غیر صحابی کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنا

غیر صحابی کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنا

سوال: کیا غیر صحابی کے لیے”رضی اللہ عنہ” لکھ یا بول سکتے ہیں؟ جیسے یہ کہنا کہ غوث پاک رضی اللہ عنہ، یا اعلی حضرت رضی اللہ عنہ۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ “رضی اللہ عنہ” دعائیہ جملہ ہے جس کا مطلب اللہ پاک ان سے راضی ہو، عمومی طور پر اس کا استعمال صحابی کے نام ساتھ ہوتا ہے مگر غیر صحابی کے نام کےساتھ بھی پڑھنا یا لکھنا شرعاً جائز ہے لیکن مستحب یہ ہےکہ صحابہ کرام کے نام ساتھ ترضّی کے صیغے مثلا ”رضی اللہ عنہ،رضوان اللہ علیہم“ اورغیر صحابہ جیسے تابعین، اولیاء اللہ اور نیک بندوں کے نام کے ساتھ ترحّم کے صیغے مثلاً ”رحمۃ اللہ علیہ، علیہ الرحمہ “وغیرہ پڑھے جائیں۔

(نوٹ عوام الناس کے سامنے صحابی کے لیے “رضی اللہ عنہ” اور ولی کے لیے “رحمۃ اللہ علیہ” کہا جائے کیونکہ رضی اللہ عنہ کہنے سے عوام کی توجہ عموما صحابی کی طرف جاتی ہے۔)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

”رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ“

ترجمہ:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔(پارہ28 سورۃ المجادلہ ایت22)

اسی کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:

”یہ کہ فرماتاہے”میں تم سے راضی تم مجھ سے راضی “بندے کیلئے اس سے زائد او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا رب اس سے راضی ہومگر انتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔“

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

”رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ“

اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ،یہ صلہ اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔(پارہ30، سورۃ البینہ، آیت8)

تفسیر صراط الجنان میں آیت کے اس حصے کے تحت لکھا ہے :

”ہر ولی اور بزرگ کو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ کہہ سکتے ہیں ، یہ لفظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ سے خاص نہیں۔“

مجمع الانہر میں ہے:

”يستحب الترضي للصحابة والترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار ، وكذا يجوز الترحم على الصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد “

یعنی مستحب یہ ہےکہ صحابہ کےلیے ترضی (رضی ا للہ عنہ ) جبکہ تابعین اور ان کےبعد والے علما ءو اولیاء اور تمام نیک بندوں کےلیے ترحم(رحمۃ اللہ علیہ ) جیسے دعائیہ الفاظ استعما ل کیے جائیں اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ صحابہ کےلیے ترحم اور اولیاء کےلیے ترضّی کے جملے استعمال کیےجائیں ۔ ( مجمع الانھر، جلد04، ص491، مطبوعہ کوئٹہ)

در مختار میں ہے:

”(يستحب الترضي للصحابةوالترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه)وھو الترحم للصحابۃ والترضی للتابعین ومن بعدھم (علی الراجح) “

یعنی :صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنایا لکھنا مستحب ہے تابعین اور بعد والے علما ،اولیااور نیک بندوں کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا اور لکھنا مستحب ہے ،اور اس کا الٹ بھی راجح قول کی بناء پر جائز ہے ،یعنی صحابہ کےلیے رحمۃاللہ علیہ اور دوسروں کےلیے رضی اللہ تعالیٰ عنھم۔(در مختار، جلد10، صفحہ520،دار المعرفہ بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کا جواب دیتےہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

”رضی اللہ عنھم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تو کہا ہی جائےگا ،ائمہ واولیاء وعلمائے دین کو بھی کہہ سکتےہیں ،کتاب مستطاب بھجۃ الاسرار وجملہ تصانیف امام عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی وغیرہ اکابر میں یہ شائع وذائع ہے ۔تنویر الابصار میں ہے:” يستحب الترضي للصحابةوالترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه علی الراجح‘‘یعنی (صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کےساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنا یا لکھنا مستحب ہے تابعین اور بعد والے علما ،اولیااور نیک بندوں کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا اور لکھنا مستحب ہے اور اس کا عکس بھی راجح قول کے مطابق جائز ہے ۔“ (فتاویٰ رضویہ،ج23، ص390،رضا فاونڈیشن،لاھور)

فتاوٰی امجدیہ میں ہے:

”بزرگان دین کے ساتھ ترضی یعنی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کہنا اور لکھنا جائزہے۔“(فتاویٰ امجدیہ،ح4، ص345، مکتبہ رضویہ کراچی )

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

25ربیع الاول1445/ 11اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں