مرزا جہلمی کا فقہ حنفی پر اعتراض کہ کتا اٹھا کر نماز پڑھنا جائز لکھا ہے

مرزا جہلمی کا فقہ حنفی پر اعتراض کہ کتا اٹھا کر نماز پڑھنا جائز لکھا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کتابیہ فرقہ کا بانی انجینئر محمد علی مرزا نے اعتراض کیا ہے کہ فقہ حنفی کی کتاب شامی میں لکھا ہے کہ کتااٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے اور بچہ اٹھا کر نماز پڑھنا جائز نہیں جبکہ حدیث پاک سے حضور علیہ السلام کا اپنی نواسی اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت ہے۔مرزا نے اس مسئلہ میں فقہ حنفی کا مذاق اڑایا ہے۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

جاہل مرزا انجینئراپنے کسی بیان میں شامی کی وہ عربی عبارت پڑھ کر نہیں بتاسکتا کیونکہ اسے عربی ہی نہیں آتی ۔یہ دراصل وہابی غیر مقلدوں کے اعتراضات کاپی پیسٹ کرتا ہے کیونکہ یہ آدھا وہابی اور آدھا شیعہ ہے۔ یہ اعتراض کئی سال پہلے وہابی مولوی طالب الرحمن اور اس جیسے مولویوں نے کیا ہےا ور فقہائے احناف نے اس کا جواب دیا ہے۔

غیر مقلد وہابی ہوں یا مرزا انجینئر جیسا جاہل ان کو اتنی عقل نہیں کہ فقہ کس چیز کا نام ہے۔یہ اپنی جہالت میں گھسے پٹے جاہلانہ اعتراضات سے فقہ حنفی کو لوگوں کی نظروں میں کمزور ثابت کرکے اپنی دوکانداری چلانا چاہتے ہیں۔پھر انجینئر مرزا نے یہ صریح جھوٹ بولا ہے کہ فقہ حنفی میں بچہ اٹھا کر نماز پڑھنا فاسد لکھا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

جس حدیث کو مرزا انجینئر نے پیش کیا ہے اسی حدیث کو دلیل بناکر علمائے کرام نے فقہ کے دیگر مسائل اخذ کیے ہیں کہ جس طرح بچہ ایک پاک چیز ہے اس کو اٹھا کر نماز پڑھنے سے نماز ہوجائے گی اسی طرح دیگر جو بھی پاک چیزیں ہوں تو انہیں بھی اٹھا کر نماز ہوجائے گی ۔ انجینئرکو نجس العین (جومکمل طور پر ظاہری اورباطنی طور پر ناپاک ہو)اور نجس الغیر(جس کا ظاہر بدن ناپاک نہ ہو) کا فرق معلوم نہیں۔ کتا نجس الغیر ہے اور نجس الغیر جانوروں کا جسم پاک ہوتا ہے جب تک کوئی نجاست نہ لگی ہو۔ تو یہ اس کی جہالت ہے اور اگر یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود محض فقہ دشمنی کی وجہ سے اعتراض ہے تو یہ خیانت ہے۔

غیر مقلدوں اور انجینئر مرازا سے ہمارا یہ سوال ہے کہ آپ حدیث پاک سے اس مسئلہ کا جواب دیں کہ کتااگر جائے نماز پر بیٹھ جائے یا سجدہ کے وقت نماز ی کے اوپر سوار ہوجائے تو نماز کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ سارے وہابی اور انجینئر جیسے جاہل ڈھونڈتے رہیں اس کا جواب نہیں دے سکیں گے اورمجبوراً ان کو فقہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

کتب فقہ میں ہزاروں ایسے مسائل لکھے ہوتے ہیں جن کی کبھی حاجت نہیں پڑی ہوتی لیکن قرآن و حدیث کی روشنی میں ان مسائل کے احکام موجود ہوتے ہیں کہ کسی بھی دور میں اگر کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو اس کا شرعی حکم معلوم ہوسکے۔ کتب فقہ میں فقط ایک شرعی حکم بیان کیا گیا ہے ایسا نہیں کہ اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ نماز میں کتا اٹھا یا جائے بلکہ ایک فرضی صورت بیان کی گئی ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تو شرعی حکم یہ ہے۔پھر کتاہویا بچہ یا اور کوئی چیز اس کے مزید احکام بھی ہیں کہ ان کے جسم پر نجاست لگی تھی یانہیں،اگر لگی تھی توکتنی تھی،کتنی نجاست پر نماز فاسدہوگی اور کتنی پر مکروہ تحریمی ہوگی ،یہ گود میں اٹھانا عمل قلیل تھا یا کثیر تھا وغیرہ۔

صحیح البخاری میں حضرت سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی وھو حامل امامة بنت زینب۔۔الخ “

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اس حال میں کہ آپ امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 74، مطبوعہ کراچی)

اس حدیث پاک کی شرح میں فتح الباری میں ہے

”علی صحۃ صلوۃ من حمل آدمیا وکذا من حمل حیوانا طاہرا“

یعنی آدمی اور اسی طرح حیوان جو پاک ہو اسے اٹھا کر نماز پڑھنا درست ہے۔(فتح الباري شرح صحيح البخاري، قوله باب إذا حمل جارية صغيرة على عنقه ،جلد1،صفحہ592،دار المعرفة – بيروت)

امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

” حديث حمل أمامة رضي الله عنها ففيه دليل لصحة صلاة من حمل آدميا أو حيوانا طاهرا من طير وشاة وغيرهما وأن ثياب الصبيان وأجسادهم طاهرة حتى تتحقق نجاستها وأن الفعل القليل لا يبطل الصلاة “

ترجمہ:حضرت امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اٹھانے والی حدیث میں دلیل ہے کہ آدمی یا پاک حیوان ،پرندہ ، اوربکری وغیرہ کو اٹھا کر نماز پڑھنا درست ہے کیونکہ بچوں کے کپڑے اور اجسام پاک ہیں یہاں تک کہ ان میں نجاست ہونا متحقق ہوجائے(پھر اٹھانا جائز نہ ہوگا)اور قلیل عمل(یعنی معمولی عمل سے کسی کو گود میں اٹھانا) نماز کو باطل نہیں کرتا۔ (صحیح مسلم، (باب جواز حمل الصبيان في الصلاة ،جلد5،صفحہ31،دار احیاء التراث العربی،بیروت)

فقہ حنفی کے عظیم محدث علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

” ومن فوائد هذا الحديث: جواز إدخال الصغار في المساجد. ومنها: جواز صحة صلاة من حمل آدميا، وكذا من حمل حيوانا طاهرا. ومنها: أن فيه تواضع النبي، عليه الصلاة والسلام، وشفقته على الصغار وإكرامه لهم ولوالديهم “

ترجمہ:اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ چھوٹے بچوں کو مساجد میں لانا اور انہیں دوران نمازگود میں اٹھانا جائز ہے یونہی پاک جانور کو اٹھانا جائز ہے۔نیز اس حدیث میں حضور علیہ السلام کا بچوں کے ساتھ شفقت اور ان کے اور ان کے والدین کے لیے اکرام ہے۔

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، باب من حمل جارية صغيرة على عنقه في الصلاة،،جلد4،صفحہ304،دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہما کو گود میں لے کر نماز پڑھی ہے۔‘‘(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 134، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :

” چھوٹے بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھنے کے بارے میں (بعض لوگوں کا) یہی خیال ہے کہ نماز نہیں ہوگی،اس واہِمے (یعنی گمان، خیال) کو ختم کرنے کے لئے امام بُخاری ( رحمۃ اللہ علیہ)نے یہ باب باندھا اور یہ حدیث ذکر فرمائی۔اگر چھوٹے بچّے کا جسم اور کپڑے پاک ہوں اور اُتارنے اور گودمیں لینے میں ’’ عملِ کثیر‘‘ نہ ہوتا ہو تو چھوٹے بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔“(نزہۃ القاری ج۲ص۱۹۸)

ردالمحتار میں ہے

” والظاهر أن مسألة الكلب مبنية على أرجح التصحيحين، من أنه ليس بنجس العين، بل هو طاهر الظاهر كغيره من الحيوانات سوى الخنزير فلا ينجس إلا بالموت ونجاسة باطنه في معدنها فلا يظهر حكمها كنجاسة باطن المصلي، كما لو صلى حاملا بيضة مذرة صار محها دما جاز لأنه في معدنه، والشيء ما دام في معدنه لا يعطى له حكم النجاسة، بخلاف ما لو حمل قارورة مضمومة فيها بول فلا تجوز صلاته لأنه في غير معدنه كما في البحر عن المحيط “

ترجمہ:ظاہر یہ ہے کہ کتے کا مسئلہ تصیحین میں ارجح ہے(یعنی یہ مسئلہ تصحیح شدہ ہے) کہ کتا نجس العین (مکمل ناپاک) نہیں۔بلکہ دیگر جانوروں کی طرح اس کاظاہری جسم پاک ہے سوائے خنزیر کے۔کتا ناپاک نہیں ہوتا سوائے مرجانے کی صورت میں اور جو کتے میں نجاست (تھوک،خون وغیرہ) ہے وہ اس کے اندر ہے تو اس کا حکم ظاہر نہیں ہوگا جیسے نمازی کے باطن کی نجاست پر حکم نہیں ہوتا۔جیسےنمازی نے ایسا انڈا اٹھائے نماز پڑھی جو انڈا اندر سے خون بن چکا تھا تو نماز درست ہے کیونکہ وہ خون اپنے محل میں ہے اور شے جب تک اپنے محل میں ہوتو ناپاکی کا حکم نہیں ہوتا بخلاف پیشاب کے کہ اگر اسے اٹھائے نماز پڑھی جائے تو نماز درست نہ ہوگی کہ یہ اپنے محل میں نہیں جیسا کہ بحر میں محیط سے ہے۔(ردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب شروط الصلوٰۃ،جلد1،صفحہ402،دارالفکر،بیروت)

نمازی کی گود میں نجس آلود بچہ بیٹھ جائے،تو اس کے متعلق تبیین الحقائق،بحرالرائق ،محیطِ برہانی اور حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:واللنظم للآخر:

”فلو جلس صبی علیہ نجاسة فی حجر مصل وھو یستمسک او الحمام المتنجس علی راسہ ،جازت صلاتہ ،لانہ الحامل للنجاسة غیرہ،بخلاف مالو حمل من لا یستمسک حیث یصیر مضافا الیہ فلا یجوز“

ترجمہ :بچے (کے بدن یا کپڑے )پر نجاست لگی ہو،اور وہ نمازی کی گود میں آ کر بیٹھ جائے اور بچہ (اس قابل ہو کہ ) گود میں خود رُک سکے ،یا نجس کبوتر نمازی کے سر پر بیٹھ گیا تو نماز درست ہے ،کیونکہ اس صورت میں نمازی حامل ِ نجاست (نجاست اٹھائے ہوئے )نہیں ،البتہ اگر ایسے بچے کو اٹھایا جو خود نہیں رک سکتا یعنی یہ کہا جائے کہ نمازی نے اس کو اٹھایا ہے ،تو نماز درست نہیں ۔(حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطھارت،صفحہ 158،مطبوعہ کراچی)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

”ہوشیار بچہ جس کے جسم و ثوب یقینا ناپاک ہوں ،خود آ کر مصلی پر بیٹھ جائے ،نماز جائز ہے، اگرچہ ختم نماز تک بیٹھا رہے کہ اس صورت میں مصلی خود حاملِ نجاست نہیں۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

”نجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے ،تو اس کا پاک کرنا فرض ہے،بے پاک کیے نماز پڑھ لی، تو ہو گی ہی نہیں ،اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا ۔۔۔ اور اگر درہم کے برابر ہے، تو پاک کرنا واجب ہے کہ بے پاک کیے نماز پڑھی، تو مکروہِ تحریمی ہوئی یعنی ایسی نماز کا اعادہ واجب ہےاور قصداً پڑھی، تو گنہگار بھی ہوا ،اور اگر درہم سے کم ہے ،تو پاک کرنا سنت ہے کہ بے پاک کیے نماز ہو گئی، مگر خلاف ِ سنت ہوئی،اور اس کا اعادہ بہتر ہے۔‘‘(بہارشریعت،جلد1،صفحہ 389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

دوسری جگہ لکھاہے:

” عملِ کثیر کہ نہ اعمال نماز سے ہو نہ نما زکی اصلاح کے ليے کیا گیا ہو، نماز فاسد کر دیتا ہے، عملِ قلیل مفسد نہیں، جس کام کے کرنے والے کو دُور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے، بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں تو وہ عملِ کثیر ہے اور اگر دُور سے دیکھنے والے کو شبہہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں، تو عملِ قلیل ہے۔ “(بہارشریعت،جلد1،حصہ 3،صفحہ 609، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

07جمادی الاول 1445ھ22نومبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں