مدنی چینل پر بیان کیے گئے ایک واقعہ پر اعتراض اور اس کا جواب

مدنی چینل پر بیان کیے گئے ایک واقعہ پر اعتراض اور اس کا جواب

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ آجکل مرزا انجینئر اور ان جیسے دیگر نام نہاد اسکالر بزرگان دین کی کرامات کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کو عقلی طور پر غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔امیر اہل سنت نے مدنی چینل میں مفتی دعوت اسلامی فارو ق عطاری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بتایا گیا کہ ظہر کے وقت ان کی قبر سے تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ اس پر یہ اعتراض کیا گیاکہ ظہر کی نماز میں قراءت سری ہوتی ہے اور جب جماعت سے نماز پڑھی جارہی تھی تو اونچی قراءت تو درست ہی نہیں تھی۔ اس کا جواب کیا ہوگا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

کرامات اولیاء کا ثبوت قرآن و حدیث کے کثیر دلائل سے ہے۔کرامات کا بغیر دلیل اپنی ناقص عقل سے انکار کرنا تو ہٹ دھرمی ہے کہ معجزہ کی طرح کرامت بھی خلاف عادت واقع ہوتی ہے جو عقل میں نہیں آتی۔

سوال میں بیان کردہ واقعہ پر اعتراض کرنا شرعا درست نہیں۔ کثیر مستند دلائل سے ثابت ہے کہ بزرگ ہستیاں قبر میں نماز پڑھتی اور ذکر اذکار کرتی ہیں اوریہ نمازیں ان پر شرعا فرض و واجب نہیں ہوتیں کیونکہ مرنے کے بعد میت پر کوئی چیز فرض و واجب نہیں رہتی۔ قبر میں یہ نمازیں اور ذکر صرف اللہ عزوجل کے ذکر سے لذت پانے کے لیے ہے۔ لہذا اہل میت کا قبر میں نماز و ذکر کرنے کے وہ احکام نہیں جو دنیا میں ہیں۔اگر ظہر کے وقت بھی وہ نماز میں بلندآوز سے قراءت کریں تو شرعا حرج نہیں۔

دوسرا یہ کہ سوال میں مذکور واقعہ سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ قراءت جہری تھی۔ مدنی چینل پر تو اتنا بیان کیا گیا کہ آواز سنائی دی ۔اگر قبر سے بندہ پورے زور سے بھی بولے تو باہر والوں کو آواز سنائی نہیں دی جاسکتی تو پھر جماعت سے نماز پڑھنے کی معمولی آواز کیسے سنائی دی گئی۔ صاف ظاہر ہے کہ جو ذات زور کی آواز باہرسنا سکتی ہے وہی ذات آہستہ قراءت کی آواز بھی سنا سکتی ہے اور مقصود اس واقعہ سے یہی بیان کرنا تھا کہ مفتی فاروق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور یہ ہستی ولی اللہ ہے۔

قرآن وحدیث میں ایسے کئی دلائل ہیں کہ بزرگ ہستیوں نے دور کی آواز کو اللہ عزوجل کی عطا سے سنا جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی آواز سنی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدینہ سے آواز حضرت ساریہ اور ان کے لشکر نے سنی وغیرہ،یونہی دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بزرگ ہستیوں کا اپنی قبور میں ذکر اذکا رکرنااور لوگوں کے دیکھنے سننے پر کثیر مستند داقعات موجود ہیں۔ چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں:

مجمع الزوائد میں ہے

” وعن أنس بن مالك قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون رواه أبو يعلى والبزار ورجال أبو يعلى ثقات “

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام اپنے قبروں میں زندہ ہیں ،نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس حدیث کو امام ابویعلی اور بزار نے روایت کیا اور ابویعلی کے راوی ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد،باب ذكر الأنبياء صلى الله عليهم وسلم ،جلد8،صفحہ386،حدیث13812،دار الفكر، بيروت)

کنزالعمال میں ہے

” إن الأنبياء لا يتركون في قبورهم بعد أربعين ليلة ولكن يصلون بين يدي الله تعالى حتى ينفخ في الصور“

ترجمہ:انبیاء علیہم السلام چالیس دنوں کے بعد اللہ عزوجل کے حضور نمازیں پڑھتے ہیں یہاں تک کہ صور پھونکا جائے گا۔

(كنز العمال، الفصل الأول في بعض خصائص الأنبياء عموما ،جلد11،صفحہ651،حدیث32230،مؤسسة الرسالة،بيروت)

حلیۃ الاولیاء میں عظیم تابعی محدث حضرت ثابِت بُنَانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ روزانہ ایک بار ختمِ قرآنِ پاک فرماتے تھے ، آپ ہمیشہ دِن کو روزہ رکھتے اور ساری رات عبادت کیا کرتے تھے ، جس مسجد کے قریب سے گزر ہوتا ، اس میں دو رکعت ضرور پڑھتے۔ نماز اور تِلاوت ِ قرآن کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو خصوصی محبت تھی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ پر ایسا کرم ہوا کہ رَشک آتا ہے ، چنانچہ وفات کے بعد دورانِ تدفین اچانک ایک اینٹ سَرَک کر قبر کے اندر چلی گئی ، لوگ اینٹ اُٹھانے کے لئے جب جھکے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہیں ، آپ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو شہزادی صا حبہ نے بتایا : والد محترم رحمۃ اللہ علیہ روزانہ دعا کیا کرتے تھے

”اللهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ الصَّلَاةَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِيهَا “

ترجمہ:یا اللہ! اگر تو کسی کو وفات کے بعد قبر میں نماز پڑھنے کی سَعَادت عطا فرمائے تو مجھے بھی مُشَرَّف فرمانا۔ منقول ہے : جب بھی لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر انور کے قریب سے گزرتے تو قبرسے تِلاوتِ قرآن کی آواز آرہی ہوتی۔

(حلیۃ الاولیاء ، جلد2 ، صفحہ319۔۔۔ ملتقطاً، دار الكتاب العربي، بيروت)

فیض القدیر میں ہے

” فإن قيل كيف يصلون بعد الموت وليس تلك حالة تكليف؟ قلنا ذلك ليس بحكم التكليف بل بحكم الإكرام والتشريف لأنهم حبب إليهم في الدنيا الصلاة فلزموها ثم توفوا وهم على ذلك فتشرفوا بإبقاء ما كانوا يحيونه عليه فتكون عبادتهم إلهامية كعبادة الملائكة لا تكليفية “

ترجمہ: اگر کہا جائے کہ وصا ل کے بعد کیسے نمازیں پڑھتے ہیں جبکہ قبر میں وہ مکلف نہیں تو ہم نے یہ کہا کہ یہ مکلف کرنے کے طور پر حکم نہیں بلکہ اکرام وشرف کے طور پر ہے کہ دنیا میں نماز ان کو محبوب تھی اور انہوں نے اپنے اوپر اسے لازم کیا،پھر اس حال میں دنیا سے پردہ کیا تو جس چیز سے دنیا میں محبت تھی اسی کو باقی رکھنے کے ساتھ مشرف کیے گئے ۔ لہذا یہ عبادت الہامیہ ہے تکلیفیہ (بطور مکلف ) کے نہیں جیسے فرشتوں کی عبادت ۔

(فيض القدير شرح الجامع الصغير،حرف الميم،جلد5،صفحہ519،المكتبة التجارية الكبرى، مصر)

قاضی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی تذکرۃ الموتی میں لکھتے ہیں

”اولیاء اﷲگفتہ اندارواحنا اجسادنایعنی ارواح ایشاں کار اجساد مے کنند وگاہے اجساد ازغایت لطافت برنگ ارواح مے برآید، می گویند کہ رسول خدا راسایہ نبود ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ارواح ایشاں از زمین وآسمان وبہشت ہر جاکہ خواہند مے روند، وبسبب ایں ہمیں حیات اجساد آنہار ا درقبرخاک نمی خورد بلکہ کفن ہم می باند، ابن ابی الدنیا از مالک روایت نمود ارواحِ مومنین ہر جاکہ خواہند سیر کنند ،مراد از مومنین کاملین اند، حق تعالٰی اجسادِ ایشاں راقوتِ ارواح مے دہد کہ دوقبور نماز میخوانند (ا داکنند) وذکر می کنند وقرآن کریم مے خوانند “

ترجمہ:اولیاء اﷲ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں۔ یعنی ان کی ارواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔ ابن ابی الدنیاء نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سَیر کرتی ہیں۔ مومنین سے مراد کاملین ہیں ، حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ۔( تذکرۃ الموتٰی والقبور ،ارواح کے ٹھہرنے کی جگہ ،صفحہ75،نوری کتب خانہ نوری مسجد اسلام گنج لاہور )

سنن ترمذی میں ہے

” عن ابن عباس، قال: ضرب بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر، وهو لا يحسب انه قبر، فإذا فيه إنسان يقرا سورة تبارك الذي بيده الملك حتى ختمها، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني ضربت خبائي على قبر، وانا لا احسب انه قبر فإذا فيه إنسان يقرا سورة تبارك الملك حتى ختمها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” هي المانعة هي المنجية تنجيه من عذاب القبر “، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وفي الباب، عن ابي هريرة“

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا اور انہیں معلوم نہیں ہوا کہ وہاں قبر ہے، (انہوں نے آواز سنی) اس قبر میں کوئی انسان سورۃ «تبارك الذي بيده الملك» (یعنی سورۃ الملک)پڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ وہ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس جگہ ایک انسان سورۃ «تبارك الملك» پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ آپ نے فرمایا: یہ سورۃ مانعہ ،منجیہ ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے۔(سنن ترمذی حدیث 2890 مطبوعہ کراچی)

اس حدیث کی شرح میں مراۃ المناجیح میں ہے:

”مرقات نے یہاں فرمایا کہ بعض مردے قبر میں بھی بعض وہ نیکیاں کرتے رہتے ہیں جو زندگی میں کرتے تھے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ جس حال میں جیو گے اسی میں مرو گے اور جس حال میں مرو گے اسی میں اٹھو گے،اس لیے کوشش کرو کہ زندگی اچھے اعمال میں گزارو۔ (صحابی نے ) تعجب کا اظہار کیا کہ مردہ بھی تلاوت قرآن کررہا تھا۔(حضور علیہ ا لسلام نے فرمایا) اس سورت کی تلاوت کرنے والے کو زندگی میں گناہوں سے، موت کے وقت خرابی خاتمہ سے، قبر میں عذاب و تنگی گورسے، آخرت میں دہشت و سخت عذاب سے بچاتی ہے۔ خلاصہ جواب یہ ہوا کہ یہ شخص اپنی زندگی میں اس سورۃ کی تلاوت کرتا تھا اب قبر میں بھی تلاوت کررہا ہے اور اس سے مذکورہ بالا فائدے حاصل کرچکا ہے اب بھی کر رہا ہے آئندہ بھی کرے گا۔

( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب قرآن کے فضائل جلد3، حدیث نمبر 2154 )

دلائل النبوة بیہقي میں ہے

حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے بعد شہداء اُحد کی قبور کے پاس تھی اور میرے ہم راہ میری بہن بھی تھی۔ میں نے اسے کہا: آؤ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر پر سلام کرتے ہیں۔اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ ہم نے ان کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا

”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ، یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَسَمِعْنَا کَلَامًا رَدَّ عَلَیْنَا: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ. قَالَتْ: وَمَا قُرْبَنَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ“

اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جان! آپ پر سلامتی ہو۔ (یہ کہنا تھا کہ) پھر ہم نے وہ کلام سنا جو انہوں نے ہمیں جواباً فرمایا (اور وہ یہ تھا: ) وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ (اور تم پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو)۔ اس وقت لوگوں میں سے ہمارے آس پاس کوئی شخص بھی نہ تھا۔( دلائل النبوة بیہقي، جلد 3: صفحہ 309 مطبوعہ بیروت)

دلائل النبوہ میں ہے کہ ہاشم بن محمد عمری حضرت عمر بن علی کی اولاد میں سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: مدینہ منورہ میں جمعہ کے روز فجر اور سورج کے طلوع ہونے کے درمیان میرے والد مجھے شہداء اُحد کی قبروں کی زیارت کے لیے لے گئے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ قبروں کے پاس پہنچے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا:

”سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ، فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ “

تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔

راوی بیان کرتے ہیں: (قبر والوں نے) جواب دیا :

”وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ“ اے ابو عبد اللہ تم پر بھی سلامتی ہو۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی، باب قول الله عز وجل: ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا ۔۔۔۔جلد3،صفحہ309، دار الكتب العلمية – بيروت)

سنن دارمی میں ہے

” عن سعيد بن عبد العزيز، قال: لما كان أيام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبي صلى الله عليه وسلم “

ترجمہ:حضرت سعید بن عبد العزیز فرماتے ہیں سانحۂ حرہ کے دوران تین دن تک مسجدِ نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ مسجدِ نبوی ہی میں مقیم تھے۔ انہیں نماز کا وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے سنائی دینے والی آواز ہی سے معلوم ہوتا تھا۔(سنن الدارمي جلد 1 صفحہ 227 مطبوعہ دار المغنی الریاض)

الحاوی للفتاوی میں ہے

’’وَقَالَ الْحَافِظُ محب الدين بن النجار فِي تَارِيخِهِ: أَخْبَرَنِي أبو أحمد داود بن علي بن هبة الله بن المسلمة أَنَا أبو الفرح المبارك بن عبد الله بن محمد بن النقور قَالَ: حَكَى شَيْخُنَا أبو نصر عبد الواحد بن عبد الملك بن محمد بن أبي سعد الصوفي الكرخي قَالَ: حَجَجْتُ وَزُرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ الْحُجْرَةِ إِذْ دَخَلَ الشَّيْخُ أبو بكر الدياربكري وَوَقَفَ بِإِزَاءِ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ دَاخِلِ الْحُجْرَةِ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا أبا بكر، وَسَمِعَهُ مَنْ حَضَرَ‘‘

شیخ ابو نصر عبد الواحد بن عبد الملک بن محمد بن ابی سعد الصوفی الکرخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حج سے فراغت کے بعد زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے حاضر ہوا، حجرہ شریفہ کے پاس بیٹھا تھا کہ شیخ ابوبکر دیار بِکری رحمہ اللہ تشریف لائے، اور مواجہ شریفہ کے سامنے کھڑے ہوکر عرض کیا ”السلام علیک یا رسول الله“ تو میں نے حجرہ شریفہ کے اندر سے یہ آواز سنی ”وعلیک السلام یا أبابکر“ترجمہ: اے ابوبکر تم پر بھی سلام ہو۔ ان سب لوگوں نے جو اس وقت حاضر تھے اس آوازکو سنا۔(الحاوی للفتاوی ،جلد2 صفحہ 314 مطبوعہ دار الفکر العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ممبر فقہ کورس

24 ربیع الاول 1445ھ11اکتوبر 2023ء

نظرثانی و ترمیم

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں