسول اللہ الجوع، وانصرفت، فقال لی أبو القاسم:اجلس، فإما أن یکون الرزق أو الموت، قال أبو بکر:فقمت أنا وأبو الشیخ والطبرانی جالس ینظر فی شیء ، فحضر بالباب علوی، فدقّ ففتحنا لہ، فإذا معہ غلامان مع کل واحد زنبیل فیہ شیء کثیر، فجلسنا وأکلنا وظننا أن الباقی یأخذہ الغلام، فولی وترک عندنا الباقی، فلما فرغنا من الطعام قال العلوی:یا قوم أشکوتم إلی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم؟ فإنی رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام فأمرین أن أحمل بشیء إلیکم‘‘ترجمہ:امام ابوبکر بن المقری ء نے فرمایا:ایک دن میں ابوالقاسم طبرانی اور ابوالشیخ روضہ رسول کی زیارت سے مشرّف ہوئے تو وہاں ہمیں بھوک نے شدید پریشان کیا ،ہم نے وہ دن اسی حالت میں گزار دیا ،جب رات ہوئی تو میں نے قبر پیغمبر کے پاس جا کر کہا :یا رسول اللہ!ہم بھوکے ہیں۔اس کے بعد اپنے دوستوں کے پاس پہنچا،ابوالقاسم طبرانی نے مجھ سے کہا :یہیں پر بیٹھ جاؤ ۔یا آج کھانا آئے گا یا موت ۔ابوبکر کہتے ہیں:میں اور ابوالشیخ اٹھے مگر امام طبرانی وہیں پر کچھ سوچ رہے تھے کہ اتنے میں اچانک ایک شخص نے مسجد کے دروازے پر دستک دی ،ہم نے دروازہ کھولا تو دیکھا ایک علوی شخص ہے جس کے ہمراہ دو غلام ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کھانے سے بھری ہوئی ٹوکریاں ہیں۔ ہم نے ان سے کھانا لیا اور سیر ہو کر کھایااور یہ سوچاکہ بچاہوا کھانا وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے لیکن وہ اسے وہیں پر چھوڑ کر چلے گئے۔جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس علوی نے کہا :کیا تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی ہے ؟ میں نے خواب میں رسول خدا کو دیکھا کہ انہوں نے مجھے فرمایا کہ تمہارے لئے غذا لے آؤں ۔

(وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی،خاتمۃ:فی نبذ مما وقع لمن استغاث بالنبیﷺ أو طلب منہ شیئا عند قبرہ،جلد4،صفحہ 200، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

اس طرح کے اور بھی کثیر مستند واقعات ہیں کہ حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں فریاد کی گئی تو آپ نے مدد فرمائی ۔ منکرین کے نظریات کو باطل ثابت کرنے کے لیے یہ چند بیان کردہ مستند واقعات ہی کافی ہیں۔

چار ہستیوں کو بعد از وصال بھی تصرف فرماتے دیکھا گیا

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں

”یکے از مشائخ عظام گفتہ است دیدم چہار کس را از مشائخ تصرف می کنند درقبور خود مانند تصرفہائے شاں درحیات خود یا بیشتر شیخ معروف و عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہما و دوکس دیگر راز اولیاء شمُردہ “

ترجمہ: ایک عظیم بزرگ فرماتے ہیں میں نے مشائخ میں سے چار حضرات کو دیکھا کہ اپنی قبروں میں رہ کر بھی ویسے ہی تصرف فرماتے ہیں جیسے حیات دنیا کے وقت فرماتے تھے یا اس سے بھی زیادہ (۱) شیخ معروف کرخی (۲) سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما، اور دو اولیاء اور کو شمار کیا۔ ( اشعۃ اللمعات، باب زیارۃ القبور،جلد1،صفحہ715، تیج کمار، لکھنؤ)

اولیاء کرام کو اہل دنیا کا علم ہوتا ہے

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں

”بعض خواص اولیاء راکہ جارجہ تکمیل و ارشاد بنی نوع خودگرد انند دریں حالت (یعنی بحالت عالم برزخ) دادہ واستغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع تو جہ بایں سمت نمی گردد “

ترجمہ: بعض خواص اولیاء جنھیں اپنے دوسرے بنی نوع کی تکمیل وارشاد کا ذریعہ بنایا ہے ان کو اس حالت میں تصرف در دنیا (یعنی عالم برزخ کی حالت میں) کے اندرتصرف بخشا ہے اور مشاہدہ الٰہی میں ان کا استغراق اس جانب توجہ سے مانع نہیں ہوتا اس لیے کہ ان کے مدارک بہت زیادہ وسعت رکھتے ہیں۔ ( تفسیر عزیزی، تحت والقمر اذا اتسق،صفحہ206، سلیم بک ڈپو لال کنواں ،دہلی)

اولیاء کرام اپنے عقیدت مندوں کی دنیا وآخرت میں مددفرماتے ہیں

قاضی ثناء اللہ پانی پتی تذکرۃ الموتٰی میں لکھتے ہیں

”اولیاء اللہ دوستان ومعتقدان را دردنیا وآخرت مددگاری می فرمایند ودشمناں راہلاک می نمایند واز ارواح بطریق اویسیت فیض باطنی می رسد“

ترجمہ: اولیاء اللہ اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کی دنیا وآخرت میں مدد فرماتے ہیں ا ور دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور روحوں سے اویسیت کے طریقے پر باطنی فیض پہنچاتے ہے۔ ( تذکرۃ الموتٰی والقبور اردو ترجمہ مصباح القبور باب روحوں کے ٹھہرنے کی جگہ کے بیان میں، صفحہ76 نوری کتب خانہ، لاہور)

ائمہ مجتہدین کی شان و عظمت

امام اجل عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ، الربانی میزان الشریعۃ الکبرٰی میں ارشاد فرماتے ہیں

” جمیع الائمۃ المجتہدین یشفعون فی اتباعھم ویلا حظونھم فی شدائھم فی الدنیا والبرزخ ویوم القیامۃ حتٰی یجاوز الصراط“

ترجمہ:تمام ائمہ مجتہدین اپنے پیرووں کی شفاعت کرتے ہیں اور دنیا و برزخ وقیامت ہر جگہ کی سختیوں میں ان پر نگاہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ صراط سے پار ہوجائیں۔ (المیزان الکبرٰی، مقدمۃ الکتاب،جلد1،صفحہ9، مصطفی البابی، مصر)

جس سے دنیا میں مدد مانگی جاسکتی ہے ا س سے بعد وصال بھی مانگ سکتے ہیں

امام غزالی قدس سرہ العالی پھر شیخ محقق پھر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

” واللفظ لشرح المشکٰوۃ حجۃ الاسلام امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ مے شود بوی درحیات استمداد مے شود بوی بعدازوفات“

ترجمہ: الفاظ شرح مشکوٰۃ کے ہیں: حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں جس سے زندگی میں مدد مانگی جائے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جاسکتی ہے۔ ( اشعۃ اللمعات ، باب زیارۃ القبور،جلد1،صفحہ715، مکتبہ نوریہ رضویہ ،سکھر)

اولیاء کرام مزارات پر آنے والوں کی مدد کرتے ہیں

امام ابن حجر مکی پھر شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شروح مشکوٰۃ میں فرمایا

”صالحاں رامدد بلیغ است بہ زیارت کنند گانِ خود رابر اندازہ ادب ایشاں“

ترجمہ: صالحین اپنے زائرین کے ادب کے مطابق ان کی بے پناہ مدد فرماتے ہیں۔ ( اشعۃ اللمعات، باب زیارۃ القبور جلد1،صفحہ715، مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر )

امام علامہ تفتازانی نے شرح مقاصد میں اہلسنت کے نزدیک علم وادراک موتٰی کی تحقیق کرکے فرمایا

” ولھذا ینتفع بزیارۃ قبور الابرار والاستعانۃ من نفوس الاخبار“

ترجمہ: اسی لیے قبور اولیاء کی زیارت اور ارواح طیبہ سے استعانت نفع دیتی ہے۔ (شرح المقاصد ،المبحث الرابع، مدرک الجزئیات عندنا الخ ، جلد2،صفحہ43، دارالمعارف النعمانیہ ،لاہور )

وصال شدہ ہستیوں کی مدد زیادہ قوی ہے یا زندوں کی؟

مشکوۃ شریف کی شرح اشعۃ میں ہے

”سیدی احمد بن زروق کہ از عاظم فقہاء وعلماء ومشائخ دیار مغرب است گفت روزے شیخ ابوالعباس حضرم از من پرسید امدادِحی قوی ست یا امداد میّت قوی ست من گفتم قوی می گویند کہ امداد حی قوی تر است ومن می گویم کہ امداد میّت قوی تراست پس شیخ گفت نعم زیرا کہ وی دربساط است ودر حضرت اوست (قال) ونقل دریں معنی ازیں طائفہ بیشتر ازان ست کہ حصر و احصار کردہ شود یافتہ نمی شود درکتاب و سنت اقوالِ سلف صالح چیزے کہ منافی ومخالف ایں باشد و ردکندایں را الخ“

ترجمہ: سیدی احمد بن زروق جودیارِ مغرب کے عظیم ترین فقہاء اور علماء ومشائخ سے ہیں فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ ابوالعباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا زندہ کی امداد قوی ہے یاوفات یافتہ کی؟ میں نے کہا کچھ لوگ زندہ کی امداد زیادہ قوی بتاتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وفات یافتہ کی امداد زیادہ قوی ہے۔ اسی پر شیخ نے فرمایا: ہاں ! اس لیے کہ وہ حق کے دربار اور اس کی بارگارہ میں حاضر ہے (فرمایا) اس مضمون کا کلام ان بزرگوں سے اتنا زیادہ منقول ہے کہ حد وشمار سے باہر ہے اور کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقول میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جو اس کے منافی ومخالف اور اسے رد کرنے والی ہو۔ ( اشعۃ اللمعات، باب زیارۃ القبور، جلد1،صفحہ716،مکتبہ نوریہ رضویہ ،سکھر)

صالحین سے مدد مانگنا شرک کیوں نہیں؟

انجینئر مرزا اور دیگر بدمذہب جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہی کافی ہے ،اسی سے مدد مانگی جائے تو یقینا اللہ عزوجل ہی حقیقی مددگار ہے اور اس سے ہی مسلمان مدد مانگتا ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی کسی بزرگ ہستی سے یہ نظریہ رکھتے ہوئے مدد مانگے کہ یہ اللہ عزوجل کی عطا سے مدد کرسکتا ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ مستند دلائل سے ثابت ہے۔ جو اسے شرک کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے بتوں والی آیات کے جو یہ مزارات اولیاء پر منطبق کرتے ہیں۔

امام علامہ علی بن عبدالکافی سبکی اپنی کتاب مستطاب’’ شفاء السقام‘‘ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں’’لیس المراد نسبۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الی الخلق والاستقلال بالافعال ھذا لایقصدہ مسلم فصرف الکلام الیہ ومنعہ من باب التلبیس فی الدین والتشویش علی عوام المؤحدین‘‘ترجمہ: نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مدد مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور خالق وفاعل مستقل ہیں ۔یہ تو کوئی مسلمان ارادہ نہیں کرتا، تو اس معنی پرکلام کو ڈھالنا اورحضور سے مدد مانگنے کو منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اورعوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔ (شفاء السقام، الباب الثامن فی التوسل والاستغاثہ الخ ،صفحہ175،مکتبہ نوریہ رضویہ ،فیصل آباد )

امام شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی میں ہے’’سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان و نحو ذالک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتہم ام لا ؟فاجاب بما نصہ ان الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصالحین جائزۃ وللانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم ‘‘ترجمہ: ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء ومرسلین واولیاء و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (یارسول اللہ ،یاعلی ،یا شیخ عبدالقادر جیلانی ) اوران کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟اوراولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں۔(فتاوی الرملی،مسائل شتی، جلد04، صفحہ733،درالکتب العلمیہ، بیروت )

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

13 شوال المکرم 1444ھ/04مئی2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں