علمائے اسلاف سے میلاد ثابت ہے سیرت کانفرنس نہیں

علمائے اسلاف سے میلاد ثابت ہے سیرت کانفرنس نہیں

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ہرسال دیوبندی وہابیوں کی طرف سے ایک پوسٹ سوشل میڈیا میں عام ہوتی ہے کہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں بارہ ربیع الاول اتنی مرتبہ آیا انہوں نے کبھی میلاد نہیں منایا،حضرت ابوبکر صدیق کی زندگی ،فلاں صحابہ کی زندگی میں اتنی مرتبہ آیا انہوں نے نہیں منایا، اب اہل سنت منانا شروع ہوگئے اس لیے یہ بدعت ہے۔دیوبندی وہابی کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ نے نہیں کیا وہ بدعت ہے اور مسلمانوں کو قرآن وحدیث اور علمائے اسلاف(جو مستند علماء گزر چکے ہیں) کی پیروی کرنی چاہیے۔آپ اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

کاش کے دیوبندی، وہابی سیرت کانفرنس کرتے وقت بھی یہی خود ساختہ اصول اپنا لیں اور ہمیں بتادیں کہ سیرت کانفرنس کتنی مرتبہ حضور علیہ السلام نے اپنی زندگی میں منعقد کی ہے اور صحابہ کرام میں سے کون کون یہ کرتارہا ہے؟

اگر یہ اصول اپنایا جائے کہ جو کام حضور علیہ السلام یا صحابہ نے نہیں کیا وہ ناجائز و بدعت ہے تو اس دور کے درجنوں اعمال ناجائز و بدعت ہوں گے جو وہابی دیوبندی بھی کررہے ہیں جیسے رمضان المبارک میں شبینہ ، ستائیسویں کا ختم،ختم بخاری ،سالانہ دستارِ فضیلت کے اجتماعات، اپنی اپنی دینی تحریکوں کی جھنڈے،جمعہ کا اردو بیان،مسجدوں کی گنبد و مینار وغیرہ

دراصل وہابی دیوبندیوں نے اپنی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا ہے کہ جو کام انہوں نے نہ کرنا ہو بالخصوص جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر بزرگ ہستیوں کی تعظیم کا پہلو ہو اسے شرک بدعت کہہ دو اور اس پر خود ساختہ اصول لاگو کردو اور جب اسی طرح کے کام خود کرنے ہوں تو اسے جائز کہہ دو اور اپنے اصول بھول جاؤ­۔

یہ اصول تو کسی حدیث میں نہیں کہ جس فعل پر حدیث نہ ہو وہ ناجائز و بدعت ہے بلکہ یہ اصول احادیث میں ہے کہ جو فعل قرآن وحدیث میں حرام ہے فقط وہی حرام ہے ۔جس کی حرمت قرآن وسنت سے ثابت نہیں وہ جائز ہے۔

چودہ صدیوں میں کسی بھی مستند عالم سے یہ بات ثابت نہیں کہ جو کام حضور علیہ السلام یا صحابہ کرام نے نہ کیا ہو وہ بدعت ہےبلکہ علمائے اسلاف سے واضح طور پر کئی نیک کام بشمول میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بدعت حسنہ ہونا ثابت ہے۔ فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ بغیر دلیل کسی فعل کو مکروہ کہنا درست نہیں چہ جائیکہ کسی فعل کو بغیر دلیل شر ک و بدعت کہا جائے۔

ابن ماجہ اور جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے

”عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالجُبْنِ وَالفِرَاءِ، فَقَالَ: الحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ “

ترجمہ:سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی،مکھن اورگدھے کی کھال کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام بتایا اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے( یعنی جائز ہے۔)

( جامع الترمذی ابواب اللباس، باب ماجاء في لبس الفراء، ج3، ص272، دار الغرب الاسلامي بيروت)

سنن دار قطنی میں ہےحضرت ابو ثعلبہ مشنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

”إِنَّ اللَّهَ عزوجل فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيَّعُوهَا وَحَرَّمَ حُرِّمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا وَحَدَ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبحَثُوا عَنْهَا“

ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے کچھ باتیں فرض کیں انہیں ہاتھ سے نہ جانے دو اور کچھ حرام فرمائیں اُن کی حرمت نہ توڑ واور کچھ حدیں باندھیں اُن سے آگے نہ بڑھو اور کچھ چیزوں سے بے بھولے سکوت(کوئی حکم نہیں) فرمایا اُن میں بحث نہ کرو۔(سنن دار قطنی، کتاب الرضاع ، ج 5، ص 325، موسسة الرسالة، بيروت)

ردالمحتار میں ہے

”ثبوت الکراہۃ إذ لا بد لہا من دلیل خاص“

ترجمہ: مکروہ ثابت کرنے کے لئے دلیل خاص کی ضرورت ہوتی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطہارت،سنن الوضوء ،جلد1،صفحہ124، دار الفکر،بیروت)

باقی یہ بات تو دیوبندی ،وہابیوں کی درست ہے کہ علمائے اسلاف کے پیچھے چلنا چاہیے اورحدیث پاک میں بھی یہ اصول بتایا گیا کہ جب اختلاف ہو تو بڑے گروہ کی پیروی کرو چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ابن ماجۃ ابو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی(المتوفی273ھ) رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک روایت کرتے ہیں کہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

’’إِنَّ أُمَّتِی لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَۃٍ، فَإِذَا رَأَیْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ‘‘

ترجمہ: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔ جب تم اختلاف دیکھو تو تم پر بڑے گروہ کی اتباع لازم ہے۔( ابن ماجہ،کتاب الفتن ،باب السواد الأعظم،جلد2،صفحہ1303،دار إحیاء الکتب ،الحلبی)

اسلاف کی پیروی اور امت مسلمہ سے اتحاد کی خوبی الحمدللہ عزوجل اہل سنت میں پائی جاتی ہے ، دیوبندی وہابیوں میں نہیں۔ دیگر عقائد و نظریات کو چھوڑ کر اگر ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی لے لیں تو اس سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد منانے میں ہم علمائے اسلاف سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہم کھڑے ہیں اور میلاد کو بدعت کہنے والے دیوبندی وہابی تن تنہا ہیں۔ اگر میلاد شریف منانا ناجائز و بدعت ہوتاتو اللہ عزوجل و اس کا رسول اس سے منع ضرورفرماتا کہ مسلم دنیا کی اکثریت بشمول بڑے بڑے علماء اس میں مبتلا ہیں۔اگر میلاد بدعت ہے تو اس وقت اور سابقہ سالوں میں امت مسلمہ کی اکثریت بدعتی ہوئی جبکہ مذکورہ حدیث میں صراحت ہے کہ امت کی اکثریت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔

مستند علمائے کرام جن کو وہابی بھی مانتے ہیں انہوں نے مروجہ میلاد شریف کو بدعت حسنہ فرمایا اور اسے جائز ثابت کرنے کے ساتھ اس کے فضائل و برکات بھی ارشادفرمائے ہیں۔

امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب الحاوی للفتاوٰی میں میلاد شریف کے متعلق لکھتے ہیں

’’سئل شیخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصہ أصل عمل المولد بدعۃ لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثۃ، ولکنہا مع ذلک قد اشتملت علی محاسن وضدہا، فمن تحری فی عملہا المحاسن وتجنب ضدہا کان بدعۃ حسنۃ ‘‘

ترجمہ:شیخ الاسلام حافظ العصر ابوالفضل ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ سے میلاد شریف میں ہونے والے افعال کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :اصل میں میلاد بدعت ہے کہ قرون ثلاثہ کے سلف صالحین سے منقول نہیں ہے ،لیکن یہ اچھے اور ناپسندیدہ افعال پر مشتمل ہے اگر کوئی میلاد میں اچھے اعمال کرے اور غیر شرعی افعال(جیسے گانے باجے ،میوزک والی نعتیں، ذکر والی نعتیں وغیرہ) سے بچے تو میلاد بدعت حسنہ ہے ۔ (الحاوی للفتاوٰی بحوالہ ابن حجر ،حسن المقصد فی عمل المولد ،جلد1،صفحہ229،دارالفکر ،بیروت)

امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ امام ابن حجر ہیتمی اور امام نووی کے شیخ رحمۃ اللہ علیہما کے حوالے سے انسان العیون میں لکھتے ہیں

’’وقد قال ابن حجر الہیتمی: والحاصل أن البدعۃ الحسنۃ متفق علی ندبہا، وعمل المولد واجتماع الناس لہ کذلک أی بدعۃ حسنۃ، ومن ثم قال الإمام أبو شامۃ شیخ الإمام النووی: ومن أحسن ما ابتدع فی زماننا ما یفعل کل عام فی الیوم الموافق لیوم مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من الصدقات والمعروف وإظہار الزینۃ والسرور، فإن ذلک مع ما فیہ من الإحسان للفقراء مشعر بمحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم وتعظیمہ فی قلب فاعل ذلک، وشکر اللہ علی ما منّ بہ من إیجاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الذی أرسلہ رحمۃ للعالمین ‘‘

ترجمہ:ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بدعت حسنہ کے مستحب ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ میلاد شریف کرنا اور اس کے لئے لوگوں کا اجتماع بھی بدعتِ حسنہ ہی ہے ۔اسی وجہ سے امام ابو شامہ شیخ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے زمانے میں لوگوں نے جواچھے کام شروع کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ہر سال میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن صدقات کرتے ہیں،نیک اعمال کرتے ہیں، خوشی اور زینت کا اظہار کرتے ہیں۔پس بے شک اس میں فقراء پر احسان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعمال اس کرنے والے کے دل میں حضور علیہ السلام کی محبت و عظمت ہونے کی علامت ہے اور اللہ عزوجل کا شکر اد اکرنا ہے کہ اس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جیسی نعمت عطا فرمائی جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔

(انسان العیون ،باب تسمیتہ صلی اﷲعلیہ وسلم محمداواحمدا،جلد1،صفحہ123،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

امام ابوالخیرسخاوی تحریرفرماتے ہیں

’’ثم لازال اھل الاسلام فی سائرالاقطار والمدن یشتغلون فی شھرمولدہ صلی اﷲ علیہ وسلم بعمل الولائم البدیعۃ المشتملۃ علی الامور البھجۃ الرفیعۃ ویتصدقون فی لیالیہ بانواع الصدقات و یظھرون السرور یزیدون فی المبرات ویھتمون بقرأۃ مولدہ الکریم ویظھر علیھم من برکاتہ کل فضل عمیم‘‘

ترجمہ: پھر اہل اسلام تمام اطراف واقطار اورشہروں میں بماہ ولادت رسالت مآب صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم عمدہ کاموں اور بہترین شغلوں میں رہتے ہیں اور اس ماہ مبارک کی راتوں میں قسم قسم کے صدقات اوراظہارسروروکثرت حسنات واہتمام قراء ۃ مولدشریف عمل میں لاتے ہیں اور اس کی برکت سے ان پرفضل عظیم ظاہرہوتاہے۔ ( انسان العیون،بحوالہ السخاوی ،جلد1،صفحہ83،المکتبۃ الاسلامیہ، بیروت)

دیوبندی وہابیوں کا ہرسال ایک لسٹ بنانا کہ فلاں کی زندگی میں اتنی مرتبہ بارہ ربیع الاو ل آئی اس نےنہیں منایاو غیرہ یہ ان کی جہالت ہے،یہ لسٹ سیرت کانفرنس کے متعلق یہ کیوں نہیں بناتے کہ فلاں کی زندگی کے اتنے سال تھے اس نے کتنی مرتبہ سیرت کانفرنس کا جلسہ کیا ؟

وہابیوں کے جواب میں چند علمائے اسلاف کے حوالہ سے ایک لسٹ ملاحظہ ہو:

ابو الفرج عبد الرحمٰن امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 508ھ میں ہوئی اور وفات 597 ھ میں ،کل 89 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:بيان الميلاد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

امام نووی کے شیخ امام ابو شامہ عبد الرحمان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 599ھ میں ہوئی اور وفات665ھ میں کل 66 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ ( ملاحظہ: الباعث علی انکار البدع والحوادث )

اِمام شمس الدین الذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 673ھ میں ہوئی اور وفات 748ھ میں کل75 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو:سیر اعلام النبلاء)

اِمام تقی الدین ابو الحسن السبکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 683ھ میں ہوئی اور وفات 756ھ میں کل 73 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو: روح البیان)

سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 549ھ میں ہوئی اور وفات 630ھ میں کل 81 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو:البدایہ والنہایہ)

ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1256 ء میں ہوئی اور وفات 1336 ء میں، کل 80 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:المدخل )

امام الحافظ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 831ھ میں ہوئی اور وفات 902ھ میں، کل 71 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو: انسان العیون )

حافظ ابن حجر عسقلانی کی ولادت 773میں ۔اور وفات 852ھ میں کل 79 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو:حسن المقصد في عمل المولد)

امام شہاب الدین ابو العباس قسطلانی کی ولادت 851میں اور وفات 923ھ میں کل 72 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو: المواہب اللدنیہ)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 849ھ میں ہوئی اور وفات 911ھ میں، کل 62 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:روح البیان)

امام نور الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 975ھ میں ہوئی اور وفات 1043ھ میں،کل 68 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو: انسان العیون )

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1063ھ میں ہوئی اور وفات 1127ھ میں، کل 64 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:روح البیان)

امام احمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 909 ھ میں ہوئی اور وفات 974 ھ میں، کل 65 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو: انسان العیون )

ابو الخير شمس الدين جزري رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 751ھ میں ہوئی اور وفات 833ھ میں، کل 82 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:مواہب اللدنیہ )

ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفی 1014ھ) نے پوری زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو:المورد الروی فی مولد النبی ﷺ ونسبه الطاه)

حضرت مجدد الف ثانی کی ولادت 971ھ میں ہوئی اور وفات 1034ھ میں کل 63سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو: مکتوبات مجدد الف ثانی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت958 ھ میں ہوئی اور وفات1052ھ میں، کل 94 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:مدارج النبوۃ)

دیوبندی ،وہابیوں اور اہل سنت سب کے نزدیک ایک مستند شخصیت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1114ھ میں ہوئی اور وفات 1174ھ میں، کل 60 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:فیوض الحرمین )

شاہ ولی اللہ کے والد ابو الفیض عبد الرحیم دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1054ھ میں ہوئی اور وفات 1131ھ میں کل 77 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:رسائل شاہ ولی اللہ دہلوی)

دیوبندیوں کے پیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1233ھ میں ہوئی اور وفات 1317ھ میں،کل 82 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو: کلیات امدادیہ)

دیوبندی مولوی خلیل احمد سہارنپوری انبیٹھوی 1852ء کو پیدا ہوا اور وفات 1927ء میں ہوئی ، کل 75 سالہ زندگی میں اس سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو: المہند )

دیوبندیوں کا امام اشرف علی تھانوی 1280ھ کو پیدا ہوا اور 1362ھ کو وفات ہوئی تو کل 82 سالہ زندگی میں ان سے ایک مرتبہ بھی سیرت کانفرنس ثابت نہیں البتہ میلاد ثابت ہے۔(ملاحظہ ہو:مجالس حکیم الامت)

اب ہم پوچھتے ہیں:

بیان کردہ تمام علماء دیوبندی وہابیوں کے نزدیک مستند ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ان کی پیروی کیوں نہیں؟

اگر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت اور سیرت کانفرنس نیکی کا کام تھا تو ان بیان کردہ علماء نے میلاد کیوں منایا یا اسے جائز کیوں کہا اور سیرت کانفرنس جیسی اہم نیکی کیوں چھوڑ دی کیا ان میں نیکیوں کی رغبت موجودہ وہابیوں ،دیوبندیوں سے کم تھی؟

اگر یہ سب علماء میلاد منانے یا اسے جائز کہنے کے سبب گناہ گار و بدعتی ہوئے تو موجودہ دیوبندی وہابیوں کا ان کی پیروی کرنا اور ان کی کتب کے حوالے بطور دلیل دینا کیسا؟

وہابی ،دیوبندی اگر تو قرآن وسنت اور اسلاف کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے ہوں گے تو ضرور میلاد کو بدعت کہنا چھوڑ دیں گے اور اگر ہمیشہ کی طرح ہٹ دھرمی کریں گے تو اپنے مطلب کی احادیث سے غلط معنی لے کر بقیہ احادیث و اصول کا انکار کر کے اپنے خود ساختہ اصولوں سے میلاد کو بدعت کہتے رہیں گے اور خود سیرت کانفرنسیں کرتے رہیں گے اور ان دیوبندی،فرقوں سے تعلق رکھنی والی جاہل عوام ہمیشہ کی طرح ہرسال پھر وہی پرانی پوسٹیں بے شرمی سے وائرل کرتی رہے گی کہ فلاں کی زندگی میں اتنی مرتبہ بارہ ربیع الاول آیا،فلاں کی زندگی میں اتنی مرتبہ انہوں نے نہیں منایا ،اہل سنت کیوں مناتے ہیں؟ وہ کیا حضور علیہ السلام سے محبت نہ کرتے تھے؟ وہ زیادہ نیکیاں کمانے میں کیا رغبت نہ رکھتے تھے؟وغیرہ

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد محمد انس رضا قادری

10ربیع الاول 1445ھ27ستمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں