دیوبندی مولوی تقی عثمانی کا بیان کہ جشن آزادی جائز اور میلاد بدعت کیوں ہے؟

دیوبندی مولوی تقی عثمانی کا بیان کہ جشن آزادی جائز اور میلاد بدعت کیوں ہے؟

سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ دیوبندیوں اوروہابیوں پر اہل سنت یہ اعتراض کرتے تھے کہ تم جشن میلاد کو بدعت اور جشن آزادی کو جائز کہتے ہو یہ کس اصول پر ہے؟ دیوبندیوں کے ایک مولوی تقی عثمانی نے اس پر ایک بیان دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم (دیوبندی) جشن آزادی کو اس لیے جائز کہتے ہیں کہ یہ دینی کام نہیں بلکہ دنیاوی عمل ہے اور میلاد دینی کام ہے اور حدیث پاک میں ہر وہ کام بدعت کہا گیا ہے جو دین میں نیا ہو۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس حوالے سے راہنمائی فرمائیں کہ کیا وہابی مولوی کا یہ جواب کیا درست ہے؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

دیوبندی مولوی تقی عثمانی اور اسی طرح دیگر وہابی مولوی جو جواب دیتے ہیں وہ شرعی اصولوں کے مطابق درست نہیں۔دیوبندی وہابی پہلے یہ بتائیں کہ یہ جو سیرت کانفرنس کرتے ہیں یہ دنیاوی عمل سمجھ کرکرتے ہیں یا دینی ثواب کا کام سمجھ کر؟ اگر یہ دینی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں تو یہ بدعت کیوں نہیں؟ اگر یہ دنیاوی فعل سمجھتے ہیں تو اپنی عوام کو کیوں نہیں بتاتے کہ وہ تو سیرت کانفرنس میں لاکھوں روپے ثواب سمجھ کر لگاررہے ہیں۔

نیز دیوبندی وہابی افتتاح بخاری ،ختم بخاری، ختم نبوت اور دیگر جلسے، سالانہ تبلیغی اجتماع، چالیس دن کے تبلیغی چلّے دین سمجھ کر کرتے ہیں یا دنیاوی کام سمجھ کر کرتے ہیں؟ اگر دین اورثواب سمجھ کر کرتے ہیں (جیسا کہ ثابت ہے)تو یہ ان کے اپنے اصول کے مطابق ناجائز و بدعت ہوا۔

وہابی مولوی تقی عثمانی کا جشن آزادی کو خالص ایک دنیاوی عمل قرار دینا بھی درست نہیں کیونکہ وطن کی محبت دینی طور پر مشروع ہے،پھر اگر وہ ملک اسلامی ہو اور اس وجہ سے محبت ہوکہ اس میں ہم آزادنہ طور پر دینی امور سرانجام دیتے ہیں تو اس کی یہ محبت فقط دنیاوی نہیں رہ جاتی۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی آزادی کے لیے علمائے کرام اور مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔کیا وہ جو آزادی کے لیے مسلمانوں قتل کیے گئے اور آج بھی جو پاکستانی فوجی اپنے ملک کے لیے جانیں دیتے ہیں کیا یہ وہابیوں کے نزدیک شہید نہیں کیونکہ ان کے نزدیک تو وطن ایک دنیاوی معاملہ ہے۔

عمدۃ القاری میں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 855ھ)، فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 852ھ)،التوشیخ شرح جامع صحیح میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 911ھ) اورتحفۃ الاحوذی میں وہابی مولوی مبارکفوری (المتوفی 1353 ھ) نے لکھا ہے

” عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قدم من سفر فنظر إلى جدرات المدينة أوضع ناقته وإن كان على دابة حركها من حبها۔۔۔ وفي الحديث دلالة على فضل المدينة وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه“

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے آتے اور مدینہ کی دیواروں کی طرف دیکھتے تو اپنا اونٹ رکھ دیتے اور اگر کسی جانور پر ہوتے تو اسے حرکت دیتے مدینے کی محبت کے سبب۔ اوریہ حدیث مدینہ کی فضیلت اور وطن سے محبت و اشتیاق کے مشروع ہونے پر دلیل ہے۔

(فتح الباري شرح صحيح البخاري،جلد3،صفحہ621، دار المعرفة،بيروت)

شرح رياض الصالحين میں وہابی مولوی محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفی1421ھ)لکھتا ہے

”حب الوطن إن كان لأنه وطن إسلامي فهذا تحبه لأنه إسلامي. ولا فرق بين وطنك الذي هو مسقط رأسك، أو الوطن البعيد من بلاد المسلمين؛ كلها وطن الإسلام يجب أن نحميه “

ترجمہ: وطن کی محبت اگر اس لیے ہو کہ یہ اسلامی ملک ہے ، تو آپ اس سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ یہ اسلامی ہے۔ آپ کا وطن، جو آپ کی جائے پیدائش ہے، یا مسلم ممالک سے دور وطن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسلام کے وطن ہیں ۔تو واجب ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں۔

(شرح رياض الصالحين،جلد1،صفحہ66،دار الوطن للنشر، الرياض)

نیز جشن آزادی اور دیگر 23 مارچ،6 ستمبر کے جو سرکاری دن ہوتے ہیں اس میں شہداء کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے ،وہابی سرکاری مولوی بھی فوجی افسران کے ساتھ ہاتھ باندھ کرشہداء کی قبروں پر پھول رکھتے اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں،کیا یہ دعا بھی دنیاوی فعل ہے یا اس دعا کا ثواب ملے گا؟ اگر دعا کا ثواب ملے گا کیونکہ دعا ایک نیک کام ہے تو یہی دعا اور صدقہ و خیرات میلاد میں کیا جائے تو وہ بدعت کیوں ہے ؟کیا کوئی بھی دنیاوی فعل یا رسم ہو اس میں کوئی نیک کام کیا جائے وہ بے ثواب و بدعت ہوتا ہے؟ اگر ثواب رہتا ہے تو میلاد میں وہ نیک کام بدعت کیوں ہوگئے؟

اگر کوئی وہابی دیوبندی یہ کہے کہ بالفرض مان لیں کہ جشن آزادی میں دعائے خیر اور میلاد میں نیک اعمال کا ثواب اپنے اصول کے مطابق درست ہے لیکن بغیر کوئی نیک کام کرنے کے فقط میلاد شریف پر خوش ہونا کیسے شرعاپسندیدہ عمل ہے؟

تواس کا جواب یہ ہے کہ میلاد پر محفل نعت،لنگر تقسیم کرنا وغیرہ سب ثواب کے کام ہیں ،لیکن اگر کوئی مسلمان یہ افعال نہ بھی کرے فقط میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوش ہو اور مسرت کا اظہار کرے تو یہ بھی مستحب عمل ہے اور مستند علمائے کرام (جن کو وہابی دیوبندی بھی مانتے ہیں ) نے اس کے اچھے فعل ہونے کی صراحت کی ہے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ اور علامہ جزری علیہ الرحمہ نے بھی اپنے رسالہ میلاد شریف میں ابولہب کے اس واقعہ کہ جس میں اس نے حضور علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں لونڈی کو آزاد کیا تھا اس واقعہ پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اذاکان ھٰذا ابولہب الکافرالذی نزل القراٰن بذمہ جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ فما حال المسلم الموحدمن امتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الٰی آخرہ ‘‘

ترجمہ:جب یہ حال ابو لہب جیسے کافر کا ہے جس کی مذمت میں قرآن نال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی شب خوشی منانے کی وجہ سے اس کو بھی قبر میں بدلہ دیا گیا توآپ کے موحد ومسلمان امتی کا کیا حال ہوگا ؟( المواہب اللدنیہ،المقصد الاول ،ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم،جلد1،صفحہ89،المکتبۃ التوفیقیۃ )

امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب الحاوی للفتاوٰی میں میلاد شریف کی اصل عاشوراء کے روزے کو حدیث سے ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں

’’ فیستفاد منہ فعل الشکر للہ علی ما من بہ فی یوم معین من إسداء نعمۃ أو دفع نقمۃ، ویعاد ذلک فی نظیر ذلک الیوم من کل سنۃ‘‘

ترجمہ: اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ جس معین دن میں کوئی نعمت ملے یاکوئی مصیبت دور ہواس دن اللہ عزوجل کا شکر کرنا درست ہے۔ اورہر سال اس دن کو منانا اس واقعہ کی یاد تازہ کرنا ہے ۔ (الحاوی للفتاوٰی بحوالہ ابن حجر ،حسن المقصد فی عمل المولد ،جلد1،صفحہ229،دارالفکر ،بیروت)

امام ابو شامہ امام نووی کے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا

’’ ومن أحسن ما ابتدع فی زماننا ما یفعل کل عام فی الیوم الموافق لیوم مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من الصدقات والمعروف وإظہار الزینۃ والسرور ‘‘

ترجمہ: ہمارے زمانے میں لوگوں نے جواچھے کام شروع کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ہر سال میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن صدقات کرتے ہیں،نیک اعمال کرتے ہیں، خوشی اور زینت کا اظہار کرتے ہیں۔(انسان العیون ،باب تسمیتہ صلی اﷲعلیہ وسلم محمداواحمدا،جلد1،صفحہ123،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

علامہ قطب الدین حنفی نے ’’کتاب الاعلام باعلام بیت الله الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ‘‘ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اہلِ مکہ صدیوں سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے رہے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:

”يزار مولد النبي صلی اللہ علیہ وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام۔۔۔يأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها“

ترجمہ:ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘(کتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام في تاريخ مکة المشرفة صفحہ 355، 356 مطبوعہ سعودیہ)

سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم میں علامہ یوسف صالحی شامی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 942ھ) لکھتے ہیں:

”ليس هذا من السنن، ولکن إذا أنفق في هذا اليوم وأظهر السرور فرحاً بدخول النبي صلی اللہ علیہ وسلم في الوجود ۔۔ حسَن يُثاب “

ترجمہ:یہ عمل (مروجہ میلاد)سنن میں سے تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس دن مال خرچ کرتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود کے ظہور پذیر ہونے کی خوشی مناتا ہے تو یہ اچھا ہے ثواب ملے گا۔ ( سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد، 1 صفحہ 364 مطبوعہ مصر)

مزید سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے

”مولد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مبجّل مکرّم، قدّس يوم ولادته وشرّف وعظم وکان وجوده صلی اللہ علیہ وسلم مَبدأ سبب النجاة لمن اتبعه وتقليل حظّ جهنم لمن أعدّ لها لفرحه بولادته صلی اللہ علیہ وسلم وتمَّت برکاتُه علي من اهتدي به، فشابَه هذا اليومُ يوم الجمعة من حيث أن يوم الجمعة لا تُسَعّر فيه جهنم، هکذا ورد عنه صلی اللہ علیہ وسلم فمن المناسب إظهار السرور وإنفاق الميسور وإجابة من دعاه ربُّ الوليمة للحضور“

ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا دن بڑا ہی مقدس، بابرکت اور قابل تکریم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے تو وہ نجات و سعادت حاصل کرلیتا ہے، اور اگر ایسا شخص خوشی منائے جو دوزخی ہےتو اس کا عذاب کم ہوجاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق چلنے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات مکمل ہوتی ہیں۔ یہ دن یوم جمعہ کے مشابہ ہے، اس حیثیت سے کہ یوم جمعہ میں جہنم نہیں بھڑکتی جس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ اس لیے اس دن خوشی اور مسرت کا اظہار اور حسبِ توفیق خرچ کرنا اور دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا بہت ہی مناسب ہے۔( سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد، 1صفحہ 364 مطبوعہ مصر)

وہابیو ں اور دیوبندیوں کی طرح اہل سنت میں جس کو مستند ترین علمی شخصیت مانا جاتا ہے وہ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 597 ھ ) ہیں انہوں نے اس بحث کا فیصلہ کردیا ہے کہ میلاد شریف پر خوشی کرنا حضور علیہ السلام سے اظہار محبت اور آپ علیہ السلام کو خوش کرنے کا سبب ہے یا نہیں؟ چنانچہ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

”عن ابن النعمان رحمہ الرحمٰن:انہ قال رایت فی المنام حضرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقبلت یدیہ الشریفتین وقلت لہ الی این ذاھب یا رسول اللہ یا قرۃ العینین فقال الی فلان ازورہ فقلت لہ اعلاناحبیبی ومثلک من یزور فلانافقال لی فی البیان تادب یا ابن النعمان ان ھذا الرجل صنع لنا مولدا فقلت یا شفیع العصاۃ فی عرصات القیامۃروحی لک الفدا،المولد الذی یصنع لک تفرح بہ تنسر بسببہ قال یا ابن النعمان: من فرح بنا فرحنا بہ“

ترجمہ: حضرت ابن نعمان رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ انہوں نے خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے، ابن نعمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے آگے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیارے پیارے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟ فرمایا : فلاں شخص سے ملنے جا رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !آپ سی بلند رتبہ شخصیت فلاں سے ملنے جا رہی ہے( یعنی چاہئے تو یہ کہ وہ آپ سے ملنے حاضر ہو ) ؟تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جلال بھرے انداز میں فرمایا : اے ابن نعمان ! ادب کرو ! وہ شخص ہمارا میلاد مناتا ہے۔ (یہ سن کر ابن نعمان رحمۃ اللہ علیہ کچھ سنبھلےاور)آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پھر عرض کیا : اے روزِ قیامت شفاعت فرمانے والے آقا(صلی اللہ علیہ والہ وسلم )! میری جان آپ پر فدا ہوآپ اس سے اس کے میلاد منانے کے سبب بہت خوش ہیں ؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اے ابن نعمان!جو ہم سے خوش ہوتا ہے ہم بھی اس سے خوش ہوتے ہیں ۔

(حصول الفرج لابن جوزی، صفحہ 22،المطبعۃ الکبری الامیریۃ،مصر)

سبحان اللہ! ماننے والوں کے لیے یہ دلیل بہت بڑی ہے کہ مروجہ میلاد سے حضور علیہ السلام خوش ہوتے ہیں ۔اتنے مستند عالم دین کے حوالے کے باوجود بھی اگر دیوبندی وہابی پھر بھی میلاد کو ناجائز و بدعت کہیں تو یہ ان کی محرومی ہے ۔

باقی وہابی دیوبندیوں کا یہ کہنا کہ جو کام دین میں نیا ہو وہ بدعت ہے یہ بھی درست نہیں کہ دینی کئی کام نئے رائج ہیں جس کو دیوبندی وہابی بھی کرتے ہیں اور اس کے باجود اس کو مستحب کہتے ہیں کہ ان میں نیک اعمال ہی ہوتے ہیں جیسے دینی اجتماعات،ختم نبوت کی ریلیاں و جلوس وغیرہ۔

دین میں بدعت وہ ناجائز و گناہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو جیسے میوزک والی نعتیں، قوالیاں، ننگے سر نماز پڑھنے کو سنت سمجھنا وغیرہ۔یونہی باطل نظریات جو قرآن وسنت کے مخالف ہیں۔ جو کام اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو وہ بُری بدعت نہیں بلکہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے اور اس کی صراحت علمائے اسلاف سے ہے جن کو وہابی بھی مانتے ہیں۔

وہابی دیوبندیوں کا امام ابن تیمیہ (المتوفی728ھ) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:

”والبدعة ما خالفت الکتاب والسنة أو اجماع سلف الأمّة من الاعتقادات والعبادات کأقوال الخوارج والروافض والقدرية والجهمية“

ترجمہ:بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اورسابقہ علمی ہستیوں کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج، روافض، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد۔ (مجموع الفتاوى،جلد18،صفحہ346، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف،السعودية)

امام جلال الدین سیوطی ، امام بیہقی ،ملا علی قاری رحمہم اللہ اور وہابیوں کے پیشوا شوکانی حضرت امام شافعی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں

”المحدثات من الامور ضربان احدھما احدث مما یخالف کتاباً اوسنّۃً اواثراً اواجماعاً فھٰذہ البدعۃ ضالۃ والثانی ما احدث من الخیر ولاخلاف فیہ لواحد من ھٰذہ وھی غیر مذمومۃ“

ترجمہ:نوپیداباتیں دوقسم کی ہیں، ایک وہ ہیں کہ قرآن یااحادیث یاآثارو اجماع کے خلاف نکالی جائیں یہ توگمراہ کن بدعت ہے۔ دوسری وہ اچھی بات کہ احداث کی جائے اوراس میں ان چیزوں کاخلاف نہ ہو تووہ بری نہیں۔ ( القول المفید فی أدلۃ الاجتہاد والتقلید،جلد1،صفحہ79،دار القلم ،الکویت)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں ارشادفرماتے ہیں

”ایں ہمہ گرچہ بدعت ست وازصحابہ وتابعین نقل نہ کردہ اندلیکن نہ ہرچہ بدعت بودنہ شاید کہ بسیاری بدعت نیکوباشد پس بدعت مذموم آں بود کہ برمخالفت سنّت بود“

ترجمہ:یہ سب اموراگرچہ نوپیدہیں اورصحابہ وتابعین رضی اﷲتعالیٰ عنہم سے منقول نہیں ہیں مگرایسابھی نہیں، ہرنئی بات ناجائزہوکیونکہ بہت ساری نئی باتیں اچھی ہیں۔ مذموم بدعت وہ ہوگی جوسنت رسول کے مخالف ہو۔(کیمیائے سعادت ،رکن دوم،اصل ہشتم،باب دوم،صفحہ388,389،انتشارات گنجینہ ،ایران)

امام علامہ ابن حجرعسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں

”والبدعۃ ان کانت مماتندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ الافھی من قسم المباح“

ترجمہ:بدعت اگرکسی ایسی چیزکے نیچے داخل ہو جس کی خوبی شرع سے ثابت ہے تو وہ اچھی بات ہے اوراگرکسی ایسی چیزکے نیچے داخل ہو جس کی برائی شرع سے ثابت ہے تووہ بری ہے اور جودونوں میں سے کسی کے نیچے داخل نہ ہو تووہ قسم مباح سے ہے۔( فتح الباری،کتاب التراویح،باب فضل من قام رمضان،جلد4،صفحہ253،دارالمعرفۃ،بیروت )

مرقاۃ شریف میں ہے

”احداث مالاینازع الکتاب والسنۃ کما سنقررہ بعدلیس بمذموم “

ترجمہ:ایسا فعل ایجاد کرنا جو کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو ،برا نہیں، جیسا کہ ہم آگے ثابت کریں گے ۔(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد1،صفحہ222،دار الفکر، بیروت)

پھر مروجہ میلاد شریف کے متعلق مستند علمائے کرام نے واضح طور پرلکھا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے چنانچہ

امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

’’وقد قال ابن حجر الہیتمی: والحاصل أن البدعۃ الحسنۃ متفق علی ندبہا، وعمل المولد واجتماع الناس لہ کذلک أی بدعۃ حسنۃ ‘‘

ترجمہ:ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بدعت حسنہ کے مستحب ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ میلاد شریف کرنا اور اس کے لئے لوگوں کا اجتماع بھی بدعتِ حسنہ ہی ہے ۔ ۔

(انسان العیون ،باب تسمیتہ صلی اﷲعلیہ وسلم محمداواحمدا،جلد1،صفحہ123،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

11ربیع الاول 1445ھ28ستمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں