مقدس مقامات کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے یا نہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ مقدس مقامات کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

مقدس مقامات کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز و مستحسن ہے۔ خاص طور پر ان مقامات کی جو انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے مبارک آثار کے حوالے سے مشھور ہیں یا پھر وہ جگہیں جہاں پر بزرگانِ دین کے مزارات ہوں۔ کیونکہ ان کے قرب میں جا کر دعا کرنے سے دعائیں قبول ہوتیں، بگڑیاں بنتی، حاجتیں بر آتی (یعنی پوری ہوتی) اور مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔

مزارات پر جانا نہ صرف سنتِ صحابہ و سلف صالحین رضی اللہ عنھم ہے بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے۔

ابو داود شریف کی حدیث پاک میں ہے صحابی رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ قُبُورَ الشُّهَدَاءِ، حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى حَرَّةِ وَاقِمٍ، فَلَمَّا تَدَلَّيْنَا مِنْهَا، وَإِذَا قُبُورٌ  بِمَحْنِيَةٍ ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقُبُورُ إِخْوَانِنَا هَذِهِ ؟ قَالَ : ” قُبُورُ أَصْحَابِنَا “. فَلَمَّا جِئْنَا قُبُورَ الشُّهَدَاءِ قَالَ : ” هَذِهِ قُبُورُ إِخْوَانِنَا “.

ترجمہ: ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شہداء کی قبروں کی زیارت کے ارادے سے نکلے جب وادی محنیہ کی قبروں کے پاس پہنچے، تو ہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ ہمارے ساتھیوں کی قبریں ہیں تو جب ہم شہداء کی قبروں پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں۔

(سنن أبي داود في  كتاب المناسك.، باب زيارة القبور، جلد 02 صفحہ 218، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ بیروت )۔

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزارات کی طرف جانا ثابت ہے اسی طرح خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مزار کی زیارت کو بلانا بھی ثابت ہے۔ چنانچہ

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام میں سکونت اختیار فرمائی۔ خواب میں حضورِ پرنور سید المحبوبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت سے شرفیاب ہوئے۔ کہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ماھذہ الجفوۃ یابلال ! اما آن لک ان تزورنی یابلال! ۔

اے بلال! یہ کیا جفا ہے ۔ اے بلال ! کیا ابھی تجھے وہ وقت نہ آیا کہ میری زیارت کو حاضر ہو۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ غمگین وترساں و ہراساں بیدار ہوئے ۔ اور فوراً بہ قصدِ مزار پر انوار جانب مدینہ شد الرحال فرمایا (یعنی سفر اختیار فرمایا)۔ جب شرفِ حضور پایا ۔ قبر انور کے حضور رونا اور منہ اس خاک پاک پر ملنا شروع کیا۔ دونوں صاحبزادے حضرات امام حسن و حسین  صلی اللہ تعالیٰ علی جدہما وعلیہما وبارک وسلم تشریف لائے۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں گلے لگاکر پیار کرنے لگے۔ شہزادوں نے فرمایا : ہم تمہاری اذان کے مشتاق ہیں ۔ یہ سقفِ مسجد پر جہاں زمانۂ اقدس میں اذان دیتے تھے گئے۔ جس وقت اللہ اکبر ، اللہ اکبر ،کہا ۔ تمام مدینے میں لرزہ پڑگیا ۔ جب اشہد ان لا الہ الا اللہ کہا ۔ مدینے کا لرزہ دوبالا ہوا  جب اس لفظ پر پہونچے اشہد ان محمد رسول اللہ ، کنواری نو جوان لڑکیاں پردوں سے نکل آئیں اور لوگوں میں غل پڑ گیا کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  مزار پر انوار سے باہر تشریف لے آئے۔ انتقالِ حضور محبوب ذوالجلال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کے بعد کسی دن مدینہ منورہ کے مردوزن میں وہ رونا نہ پڑا تھا جو اس دن ہوا۔

( اسد الغاب فی معرفۃ الصحابہ جلد 01 صفحہ 415، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، جامع الحدیث جلد 03، صفحہ 325، مطبوعہ مرکز اہلسنت برکاتِ رضا ہن )

” سبل الہدی والرشاد” میں ہے:

” يستحب لزائره زيارة الأماكن المشهورة بآثار الأنبياء لا سيما مواضع صلاة نبينا صلى الله عليه وسلم “.

ترجمہ: انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے مبارک آثار کے حوالے سے مشھور مقامات کی زیارت کرنا مستحب ہے، خاص طور پر ان جگہوں کی جہاں پر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی۔ ( سبل الہدی والرشاد جلد 03، صفحہ 112 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

مفتیٔ حجاز شیخ شَہابُ الدّین احمد بن حَجَر ہَیْتَمِی مَکِّی شَافِعِی عَلَیْہ رَحمَۃُ اللہ القوی اپنی مشہور کتاب  ’’ اَلْخَیْراتُ الْحِسان فِی مَناقِبِ النُّعمان‘‘ میں امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے حوالے سے سے نقل کرتے ہیں : جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بغداد میں تھے تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مُتَعلِّق مروی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں (حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم) ابو حنیفہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے تَبَرُّک حاصِل کرتا ہوں، اور جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِ انورکے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دُعا کرتا ہوں تو وہ حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔

(اَلْخَیْراتُ الْحسان فِی مَناقِبِ النُّعمان، باب فی تادب الائمۃ معہ فی مماتہ کما ھو فی حیاتہ و ان قبرہ یزار لقضاء الحوائج، صفحہ 157، مطبوعہ دارلھدی والرشاد )

بعض لوگ صرف تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مقدس مقام کی طرف سفر کو مطلقاً ناجائز کہتے ہیں اور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں: حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ” ان تین مسجدوں کے سوا کسی کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں (1) مسجدِ حرام۔ (2) رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد۔ (3) مسجدِ اقصٰی۔( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ، باب مسجد بیت المقدس، جلد 02 صفحہ 61 مطبوعہ دار طوق النجاۃ )۔

ان لوگوں کا اس حدیث سے یہ دلیل پکڑنا درست نہیں کیونکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ان مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف اس لئے سفر کر کے جانا کہ وہاں نماز کا ثواب زیادہ ہے ممنوع ہے کیونکہ ان کے علاوہ سب مسجدوں میں نماز پڑھنے کاثواب برابر ہے۔ اگر اس حدیث کے یہ معنی کئے جائیں کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا حرام ہے یا ان تین مسجدوں کے علاوہ کہیں اور سفر کرنا جائز پی نہیں تو یہ حدیث قرآنِ مجید اور دیگر احادیث کے بھی خلاف ہو گی، اللہ پاک فرماتا ہے:”قُلْ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرْضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیۡنَ”۔ ترجمہ کنزالایمان: ( اے محبوب) تم فرمادو: زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔

( القرآن پارہ 07، سورۃ الانعام، آیت 11)

نیز اُس معنی کے حساب سے کہیں کا کوئی سفر کسی مقصد کے لئے جائز نہ ہو گا مثلاً جہاد، طلبِ علم، تبلیغِ دین، تجارت، سیاحت وغیرہ کسی کام کے لئے سفر جائز نہ ہو گا اور یہ امت کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ سفر کر کے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے مزارات اور مقدس مقامات پر جانا ممنوع و حرام نہیں بلکہ جائز اور مستحسن ہے۔

مرقاۃ المفاتیح فی شرح المشکوٰۃ المصابیح میں اس حدیث مبارکہ کے تحت ہے:

أَيْ: لَا تَشُدُّوا إِلَى غَيْرِهَا لِأَنَّ مَا سِوَى الثَّلَاثَةِ مُتَسَاوٍ فِي الرُّتْبَةِ غَيْرُ مُتَفَاوِتٍ فِي الْفَضِيلَةِ، وَكَانَ التَّرَحُّلُ إِلَيْهِ ضَائِعًا وَعَبَثًا. وَفِي شَرْحِ مُسْلِمٍ لِلنَّوَوِيِّ قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَحْرُمُ شَدُّ الرَّحْلِ إِلَى غَيْرِ الثَّلَاثَةِ وَهُوَ غَلَطٌ، وَفِي الْإِحْيَاءِ: ذَهَبَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ إِلَى الِاسْتِدْلَالِ بِهِ عَلَى الْمَنْعِ مِنَ الرِّحْلَةِ لِزِيَارَةِ الْمَشَاهِدِ وَقُبُورِ الْعُلَمَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَمَا تَبَيَّنَ فِي أَنَّ الْأَمْرَ كَذَلِكَ، بَلِ الزِّيَارَةُ مَأْمُورٌ بِهَا لِخَبَرِ: ( «كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا» ).

ترجمہ : یعنی ان تین مساجد کے علاوہ کی طرف (ثواب حاصل کرنے کی نیت سے) کجاوے نہ باندھو کیونکہ ان تین مساجد کے علاوہ تمام مساجد مرتبہ میں برابر ہیں، ان کی فضیلت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور ان کی طرف (ثواب حاصل کرنے کی نیت سے) سفر کرنا ضائع و عبث ہے۔ امام نووی کی شرح مسلم میں ہے: ابو محمد نے فرمایا: ان تین مساجد کے علاوہ کی طرف کجاوے باندھنا حرام ہے ( ایسا کہنا ) غلط ہے۔ احیاء میں ہے: بعض علماء نے اس حدیث پاک سے یہ استدلال کیا ہے کہ مقدس مقامات اور اور علماء و صالحین کی قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا منع ہے حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ ان ( مقدس مقامات اور اور علماء و صالحین کی قبروں کی ) کی زیارت کا تو حکم ہے اس حدیثِ مبارکہ کی وجہ سے ” میں تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کرتا تھا تھا پس اب تم ان کی زیارت کیا کرو۔

( مرقاۃ المفاتیح فی شرح المشکوٰۃ المصابیح، جلد 02، صفحہ 589، مطبوعہ دارالفکر بیروت- لبنان )

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی مرآۃ المناجیح میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : یعنی سواء ان مسجدوں کے کسی اور مسجد کی طرف اس لیے سفر کر کے جانا کہ وہاں نماز کا ثواب زیادہ ہے ممنوع ہے، جیسے بعض لوگ جمعہ پڑھنے بدایوں سے دہلی جاتے تھے تاکہ وہاں کی جامع مسجد میں ثواب زیادہ ملے یہ غلط ہے، ہر جگہ کی مسجدیں ثواب میں برابر ہیں۔اس توجیہ پر حدیث بالکل واضح ہے۔ وہابی حضرات نے اسی کے معنی یہ سمجھے کہ سواء ان تین مسجدوں کے کسی اور مسجد کی طرف سفر ہی حرام ہے۔ لہذا عرس، زیارتِ قبور وغیرہ کے لئےسفر حرام۔ اگر یہ مطلب ہو تو پھر تجارت، علاج، دوستوں کی ملاقات، علمِ دین سیکھنے وغیرہ تمام کاموں کے لیے سفر حرام ہوں گے اور ریلوے کا محکمہ معطل ہوکررہ جائے گا اور یہ حدیث قرآن کے خلاف ہی ہوگی۔اور دیگر احادیث کے بھی، رب فرماتا ہے:”قُلْ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرْضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیۡنَ”۔

مرقاۃ نے اسی جگہ اور شامی نے “زیارتِ قبور”میں فرمایا کہ چونکہ ان تین مساجد کے سواء تمام مسجدیں برابر ہیں اس لئے اور مسجدوں کی طرف سفر ممنوع ہے۔ اور اولیاء ﷲ کی قبریں فیوض و برکات میں مختلف ہیں، لہذا زیارت قبور کے لیے سفر جائز کیا، یہ جہلاء انبیاء کرام کی قبور کی طرف سفر بھی منع کریں گے۔

( مرآۃ المناجیح، جلد 01، صفحہ 422-423 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات )۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں