میلاد کو بدعت کہنا

میلاد کو بدعت کہنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ولادت کا جشن نہ تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا نہ ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی نے کیا۔ لہٰذا یہ بدعت ہے اور حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے جس کا انجام جہنّم ہے۔ آپ اس بارے کیا فرماتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

1۔سوالِ مذکور کا جواب یہ ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے خوشی منانا، اور محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا ذکرِ رسول و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں کرنا، ولادت کے مبارک لمحات کو یاد کرنا، جائز طریقوں سے خوشی کا اظہار کرنا، نعمت ملنے پر چرچہ و اظہارِ مسرت کرنا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور عین شریعت کے مطابق ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں رحمن کی پہچان ہوئی انہی کا صدقہ قرآن ملا انہی کا صدقہ رمضان ملا انہی کا صدقہ ایمان ملا، لھذا آپ کی ذات گرامی حقیقت میں اللہ پاک کی سب سے بڑی نعمت فضل اور رحمت ہے اور نعمت و فضل کے اظہار کی ترغیب و تبلیغ قرآن میں موجود ہے اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرنا صدیوں سے اکابرواسلاف میں رائج ہے۔

2 ۔کسی کام کے ناجائز ہونے کا دارومدار اس بات پر نہیں کہ یہ کام نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یا آپ کے صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوان نے نہیں کیا بلکہ مدار اس بات پر ہے کہ اس کام سے اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا ہے یا نہیں؟ اگر منع فرمایا ہے تو وہ کام ناجائز ہے اور منع نہیں فرمایا تو جائز ہے۔

کیونکہ قاعدہ وقانون بھی یہی ہے کہ عدمِ جواز کی دلیل نہ ہونا خود دلیلِ جواز ہے اور ’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ ترجمہ: تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں۔ یعنی ہر چیز مباح اورحلال ہے ہاں اگر کسی چیز کو شریعت منع کردے تو وہ منع ہے، یعنی ممانعت سے حرمت ثابت ہوگی ورنہ مباح وجائز کیونکہ یہ قاعدہ قرآنِ پاک اور احادیثِ صحیحہ و اقوالِ فقہا سے ثابت ہے۔

3۔اور یہ کہنا کہ ’’ہرنیا کام گمراہی ہے‘‘ دُرست نہیں کیونکہ بدعت کی ابتدائی طور پر دو قسمیں ہیں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ۔ بدعتِ حسنہ وہ نیا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہ ہو جیسے مَوْلِد شریف کے موقع پر محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا، قراءَت و حسنِ قراءت کی محافل کا اہتمام کرنا، ختم بخاری کی محافل کرنا، سیرت کے جلسے کرنا، وغیرہ۔ اور بدعتِ سیّئہ وہ ہے جو کسی سنّت کے خلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہوجیسے غیرِ عربی میں خُطبۂ جُمعہ و عیدین پڑھنا

(نوٹ حدیث پاک میں اچّھی چیز کے ایجاد کرنے والے کے لیے ثواب کی بشارت بھی ہے۔ لھذا اجتماعات و محافل میلاد کو عین شریعت کے مطابق کیا جائے جو عشقِ رسول، محبتِ رسول، اتباعِ رسول، ایمان بالرسول، کا ذریعہ بنے صلوۃ وسنت کی ترغیب کا باعث بنے تو یہ کیسا اعلی اور ثواب کا کام ہے)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا“

ترجمۂ کنز الایمان:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔(پ11، یونس :58)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

”وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ“

ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔(پ30، والضحٰی:11)

مزید ارشاد باری تعالیٰ

”وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ“

ترجمہ اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(سورۃ الانبیاء آیت107)

صراط الجنان میں اسی کے تحت ہے:

”تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔“( صراط الجنان،جلد8،صفحہ380،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں:

’’ربیعُ الاوّل چونکہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادتِ باسعادت کا مہینا ہے لہٰذا اس میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کی راتوں میں صدقات اور اچّھے اعمال میں کثرت کرتے ہیں۔ خصوصاً ان محافل میں آپ کی میلاد کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرتے ہیں۔ محفلِ میلاد کی یہ برکت مجرّب ہے کہ اس کی وجہ سے یہ سال امن کے ساتھ گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر اپنا فضل و احسان کرے جس نے آپ کے میلاد مبارَک کو عید بناکر ایسے شخص پر شدّت کی جس کے دل میں مرض ہے۔‘‘ (المواہب اللدنیہ،ج1، ص27 )

شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محفلِ میلاد کا انعقاد تمام عالَم ِاسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ اس کی راتوں میں صدقہ خوشی کا اظہار اور اس موقع پر خُصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر ظاہر ہونے والے واقعات کا تذکرہ مسلمانوں کا خُصوصی معمول ہے۔“ (ماثبت بالسنہ،ص102)

امام جمالُ الدّین الکتانی لکھتے ہیں:

’’حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کا دن نہایت ہی معظّم، مقدّس اور محترم و مبارَک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پاک اتّباع کرنے والے کے لئے ذریعۂ نجات ہے جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنّم سے محفوظ کرلیا۔ لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور حسبِ توفیق خرچ کرنا نہایت مناسب ہے۔“(سبل الہدیٰ والرشاد، ج1،ص364)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

( وَ اِنْ تَسْٴَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-) ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں توتمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اُتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے۔(پ7، المائدہ:101)

صدر الافاضل حضرت علّامہ مولانا سیّد محمد نعیمُ الدّین مُرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس اَمر کی شَرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا حرام وہ ہے جس کو اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے تو تکلف میں نہ پڑو۔‘‘(خزائن العرفان،ص224)

ارشاد فرمایا :

{ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ-}

ﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا فرمایا ۔(سورۃ البقرہ آیت29)

لہٰذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔

ترمذی شریف میں ہے:

’’الحلال ما احل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفٰی عنہ‘‘

ترجمہ:حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جس پر خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔ (ترمذی،ج3،ص280، حدیث:1732)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

’’معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا ہے پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنّت کے مطابق ہو اور کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو بدعتِ حسنہ کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعتِ ضلالت کہتے ہیں۔ اور کل بدعۃ ضلالۃ کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات مترجم، ج1،ص422)

مسلم شریف میں ہے:

”مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ‘‘

ترجمہ: جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ا ن کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔(مسلم، ص394، حدیث:1017)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ بابر عطاری مدنی اسلام آباد

2ربیع الاول1445/ 19ستمبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں