یہ کہنا کہ ہماری تلواریں حضرت علی کے ساتھ ہوتیں

یہ کہنا کہ ہماری تلواریں حضرت علی کے ساتھ ہوتیں

سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سوشل میڈیا میں انجینئر محمد علی مرزا اور اس کو دیکھ کر چند اور نیم رافضی قسم کے مولوی بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرتے ہوئے یہ جملہ بول رہے ہوتے ہیں کہ اگر ہم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہوتے تو ہماری تلواریں حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوتیں۔اِس دور میں یوں یہ جملے بولنا شرعا کیسا ہے؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

یہ جملے بولنا بُغضِ صحابہ اور گستاخی ہے۔یہ انجینئر مرزااور اس جیسے دیگر منہ پھٹ اور بے ادب لوگ اُس دور میں خارجی گروہ میں تھے اور آج بھی اس جیسے خارجی اور رافضی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حق حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا لیکن وہ دور آزمائش والا تھا۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مخالف گروہوں (جمل و صفین)میں بھی صحابہ کرام (حضرت طلحہ،زبیر،مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم)موجود تھے ،یہی وجہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عما ر بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ہستیوں نے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ سخت کلمات نہیں کہے جو آج کے مولوی بولتے ہیں ۔

تاریخ کا کثیر مطالعہ کیا جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس دور میں خارجی گروہ نے ہی یہ سب فتنے بھرپا کیے اور عظیم ہسیتوں کو شہید کیا۔ اگر انجینئر مرزا حضرت علی کے گروہ میں سے ہوتا تو یہ بھی خارجی گروہ سے تعلق رکھتے ہوئے کسی صحابی کو ہی شہید کرتا جس طرح اب یہ بزرگ ہستیوں کی کردار کشی کررہا ہے۔لہذا مسلمانوں کو اس حوالے سے محتاط گفتگو کرتے ہوئے وہی کہنا چاہیے جو احادیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ صحابہ کا ذکر اچھے طریقے سے کرو اورہمارے مستندعلمائے اسلاف فرماچکے کہ تمام صحابہ کرام کا ادب و احترام کرتے ہوئے ان کے باہمی اختلافات پر خاموشی اختیار کی جائے اوریہ کہا جائے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق بجانب تھے لیکن دوسری طرف والے بھی اجتہادی خطا پرتھے ایسا نہیں کہ معاذ اللہ گمراہ تھے جیسا کہ خارجی تھے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

”عن زياد بن الحارث، قال: كنت إلى جنب عمار بن ياسر بصفين وركبتي تمس ركبته فقال رجل: كفر أهل الشام فقال عمار: لا تقولوا ذلك نبينا ونبيهم واحد وقبلتنا وقبلتهم واحدة ; ولكنهم قوم مفتونون جاروا عن الحق فحق علينا أن نقاتلهم حتى يرجعوا إليه “

ترجمہ:زیاد بن حارث نے فرمایا کہ میں جنگ صفین کے موقع پر حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب تھا اور میں گھٹنہ ان کے گھٹنے کو چھو رہا تھا۔ایک شخص نے کہا : اہل شام (حضرت امیر معاویہ اور ان کے گروہ)نے کفر کیا۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ایسا نہ کہو ،ان کا اور ہمارا نبی ایک ہے، ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے،لیکن وہ آزمائش میں مبتلا ہوئے اور حق سے جدا اور ہم پر ہے کہ ہم ان سے لڑیں جب تک وہ واپس نہیں آتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،جلد7،صفحہ،547،مکتبۃ الرشد،الریاض)

شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحَمیری اپنی معتبر کتاب ”قُرب الاِسناد“ میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے

”جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق “

ترجمہ : امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مدِمقابل (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا ۔ (قرب الاسناد ، الحميري القمي ،صفحہ 93 )

دوسری روایت میں ہے

”جعفر، عن أبيه: أن عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا “

ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ،ہمارے خلاف ہوگئے۔ (قرب الاسناد، الحميري القمي ،صفحہ94)

اس کے برعکس خارجیوں کے متعلق حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ کے کلمات بہت سخت تھے چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث پاک ہے

’’عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ، مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْحَرُورِیَّۃَ لَمَّا خَرَجَتْ، وَہُوَ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالُوا:لَا حُکْمَ إِلَّا لِلَّہِ، قَالَ عَلِیٌّ:کَلِمَۃُ حَقٍّ أُرِیدَ بِہَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا، إِنِّی لَأَعْرِفُ صِفَتَہُمْ فِی ہَؤُلَاء ِ، یَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِہِمْ لَا یَجُوزُ ہَذَا، مِنْہُمْ، وَأَشَارَ إِلَی حَلْقِہِ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللہِ إِلَیْہِ ‘‘

ترجمہ: عبیداللہ بن ابی رافع سے روایت ہے کہ خارجیوں کے خروج کے وقت وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے، خوارج نے کہا اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کلمہ تو حق ہے لیکن اس سے باطل کا ارادہ کیا گیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کا حال بیان کیا تھا میں ان میں ان لوگوں کی نشانیاں پہچان رہا ہوں یہ زبان سے تو حق کہتے ہیں مگر وہ اس سے تجاوز نہیں کرتا اور حلق کی طرف اشارہ فرمایا۔ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے ہاں یہی ہیں ۔ (صحیح مسلم،جلد2،صفحہ 749،حدیث1066،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے لڑنے والے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو گہرا رنج ہوا چنانچہ امام سلیمان بن احمد شامی، ابو القاسم طبرانی ﷫ (المتوفی: 360ھ/ 971ء) “المعجم الکبیر” میں روایت نقل کرتے ہیں:

”ان عليا رضي الله عنه، انتهى إلى طلحة بن عبيد الله وقد مات، فنزل عن دابته وأجلسه، فجعل يمسح الغبار عن وجهه ولحيته، وهو يترحم عليه ويقول: ليتني مت قبل هذا اليوم بعشرين سنة“

ترجمہ: جب امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو حضرت سیِّدُناطلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو (فوراً آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جسدِ خاکی کے پاس تشریف لائے) سواری سے اتر کر حضرت سیِّدُنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ گئے، پس آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے اور داڑھی مبارک سے گرد وغبار صاف کرتے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دعائے رحمت کرتے، اور (انتہائی درد بھرے انداز میں) فرمایا : ’’اے کاش! یہ دن دیکھنے سے بیس سال پہلے ہی میں اس دنیا سے چلا جاتا۔(المعجم الكبير للطبراني، جلد نمبر1،صفحہ نمبر 113، مطبوعه: مكتبة ابن تيمية، القاهرة)

حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل کو حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے جہنم کی بشارت سنائی چنانچہ علامہ ابو عبد الله محمد بن عبد الله حاكم﷫ (المتوفی:405ھ/1014ء ) اپنی کتاب “المستدرک علی الصحیحین” میں نقل کرتے ہیں:

”عن زر بن حبيش، قال: كنت جالسا عند علي فأتي برأس الزبير ومعه قاتله، فقال علي: للآذن بشر قاتل ابن صفية بالنار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لكل نبي حواري، وإن حواري الزبير“

ترجمہ: زر بن حبیش سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس بیٹھا تھا، تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر لایا گیا، اور ساتھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل تھا ، پس حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے دربان سے فرمایا: صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر سنا دو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ (المستدرك على الصحيحين، جلد نمبر3،صفحہ نمبر 414، مطبوعه: دار الكتب العلمية ، بيروت)

روافض کے ہاں معتبر ترین کتاب ” نهج البلاغة “کی شرح میں عبد الحمید بن ہبۃ الله المعروف ابن ابي الحديد (المتوفی:656ھ/1258ء) لکھتا ہے:

”فلما قام إلى الصلاة شد ابن جرموز عليه فقتله و أخذ رأسه و خاتمه و سيفه و حثا عليه ترابا يسيرا و رجع إلى الأحنف فأخبره فقال و الله ما أدري أسأت أم أحسنت اذهب إلى علي فأخبره فجاء إلى علي فقال للآذن قل له عمرو بن جرموز بالباب و معه رأس الزبير و سيفه فأدخله و في كثير من الروايات أنه لم يأت بالرأس بل بالسيف فقال له و أنت قتلته قال نعم قال و الله ما كان ابن صفية جبانا و لا لئيما و لكن الحين و مصارع السوء ثم قال ناولني سيفه فناوله فهزه و قال سيف طالما جلى به الكرب عن وجه رسول الله فقال ابن جرموز الجائزة يا أمير المؤمنين فقال أما إني سمعت رسول الله يقول بشر قاتل ابن صفية بالنار فخرج ابن جرموز خائبا“

ترجمہ:پس جب حضرت زبیر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ابن جرموز نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کو قتل کر دیا۔ آپ کا سر، انگوٹھی اور تلوار لے لی، اور اس پر تھوڑی سی مٹی چھڑک دی، اور احنف کے پاس آیا اور انہیں اس سب اطلاع دی، انہوں نے کہا: خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ تو نے برا کیا یا اچھا کیا،حضرت علی(کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) کے پاس جاؤ اور ان کو بتاؤ، وہ حضرت علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)کی طرف آیا اور (خیمے کے پاس پہنچ کر) دربان سے کہا: حضرت علی کو بتاؤ کہ عمرو بن جرموز دروازے پر ہے اور اس کے پاس زبیر کا سر اور اس کی تلوار ہے۔ چنانچہ وہ اس خیمے میں داخل ہوا، اور بہت سی روایتوں میں ہے کہ وہ سر نہیں بلکہ صرف تلوار لے کر آیا تھا، پس حضرت علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) نے اس سے کہا: اور تم نے زبیر کو قتل کیا، اس نے کہا: ہاں، حضرت علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) نے کہا: خدا کی قسم ابن صفیہ (حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نہ تو بزدل تھے اور نہ ہی گھٹیا (مطعون)، بلکہ مصیبت اور تکلیف کی سختیاں آن پڑیں۔ پھر آپ نے کہا: اس کی تلوار مجھے دو، اس نے تلوار آپ حوالے کر دی تو آپ نے اسے زور سے ہلایا، اور فرمایا: یہ وہ تلوار ہے جس کے ذریعے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے ہمیشہ غم کو دور کرتا تھا۔ جرموز نے کہا: “انعام، اے امیر المؤمنین!” آپ نے ارشاد فرمایا: “(انعام کیا مانگتا ہے) بلکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ ابن صفیہ کے قاتل کو آگ کی خوش خبری دو۔” یہ سن کر ابن جرموز مایوس ناکام و نامراد ہو کر چلا گیا۔(شرح نهج البلاغة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 235-236، مطبوعه: مکتبة آیة الله العظمی المرعشي النجفي)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق سخت کلمات نہیں کہتے تھے ،ان کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں امام ذہبی (748ھ)لکھتے ہیں

”قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه “

ترجمہ : حضرت ابومسلم خولانی اور ایک جماعت نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاکر پوچھا :آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ظلماً قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں ۔تم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا ۔ ابو مسلم اور دیگر افراد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اوریہ بات کی ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاتلین کو ان کے سپرد نہ کیا۔( تاريخ الإسلام ،جلد3،صفحہ540، دار الكتاب العربي،بيروت)

اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکتوب میں بھی موجود ہے

” وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان “

ترجمہ : ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوے جب بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا ۔ (نهج البلاغة، مکتوب 58،صفحہ448 )

صحابہ کے متعلق زبانوں کی احتیاط کے حوالے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

’’ لا تذکروا مساوی اصحابی فتختلف قلوبکم علیھم و اذکرو ا محاسن اصحابی حتی تاتلف قلو بکم علیھم“

ترجمہ:میرے صحابہ کا تذکرہ برائی کے ساتھ مت کرو کہ تمہارے دل ان کے خلاف ہوجائیں ،میرے صحابہ کی اچھائیاں بیان کرو ،یہاں تک کہ تمہارے دل ان کے لیے نرم ہوجائیں ۔ (کنز العمال ،کتاب الفضائل ،الباب الثالث ،الفصل الاول ،جلد نمبر 11،صفحہ نمبر 541، حدیث نمبر 32535،مطبوعہ: مؤسسة الرسالة)

امام كمال الدين محمد بن عبد الواحد ابن الہمام ﷫ (المتوفى: 861ھ/1456ء) لکھتے ہیں

” (واعتقاد أھل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنھم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منھم والکف عن الطعن فیھم، (والثناء علیھم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالی علیھم) “

ترجمہ:اہل سنت کا عقیدہ(یہ ہے کہ) تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عدالت کو ثابت کرنے کے ساتھ ان کی پاکیزگی بیان کرنا واجب ہے اور ان سب کے معاملہ میں طعن سے باز رہنا واجب ہے اور ان کی تعریف کرنا ہے،جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے ۔ (المسامرۃ شرح المسایرہ ،الرکن الرابع ،الاصل الثامن ،صفحہ259،دارالکتب العلمیہ )

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫ (المتوفی: 1391ھ/1971ء) لکھتے ہیں:

” کوئی صحابی فاسق یا فاجر نہیں، سارے صحابی متقی، پرہیزگار ہیں یعنی اولاً تو ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتے اور اگر سرزد ہو جائیں تو رب تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق عطا فرماتا ہے۔… صحابیت اور فسق جمع نہیں ہوسکتے، جیسے اندھیرا اور اجالا جمع نہیں ہو سکتے۔ جس طرح نبی گناہ سے معصوم ویسے ہی سارے صحابہ فسق سے مامون و محفوظ ہیں کیونکہ قرآن کریم نے سب کے عادل متقی پرہیزگار ہونے کی گواہی دی اور ان سے وعدہ فرمایا مغفرت و جنت کا۔“ (امیر معاویہ پر ایک نظر، صفحه نمبر 18، مطبوعه: شبیر برادرز، لاہور)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء)لکھتے ہیں:

” کتبِ سیر میں کیسے کیسے مجروحوں میں مطعونوں شدید الضعفوں کی روایات بھری ہیں وہیں کلبی رافضی متہم بالکذب کی نسبت سیرت عیون الاثر کا قول گزرا کہ اُس کی غالب روایات سیر وتواریخ ہیں جنہیں علما ایسوں سے روایت کرلیتے ہیں وہیں سیرت انسان العیون کا ارشاد گزرا کہ سیر موضوع کے سوا ہر قسم ضعیف وسقیم وبے سند حکایات کو جمع کرتی ہے، پھر انصافاً یہ بھی انہوں نے سیر کا منصب بتایا جو اُسے لائق ہے کہ موضوعات تو اصلاً کسی کام کے نہیں، اُنہیں وہ بھی نہیں لے سکتے ورنہ بنظر واقع سیر میں بہت اکاذیب واباطیل بھرے ہیں کمالایخفی، بہرحال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بدمذہبی ہے، بد مذہبی نہیں تو جنون ہے، سیر جن بالائی باتوں کے لئے ہے اُس میں حد سے تجاوز نہیں کرسکتے اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات ومعضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلٰی آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا اعتراض نکالنا اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا مگر گمراہ بددین مخالف ومضاد حق تبیین۔ آج کل کے بدمذہب مریض القلب منافق شعار ان جزافات سیروخرافات تواریخ وامثالہا سے حضرات عالیہ خلفائے راشدین وام المومنین وطلحہ وزبیر ومعاویہ وعمروبن العاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم اہلبیت وصحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مطاعن مردودہ اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش ومہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب وواحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے اور اُن سے قرآن عظیم وارشاداتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واجماعِ اُمّت واساطین ملّت کا مقابلہ چاہتے ہیں بے علم لوگ اُنہیں سُن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں، اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنٰی مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کیلئے مسموع نہیں ہوسکتے نہ کہ اُن محبوبانِ خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ اجمالی سے کلام اللہ وکلام رسول اللہ مالامال ہیں جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد نمبر5،صفحہ نمبر582، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”مشاجرات صحابہ کرام:حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے۔) اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے، مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)ہم اہلسنت ان میں حق، جانب جناب مولیٰ علی( مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہ کو بدرجہا ان سے اکمل واعلیٰ جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد نمبر29،صفحہ 376-377، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

لہذا اس فتنہ کے دور میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان تاریخی واقعات اور انجینئر مرزا جیسے نیم رافضی و خارجی لوگوں کے بیانات پراپنے عقائد کی بنیاد رکھ کر صحابہ کرام یا اہل بیت سے بغض و کینہ نہ رکھیں بلکہ قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عقائد و نظریات رکھیں اور تمام صحابہ و اہل بیت سے حسن عقیدت رکھیں۔حضور علیہ السلام نے کثیر احادیث میں صحابہ کرام کو بُرا بھلا کہنے سے سختی سے منع کیا ۔

ترمذی شریف کی حدیث پاک حضرت ابن عمر سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

”إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علی شرکم “

ترجمہ: کہ جب تم ان کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو کہ تمہاری شر پر اللہ کی پھٹکار۔(جامع ترمذی،کتاب المناقب،جلد5،صفحہ697،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

 کنزالعمال کی حدیث پاک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

”کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم“

ترجمہ: ہر (مومن )شخص کی قیامت والے دن نجات ہے ، سوائے اس کے جس نے میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بُرا کہا۔اہل جہنم بھی ان پر لعنت کریں گے۔ (کنزالعمال ،کتاب الفضائل ،( الإکمال )من فضائل الصحابۃ اجمالا ،جلد11،صفحہ769 ،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد محمد انس رضا قادری

09 ربیع الآخر 1445ھ25اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں