عید غدیر کی شرعی حیثیت

عید غدیر کی شرعی حیثیت

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عید غدیر کی شرعی حیثیت کیا ہے اس دن کو اس طور پر منانا کیسا ہے کہ اس دن حضرت علی المرتضی کو خلیفہ فلا فصل بنایا گیا تھا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ میں عیدِ غدیر کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ اس عید غدیر کا بانی عراقی شیعہ حاکم معز الدین احمد بن ابویہ دیلمی ہے۔سب سے پہلے اس نے رافضیوں کے ساتھ 18 ذی الحجہ 352 ھ کو بغداد میں عید غدیر منائی۔

نیز عید غدیر اس نیت سے منانا کہ مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو خلیفہ بلا فصل بنایا گیا تھا یہ روافض کی بدعت سیئہ و شنیعہ ہے جو سراسر باطل اور گمراہی پر مبتلا ہے۔ حدیث غدیر کی شرح جو سیاق و سباق سے ثابت ہے اس کے مطابق مولا کے معنی خلیفہ و حاکم نہیں بلکہ دوست،محبوب وغیرہ ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کو اس حدیث سے خلیفہ بلافصل ماننا دیگر احادیث کے صریح خلاف ہے جوکہ گمراہی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بلا فصل ہونے پر اجماع ہے۔ لہذا اہل سنت پر لازم ہے کہ وہ عید غدیر کے نام پر محافل منعقد کرنے سے بچیں کہ یہ بدمذہبوں کا شعار ہے۔

غدیر کی تاریخ

رمضان المبارک 10 ہجری میں نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مولی علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مالِ غنیمت کا خمس یعنی پانچواں حصہ وصول کرنے کے لیے یمن کی طرف ایک لشکر کا امیر بناکر بھیجا تھا، پھر نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے آئے ، یہیں قیام کے دوران مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور خمس نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا۔ اس سفر میں مولی علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض ساتھیوں کو آپ کے کچھ فیصلوں سے اختلاف ہوا، سفر سے واپسی پر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی۔ اس پر نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے غدیرخم (بمعنی تالاب خم ایک جگہ ہے حجفہ منزل سے تین میل دور ہے) کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ان فیصلوں کو درست قرار دیا اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنے اور بد گمانی سے بچنے کی تلقین فرمائی۔

مذکورہ بالا حدیث پاک کے پس منظر کے متعلق المستدرک، السنن الكبرى، فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل اور کثیر کتب احادیث میں ہے ، واللفظ للاؤل :

” عن بريدة الأسلمى رضى الله عنه قال: غزوت مع على إلى اليمن فرأيت منه جفوة، فقدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت عليا فتنقصته فرأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتغير، فقال: يا بريدة، ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم؟ قلت: بلى يا رسول الله ، فقال : من كنت مولاه فعلی مولاه وذكر الحديث ، هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه “ ترجمہ : حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ یمن کی طرف گیا، تو میں نے ان میں کچھ نامناسب بات دیکھی، تو میں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نقص کی نسبت کر دی، تو نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا، ارشاد فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنوں کا ان کی جانوں سے زیادہ مالک نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کی، کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرمایا: جس کا میں مولی (محبوب) ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ (محبوب) ہیں۔ یہ حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اور یہ مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، لیکن اس کو شیخین نے روایت نہیں کیا۔(المستدرک، جلد 3، صفحه 119، مطبوعہ دار الكتب العلميه، بيروت)

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے مقام پر حضور جان نور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا مقصد مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں تھا، بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ مقصود تھا جو مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے ، اس لیے مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ارشاد فرمایا۔ لہذا حدیث پاک میں لفظ مولیٰ سے مراد خلیفہ بلا فصل نہیں، بلکہ دوست اور محبوب ہے اور اگر نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا مقصد مولیٰ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا ہوتا ، تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے۔

علامہ ملاعلی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

”من كنت مولاه فعلی مولاہ‘‘قیل، معناه من كنت أتولاه فعلى يتولاه من الولى ضد العدو أي : من كنت أحبه فعلى يحبه، وقيل معناه : من يتولاني فعلى يتولاه، كذا ذكره شارح من علمائنا “

ترجمہ:جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں: جس سے میں دوستی رکھتا ہوں اس سے علی دوستی رکھتے ہیں ۔ دوست بمقابلہ دشمن یعنی جس سے میں محبت کرتا ہوں اس سے علی محبت کرتے ہیں ۔ اور یہ معنی بھی اس کے کئے گئے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے دوستی رکھی تو علی اس سے دوستی رکھتے ہیں۔ ہمارے شارحین علما نے ایسا ہی ذکر کیا ہے ۔

اس حدیث سے مولی علی کی امامت پر استدلال کرنے والے شیعوں کو جواب دیتے ہوئے ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

”قالت الشيعة :هو متصرف، وقالوا : معنى الحديث أن عليا رضي الله عنه يستحق التصرف في كل ما يستحق الرسول – -التصرف فيه، ومن ذلك أمور المؤمنين فيكون إمامهم أقول:لا يستقيم أن تحمل الولاية على الإمامة التي هي التصرف في أمور المؤمنين، لأن المتصرف المستقل في حياته هو هو لا غير فيجب أن يحمل على المحبة وولاء الإسلام ونحوهما“

ترجمہ:شیعہ نے کہا کہ وہ متصرف ہیں اور کہا کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ علی ہر اس معاملہ میں تصرف کاحق رکھتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تصرف کا حق رکھتے ہیں ۔اور انہی میں سے مسلمانوں کے معاملات ہیں پس وہ ان کے امام ہوئے۔ میں کہوں گا کہ ولایت کو اس امامت پر جو مومنین کے معاملہ میں تصرف ہے محمول کرنا درست نہیں اس لئے کہ مستقل متصرف اپنی حیات میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں کوئی غیر نہیں تو واجب ہے کہ اسے محبت اور اسلام کی ولاء اوران دونوں کے مثل پرمحمول کیا جائے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح، کتاب المناقب،باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ،فصل ثانی، 11/ 247،مطبوعہ رشیدیہ)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

” مولی کے معنی میں دوست ، مددگار، آزاد شد و غلام، آزاد کر نے والا مولی ۔ اس کے معنی خلیفہ یا بادشاہ نہیں علی کہتے ہیں رب فرماتا ہے ” فان الله هو مولية و جبريل و صلح المؤمنين“شیعہ کہتے ہیں کہ مولا بمعنی خلیفہ ہے اور اس حدیث سے لازم ہے کہ بجز حضرت علی کے خلیفہ کوئی نہیں آپ خلیفہ بلافصل ہیں مگر یہ غلط ہے چند وجہ سے ۔

ایک یہ کہ مولی بمعنی خلیفہ یا بمعنی اولی بالخلاف کبھی نہیں آتا بتاؤ اللہ تعالی اور حضرت جبریل کس کے خلیفہ ہیں حالانکہ قرآن مجید میں انہیں مولی فرمایا”فإن الله هو مولاہ و جبريل“دوسرے یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی کے خلیفہ ہیں پھر من کنت مولاہ کے کیا معنی ہوں گے ۔

تیسرے یہ کہ حضرت علی حضور کی موجودگی میں خلیفہ نہ تھے حالانکہ حضور نے اپنی حیات شریف میں میں فرمایا پھر مولی بمعنی خلیفہ کیسے ہوگا ۔

چوتھے یہ کہ اگر مان لو کہ مولی بمعنی خلیفہ ہی ہو تو بھی بلافصل خلافت کیسے ثابت ہوگی۔

واقعی آپ خلیفہ ہیں مگر اپنے موقعہ اپنے وقت میں ۔

پانچویں یہ کہ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ ہوتا تو جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے حضرت صدیق اکبر نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، الخلافۃ فی القریش، خلافت قریشی میں ہے ۔ تم لوگ چونکہ قریش نہیں لہذا تم امیر نہیں بن سکتے ،وزیر بن سکتے ہو۔ اس وقت حضرت علی نے یہ واقعہ لوگوں کو یاد کیوں نہ کرادیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے خلافت دے گئے میرے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ آپ خاموش رہے اور تینوں خلفاء کے ہاتھ پر باری باری بیعت کرتے رہے۔ معلوم ہوا کہ آپ کی نظر میں بھی یہاں مولی بمعنی خلیفہ نہ تھا۔

چھٹے یہ کہ حضور کے مرض وفات میں حضرت عباس نے جناب علی سے کہا کہ چلو حضور سے خلافت اپنے لیے لے لو حضرت علی نے انکار کیا کہ میں نہیں مانگوں گا ورنہ حضور مجھے ہرگز نہ دیں گے۔ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ تھا تو یہ مشورہ کیسا۔

ساتویں یہ کہ خلافت کے لیے روافض کے پاس نص قطعی الثبوت او قطعی الدلالت چاہیے یہ حدیث نہ تو قطعی الثبوت ہے کہ حدیث واحد ہے نہ قطعی الدلالت کہ مولی کے بہت معنی ہیں اور مولی بمعنی خلیفہ کہیں نہیں آتا۔‘‘ (مرآۃ المناجیح شرح مشكاة المصابیح، ج8،ص353/354، قادری پبلشرز لاہور)

عید غدیر منانا کب شروع ہوئی

مفتی محمد ذوالفقار خان نعیمی لکھتے ہیں:

”یوم غدیر اہل تشیع کی عید اکبر ہے ۔اور اس کو وہ خاص اس لئے مناتے ہیں کہ ان کے مطابق اس دن حضرت علی کو خلافت بلافصل ملی تھی بلکہ امامت کے بھی قائل ہیں۔ نیز یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن چونکہ حضرت عثمان غنی کی شہادت ہوئی تھی اس لئے وہ اس دن جشن مناتے ہیں۔یہ ساری وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ اصل وجہ حضرت علی کی خلافت بلافصل اور امامت ہے۔“( https://sunnilibrary.com/radd-e-rafziyat-article/664)

علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے:

”(ثم دخلت سنة ثنتين وخمسين وثلاثمائة. ..وفي ثامن عشر ذي الحجة منها أمر معز الدولة بإظهار الزينة ببغداد وأن تفتح الأسواق بالليل كما في الأعياد، وأن تضرب الدبادب والبوقات، وأن تشعل النيران بأبواب الأمراء وعند الشُرَط فرحا بعيد الغدير -غدير خم -فكان وقتا عجيبا ويوما مشهودا، وبدعة ظاهرة منكرة “

ترجمہ:سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر بغداد سجانے اور رات کو عیدوں کی راتوں کی طرح بازار کھولنے کاحکم دیا ۔ اور باجے اور بگل بجاگے گئے اور حکام کے دروازوں اور فوجیوں کے پاس چراغاں کیا گیا عید غدیر کی خوشی میں، تو وہ وقت عجیب اور دیکھنے کا دن تھا اور ظاہری بری بدعت کا دن تھا ۔(البداية والنهاية، لابن الكثير،15 /161،بحوالہ:عید غدیر کی حقیقت،ص77/78،بااہتمام مجدد الف ثانی ٹرسٹ خانقاہ شریف حلقہ ملتان کراچی پاکستان)

امام ابن اثیر جزری، لکھتے ہیں:

”وفيها في الثامن عشر ذي الحجة، أمر معز الدولة بإظهار الزينة في البلد، وأشعلت النيران بمجلس الشرطة، وأظهر الفرح، وفتحت الأسواق بالليل، كما يفعل ليالي الأعياد فعل ذلك فرحا بعيد الغدير ، یعنی غدیر خم، وضربت الدبادب والبوقات، وكان يوما مشهودا“

ترجمہ:اور سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر سجانے کا حکم دیا ۔ اور درباریوں کی مجلس میں چراغاں کیا گیا اور خوشی کا اظہار کیا گیا اور بازار کھولے گئے رات کو جس طرح عیدوں کی راتوں کو کھولے جاتے خوب خوشی منائی گئی عید غدیر خم میں ۔ اور باجے اور بگل بجاۓ گئے اور وہ دیکھنے کا دن تھا۔‘‘(الکامل فی التاریخ،7/ 246، بحوالہ:عید غدیر کی حقیقت،ص77/78،بااہتمام مجدد الف ثانی ٹرسٹ خانقاہ شریف حلقہ ملتان کراچی پاکستان)

امام ذہبی لکھتے ہیں:

”سنة اثنتين وخمسين وثلاثمئة…. وفيها يوم ثامن عشر ذي الحجة، عملت الرافضة عيد الغدير ، غدير خم، ودقت الكوسات وصلوا بالصحراء صلاة العيد “

ترجمہ:اور سن 353 ہجری 18 ذی الحجہ کوروافض(ابتداء میں معزالدین کا ذکر ہے ) نے عید غدیر منائی ڈھول بجائے گئے ۔ اور میدان میں نماز عید پڑھی۔(العبر فی خبر من غبر، 2/ 90، بحوالہ:عید غدیر کی حقیقت،ص77/78،بااہتمام مجدد الف ثانی ٹرسٹ خانقاہ شریف حلقہ ملتان کراچی پاکستان)

رسالہ”عید غدیر کی حقیقت“ میں ہے:

”الغرض عید غدیر اہل تشیع کا تہوار ہے ۔اہل تشیع کے نزدیک جس کی اصل بنیاد یوم غدیر میں نبی کریم ﷺ کا مولی علی کو خلافت و امامت دینا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔

واقعه غدیر خم سے مولی علی کی خلافت وامامت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔حدیث خم سے مولی علی کی فضیلت اجاگر ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے خلافت وامامت مراد لینا جہالت ہے۔حالانکہ اس سے قبل بھی متعدد مقامات پرمولی علی کو اسی طرح نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے نوازا مگر اس دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دیا جاتا ہے ۔؟

اہل تشیع واقعہ غدیر خم کے جن الفاظ کواپنے مقصد پر استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔

“من كنت مولاہ فعلی مولاہ“

حالانکہ اس جملہ سے کسی طرح بھی خلافت وامامت کا مفہوم ظاہر نہیں ہوتا ہے۔

مولی کے معنی خلیفہ یا امام کے کہیں نہیں آتے بلکہ اس کے متعدد معانی میں سے ایک اہم معنی جو یہاں مراد ہے وہ ہے ناصر و مددگار ۔خلیفہ یا امام کا مفہوم محض فاسد ہے۔

ہم یہاں لفظ مولی پر شارحین حدیث کے بیانات قلم بند کرتے ہیں تا کہ مفہوم واضح ہو جائے۔“(عید غدیر کی حقیقت،ص76،79،بااہتمام مجدد الف ثانی ٹرسٹ،ملتقطا)

اہل تشیع نے حدیث غدیر خم سے جو باطل و ناحق وہم اختیار کیا اس کا رد کرتے ہوئے علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پر لکھا ہے کہ “غدیر خم” کا خطبہ یہ “حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی خلافت بلافصل کا اعلان تھا ” مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک “تک بندی” کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے خلافت بلافصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منی کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا ۔ جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا۔ نہ کہ غدیرخم پر جہاں یمن اور مدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا ۔ “(سیرت مصطفی،ص535،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

حضرت علی المرتضیٰ کو خلیفہ بلافصل ماننا

جامع ترمذی میں ہے،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لا ینبغی لقوم فیھم ابو بکر ان یؤمھم غیرہ‘‘

ترجمہ: کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کی موجودگی میں کوئی اور امامت کرے ۔‘‘( جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، جلد 2، صفحہ 208، مطبوعہ کراچی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

’’ وفيه دليل على انه افضل جميع الصحابة، فاذا ثبت هذا فقد ثبت استحقاق الخلافة‘‘

ترجمہ: اس حدیث میں دلیل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ کرام سے افضل ہیں، پھر جب افضلیت ثابت ہو گئی، تو خلافت کا حقدار ہونا بھی ثابت ہو گیا ۔‘‘( مرقاۃ المفاتیح، کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ، جلد 11، صفحہ 182، مطبوعہ کوئٹہ)

جامع ترمذی اور المستدرک میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر‘‘

ترجمہ: میرے بعد ابو بکر و عمر ( رضی اللہ عنہما) کی پیروی کرنا۔ ( جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، جلد2، صفحہ 207، مطبوعہ کراچی)

بخاری شریف میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’کنا نخیر بین الناس فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فنخیر ابا بکر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم‘‘

ترجمہ: ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل سمجھتے تھے، پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفان کو ( رضی اللہ عنہم اجمعین)۔‘‘( صحیح البخاری، ابواب المناقب، باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، جلد 1، صفحہ 516، مطبوعہ کراچی)

شرح فقہ اکبر میں ہے

”افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق ثم عمر بن خطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن ابی طالب واولی ما یستبدل بہ علی افضلیہ الصدیق فی مقام التحقیق نصبہ علیہ الصلوہ والسلام لامامہ الانام مدہ مرضہ فی اللیالی والایام ولذا قال اکابر صحابہ رضیہ صلی اللہ علیہ وسلم لدیننا افلا نرضاء لدنیانا“

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنھم اجمعین اور پہلی دلیل جس سے افضلیت ابوبکر صدیق پر استدلال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تکلیف کے دنوں اور راتوں میں لوگوں پر امام مقرر کیا اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا کہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا دینی رہنما پسند فرمایا ہم ایسے دنیاوی رہنما کیوں نہ پسند کریں۔(شرح فقہ اکبر صفحہ 182 تا186 مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

”وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر رضي الله تعالى عنه لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع“

ترجمہ “اور اگر کوئی فضیلت دے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر صدیق پر تو وہ کافر نہیں ہے مگر وہ مبتدع (بدعتی) ہے۔(فتاوى الهندية، كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، جلد2، صفحہ 276 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ردالمختار میں ہے

”ان کان یفضل علیاکرم اللہ تعالی وجھہ علیھمافھومبتدع “

ترجمہ:اگرکوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوحضرت ابوبکراورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماپرفضیلت دے ، وہ بدعتی ہے ۔(ردالمحتارمع درمختار،جلد06،صفحہ363،مطبوعہ کوئٹہ)

افضلیت علی رضی اللّٰہ عنہ کا قائل گمراہ،اور خلافت صدیق و عمر رضی اللّٰہ عنہما کا منکر عند الفقہاء کافر ثابت کرتے ہوئے اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت فتح القدیر اور فتاوی بزازیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

”في الروافض من فضل عليا على الثلاثة فمبتدع وان انكر خلافة الصديق اوعمررضی الله عنهما فهو كافر۔

رافضیوں میں جو شخص مولی علی کو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالی عنہم سے افضل کہے گمراہ ہے اور اگر صدیق یا فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو کافر ہے۔

وجیز امام کردری میں ہے :

من انكر خلا فة ابي بكر رضى الله تعالى عنه فهو كافر فى الصحيح ومن انكر خلافة عمر رضى الله تعالى عنه فهو كافر في الاصح

خلافت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر کافر ہے، یہی صحیح ہے، اور خلافت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے۔(فتاوی رضویہ، ج14، ص250/251،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

عید غدیر میں شرکت

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”من تشبه بقوم فهو منهم“

ترجمہ:جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے ۔“ (سنن ابو داؤد، کتاب اللباس،رقم الحدیث:4031،ج2،ص203، مطبوعہ لاہور)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ ملا علی قاری کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’اناممنوعون من التشبيه بالكفرة واهل البدعة المنكرة في شعار هم“

ترجمہ:ہمیں کافروں اور منکر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج24، ص533،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’جو بات کفار یا بد مذہباں اشرار یافساق فجار کا شعار ہو بغیر کسی حاجت صحیح شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار ممنوع و ناجائز و گناہ ہے۔اگرچہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میں ضرور ان سے تشبہ ہوگا اس قدر منع کو کافی ہے اگرچہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو۔“(فتاوی رضویہ ج24، ص535/536،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

محمد شاہد حمید

22ذوالحج1444

11جولائی2023

اپنا تبصرہ بھیجیں