مروجہ میلاد کو بدعت کہنے والوں کا رد

مروجہ میلاد کو بدعت کہنے والوں کا رد

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میلاد شریف مروجہ انداز کا دورِ نبوی و صحابہ و تابعین میں نہ تھا ، لہذا یہ بدعت و ممنوع ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سوالِ مذکور کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کہنا سراسر غلط و بے باکی ہے کیونکہ

اولاً اس لیے کہ میلاد کی اصل قرآن وسنت اور افعالِ صحابہ سے ثابت ہے، جیسا کہ اس پر کثیر دلائل آگے آرہے ہیں۔

دوم صرف زمانے کو معیار بنانا کہ فلاں زمانے میں تھا تو جائز اور فلاں زمانے میں نہیں تھا تو ناجائز یہ بھی جہالت اور من مانی شریعت گھڑنا ہے، کیونکہ ہمیں شریعت نے یہ قاعدہ وقانون دیا کہ جو چیز اللہ پاک نے حلال کی وہ حلال اور جو چیز حرام فرمائی وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا ہے وہ بھی کر سکتے ہیں۔

سوم ہر نئے کام کو بدعت سیئہ (بری بدعت) کہنا بھی جہالت وبے باکی ہے، کیونکہ ہمیں شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ جس نے اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے کرنے کا ثواب ملے گا اور جو اس طریقے پر عمل کرے گا تو اس کا ثواب بھی اسے ملے گا۔ مزیداجتماعاتِ میلاد و دینی محافل اشاعت دین کے لیے معاون و مددگار ہیں۔

چہارم ہر بدعت سے بدعت سیئہ مراد لینا بھی شریعت پر افتراء ہے کیونکہ نیا کام اگر شرعی اصولوں کے موافق ہے تو وہ بدعتِ حسنہ ہوتا ہے۔

پنجم ہر وہ کام جو تعظیمِ رسول، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا جائے بشرطیکہ شریعت کے دائرے میں ہوتو وہ جائزو مستحب و پسندیدہ اور شریعت کی نظر میں بہت ہی خوبصورت ہے کیونکہ محبت و تعظیم کی ہر بات کے لیے ضروری نہیں کہ وہ لکھی ہوئی ہو وگرنہ بہت سے ایسے کام ہیں جو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کیے جبکہ ان کے کرنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم نہیں دیا جیسا کہ آپ کی مجلس میں تعظیم کی وجہ سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تعظیم وادب میں سرجھکائے رکھنا،

حضرت عباس رضی اللہ کا تعظیم نبی میں خود کو آپ علیہ السلام سے عمر میں زیادہ نہ کہنا جبکہ ان کی پیدائش آپ علیہ السلام سے پہلے کی ہے صحابہ کرام کا آپ کے وضو کے پانی کو نیچے نہ گرنے دینا، آپ کے مبارک خون کو پی لینا وغیرہ یہ سب تعظیم و محبت میں تھا اسی طرح اگر تعظیم و عشق رسول کی وجہ سے ذکر مولد شریف ہوتو یہ بھی سو فیصد درست۔

جزءِ اول کے دلائل

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

” قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا“

ترجمہ: اے محبوب فرمادیجئیے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر چاہئے کہ خوشی کریں۔(پ11 سوره یونس، آیت58)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں۔ کیونکہ ارشادی باری تعالیٰ ہے:

”وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ“

ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لئے۔(پارہ17،سورة الانبياء،آیت107)

اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی آمد اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صفات مبارکه شاهد ، مبشر ، نذیر، داعی باذن اللہ اور سراج منیر بیان کر کے فرماتا ہے

” وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا“

ترجمہ کنز الایمان: ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔(پارہ22،سورة الاحزاب،آیت47)

معلوم ہوا حضور جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل ہیں اور فضل ورحمت ملنے پر خوشی کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دیا۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

” وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ“

ترجمه کنز الایمان: اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو۔(سورةالنخل، سورت16، آیت114)

تفسیر روح البیان میں ہے:

”قال الامام السيوطي قدس ، يستحب لنا اظهار الشكر لمولده علیه السلام“

ترجمہ: امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے۔(تفسير روح البيان في التفسير سورة فتح سورت48،آیت28، ج9،ص56، دارالفکر،بیروت)

امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ میلاد شریف کے متعلق استخراج اصل عمل مولد مبارک میں فرماتے ہیں

”والشكر الله تعالى يحصل بانواع العبادة كالسجود والصيام والصدقة والتلاوة واى نعمة اعظم من النعمة ببروز هذا النبي الكريم نبي الرحمة صلى الله عليه وسلم في ذلك اليوم “

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا شکر کئی قسم کی عبادات مثلا عبادات صیام ، سجود، تلاوت، صدقہ خیرات وغیرہ کے ذریعے ادا ہو جاتا ہے اور نبی کریم جو رحمت والے نبی ہیں اس دن ان کے ظہور سے بڑی نعمت اور کون سی ہو سکتی ہے؟(الحاوی للفتاوى بحواله ابن حجر، حسن المقصد في عمل المولد، ج1،ص196، دارالفکر بیروت)

ان آیات میں حکم ہے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی مناؤ، اللہ کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ اللہ کا کون سافضل ورحمت ، کون سی نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے زائد ہے کیونکہ تمام نعمتیں تمام رحمتیں تمام برکتیں انہیں کے صدقے میں عطا ہوئیں۔

بلاشبہ قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے کہ ولادتِ اقدس پر خوشی کرو۔ اسی کا نام میلاد ہے۔

المعجم الكبير للطبراني میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں:

” تَذَاكَرَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ الهُ عَنْهُ مِيلَادَهُمَا عندی“

ترجمہ: میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے میلاد کا ذکر کیا۔(المعجم الكبير للطبراني سنن ابی بکر وخطبته، ج1، ص58، مکتبه ابن تیمیه، القاهره)

مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے ، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو جواباً ارشاد فرمایا:

”ذاك يوم ولدت فيه ويوم بعثت او انزل على فيه“

ترجمہ یہ دن میری ولادت کا دن ہے، اسی دن میں مبعوث کیا گیا اور اسی دن مجھے پر قرآن نازل کیا گیا۔(صحيح مسلم، کتاب الصيام، ج2، ص819، دار احياء التراث العربي ، بيروت)

جزءِ ثانی کے دلائل

زمانے کو دلیل بنانا کہ فلاں زمانے میں تھا تو جائز اور فلاں زمانے میں نہیں تھا تو ناجائز یہ سرا سر جہالت اور اپنی طرف سے شریعت گھڑنا ہے، ہمیں تو صاحب شریعت نے یہ اصول دیا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال کی وہ حلال اور جو حرام فرمائی وہ حرام اور جس کے بارے میں سکوت کیا وہ بھی کر سکتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ“

ترجمہ اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کا حکم نازل نہیں کیا گیاکہ اگر ان کا حکم ظاہر کردیا جائے تو تمہیں تکلیف پہنچے۔(پارہ7 سورۃ المائدہ101)

اسی لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شرعی احکام میں کثرت سوال سے منع فرمایا کہ اس سے شریعت کے احکام کےسخت ہونے کا اندیشہ ہے اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا وہ عفو میں داخل ہیں۔

ترمذی شریف میں ہے:

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

”الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَالْحَرَام مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْه“

ترجمه: حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام بتایا اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے یعنی اس پہ کچھ مواخذہ نہیں۔ ( جامع الترمذی ابواب اللباس، باب ماجاء في لبس الفراء، ج3، ص272، دار الغرب الاسلامي بيروت)

سنن دار قطنی میں ہے کہ ابو ثعلبہ مشنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

”إِنَّ اللَّهَ عزوجل فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيَّعُوهَا وَحَرَّمَ حُرِّمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا وَحَدَ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْعَثُوا عَنْهَا“

ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے کچھ باتیں فرض کیں انہیں ہاتھ سے نہ جانے دو اور کچھ حرام فرمائیں اُن کی حرمت نہ توڑ اور کچھ حدیں باندھیں اُن سے آگے نہ بڑھو اور کچھ چیزوں سے بے بھولے سکوت فرمایا اُن میں کاوش نہ کرو۔(سنن دار قطنی، کتاب الرضاع ، ج 5، ص 325، موسسة الرسالة، بيروت)

جزءِ ثالث کے دلائل

ہر نئے کام کو بدعت سیئہ یعنی بری بدعت کہنا بھی جہالت ہے ، کیونکہ مسلم شریف میں ہے صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا

”مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَةٌ حَسَنَةٌ فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ“

ترجمہ: جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو اس طریقے پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا۔(صحیح مسلم، كتاب العلم ، باب من سن سنة حسنة الخ ، ج 2، ص 341، قدیمی کتب خانه، کراچی)

اجتماعات میلاد و دینی محافل اشاعت دین کے لیے معاون و مددگار ہیں جیساکہ فیض القدیر میں ہے:

”اما ما عضده عاضد منه بان شهد له من ادلة الشرع او قواعده فليس برد بل مقبول كبناء نحو ربط و مدارس وتصنيف علم وغيرها“

ترجمہ: جو چیز دین کے لئے مددگار ہواورہوبھی کسی دینی قانون وضابطےکےتحت، وہ مَردُود نہیں ہے، بلکہ وہ مقبول ہے، جیسا کہ سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور علم کی تصنیف کا کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔(فیض القدیر ،ج 6،ص47،تحت الحدیث:8333)

جزءِ رابع کے دلائل

ہر بدعت کو بدعت سیئہ میں منحصر کرنا بھی شریعت پر افتراء ہے۔بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ تراویح کی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں

”نعم البدعة هذه“

ترجمہ: یہ اچھی بدعت ہے۔(صحیح بخاری باب فضل من قام رمضان ، ج3، ص45، مطبوعہ دار طوق النجاة)

ثابت ہوا کہ ہر نیا کام اگر موافق اصول شرع کے ہے تو وہ بدعت حسنہ ہے۔حدیث پاک میں ہے”من سن سنة حسنة“کے عموم میں داخل ہو کر محمود و مقبول ہو گا اور اگر مخالف اصول شرعی ہو تو مذموم اور مردود ہوگا۔

شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں

”البدعة هو فعل ما لم يسبق إليه فما وافق السنة فحسن وما خالف فضلالة وهوا المراد حيث وقع ذم البدعة وما لم يوافق ولم يخالف فعلى أصل الإباحة“

ترجمہ: بدعت ایسے کام کو کہتے ہیں کہ جو پہلے نہ ہوا ہو پس نیا کام سنت کے موافق ہو وہ اچھا اور جو سنت کے خلاف ہو وہ گمراہی ہے۔ جہاں کہیں بدعت کی مذمت ہوگی اس سے مراد وہ بدعت ہوگی جو سنت کے مخالف ہے۔ جو سنت کے مخالف نہیں ، وہ مباح ہے۔(فتح الباری شرح صحيح بخارى، مقدمة الفتح ، جلد 01، صفحه 84، دار المعرفة بيروت)

قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ علبہ نے فرمایا

”ما احدث بعد النبي صلى الله عليه وسلم فهو بدعة والبدعة فعل مالاسبق اليه فما وافق اصلامن السنة ويقاس عليها فهو محمود و ما خالف اصول السنن فهو ضلالة ومنه قوله عليه الصلوة والسلام كل بدعة ضلالة “

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو نیا کام نکالا گیا وہ بدعت ہے اور بدعت وہ فعل ہے جس کا پہلے وجود نہ ہو، جس کی اصل سنت کے موافق اور اس پر قیاس کی گئی ہو وہ محمود ہے اور جو اصول سنن کے خلاف ہو وہ ضلالہ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک ہر بدعت گمراہی ہے“ اسی قبیل سے ہے۔

الحاوی للفتاوی میں ہے

”تعرض البدعة على القواعد الشريعة فاذا دخلت في الايجاب فهي واجبة اوفى قواعد التحريم فهي محرمة او المندوب فهي مندوبة او المكروه فهي مكروهة او المباح فهي مباحة “

ترجمہ: بدعت کو قواعد شرعیہ پر پیش کیا جائے گا پس اگر وجوب کے قاعدہ میں داخل ہو تو واجب، یا اگر حرام کے تحت ہو تو حرام، یا مستحب کے تحت ہو تو مستحب، یا مکروہ کے تحت ہو تو مکروہ ، یا وہ مباح کے قاعدہ کے تحت ہو تو مباح ہوگی۔(الحاوی للفتاوى، ج1،ص192، دار الكتب العلمية، بيروت)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں

” ان كانت ممايندرج تحت مستحسن في الشرع فهي بدعة حسنة وان كانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي بدعة مستقبحة“

ترجمہ: اگر وہ بدعت شریعت کے پسندیدہ امور میں داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی، اور اگر وہ شریعت کے ناپسندیدہ امور میں داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی۔ (عمدة القاری شرح صحيح كتاب الترويح ، باب فضل من قام رمضان ، ج11،ص126 ، بيروت)

لھذا ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے اور سیئہ بھی۔

جزءخامس کے دلائل

تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے میلاد کو مختلف انداز میں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے منانا بالکل جائز

ارشاد باری تعالیٰ ہے

”لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا“

ترجمہ: کنزالایمان تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔(سورۃ الفتح ایت9، پارہ26،)

سنن ابی داؤد میں ہے

”عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيْکٍ قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَأَصْحَابَهُ کَأَنَّمَا عَلَی رُءوْسِهِم الطَّيْرُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ“

حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب اس طرح تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الطب، باب : في الرجل یتداوي، 4 / 3، الرقم : 3855)

مستدرک حاکم میں ہے:

” عَنْ مُغِيْرَةَ بْنِ أَبِي رَزِيْنَ رضی الله عنه قَالَ : قِيْلَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما : أَیُّمَا أَکْبَرُ أَنْتَ أَمِ النَّبِيُّ ﷺ؟ فَقَالَ : ھُوَ أَکْبَرُ مِنِّي وَأَنَا وُلِدْتُ قَبْلَهُ“

حضرت مغیرہ بن ابی رزین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھما سے پوچھا گیا : کون بڑا ہے آپ یاحضورنبی اکرم ﷺ ؟ تو انہوں نے فرمایا : حضورنبی اکرم ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور میں تو (صرف) پیدا ان سے پہلے ہوا ہوں۔(أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 362، الرقم5398)

بخاری شریف میں ہے

”عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَا إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَيْنَيْهِ قَالَ: فَوَاللہ ِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَي قَوْمِ، وَاللہِ، لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللہِ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا. وَاللہِ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَ إِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَه“

ترجمہ: حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ عروہ بن مسعود )کفار کی طرف سے وکیل بن کر آ ئے تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جائزہ لیتے رہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لعاب دہن زمین پر ڈالنا چاہتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس کو فورا ً پورا کیا جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کےلئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے لگتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انتہائی آہستہ رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔

اس کے بعد عروہ بن مسعود جب واپس اپنے ساتھیوں کی طرف گئے اور ان سے کہنے لگے: اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں۔لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد) صلی اللہ علیہ وسلم( کے صحابہ ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ لعاب دہن زمین پر ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرنے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو آہستہ رکھتے ہیں، اور انتہاء درجہ تعظیم کے وجہ سے وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔(أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب، الشروط، باب الشروط في الجھاد والمصالحۃ مع أھل الحرب وکتابۃ الشروط في القرض، 2 / 974، الرقم2581)

المستدرک علی الصحیحین میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حدیث بیان فرماتے ہیں

”أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحتجم، فلما فرغ قال: «يا عبد الله، اذهب بهذا الدم فأهرقه حيث لا يراك أحد» ، فلما برزت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عمدت إلى الدم فحسوته، فلما رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما صنعت يا عبد الله؟» قال: جعلته في مكان ظننت أنه خاف على الناس، قال: «فلعلك شربته؟» قلت: نعم، قال: «ومن أمرك أن تشرب الدم؟ ويل لك من الناس، وويل للناس منك»“

ترجمہ:وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے ،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوئے تو فرمایا :اے عبد اللہ!اس خون کو لے جاکر کسی ایسی جگہ بہادو جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھے ،پس جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (ظاہری)نگاہ مبارک سے پوشیدہ ہوا تو میں نے خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اسے پی لیا،جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں واپس لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے عبد اللہ ! تو نے اس کا کیا کیا؟ تو حضرت عبد اللہ نے عرض کی :میں نے اس کو ایسی جگہ پر رکھ لیا ہے جہاں میرا گمان ہے کہ وہ لوگوں سے مخفی رہے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو نے اسے پی لیا ہے؟تو میں نے عرض کی جی ہاں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تجھے کس نے خون پینے کا حکم دیا تھا؟تجھے لوگوں سے کچھ پہنچے گااورلوگوں کوتجھ سے کچھ پہنچے گا۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم،حدیث 6343، جلد3،صفحہ638،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

8ربیع الاول1445/ 26ستمبر2023

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں