موجودہ دور میں عقائد و فقہ سے اختلاف

موجودہ دور میں عقائد و فقہ سے اختلاف

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان کرام اس بارے میں کہ کس طرح کے مسائل ہوں تو اس میں باہم علمی اختلاف روا ہے؟ آجکل کئی مولوی حضرات عقائد و فقہ کے اہم مسائل میں اختلاف کرکے کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں اختلاف تو ایک علمی حسن ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

موجودہ دور فتنوں کا ہے۔ ایک گروہ حنفی،شافعی،مالکی ،حنبلی ،قادری ،چشتی ،سہروردی اور نقشبندی ہونے کو فرقہ واریت قرار دیتا ہے اور ایک ناتجربہ کار گروہ خود کو علامہ فہامہ اور مفتی اعظم سمجھ کر فقہ کے مفتی ٰبہ مسائل(وہ مسائل جن پر فقہائے کرام نے فتوی دیا) کے ساتھ ساتھ متفقہ عقائد اہلسنت میں بھی اختلاف رائے رکھتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو یہ باور کرواتا ہے کہ یہ اختلاف کوئی مذموم شے نہیں صحابہ و ائمہ کرام سے ثابت ہے۔

شرعی طور پر یہ دونوں گروہ واضح غلطی پر ہیں۔ متفقہ عقائد اہل سنت میں اختلاف بالکل جائز نہیں اور نہ ہی عقائد میں اختلاف صحابہ و ائمہ کرام سے مروی ہے۔ تمام بزرگ ہستیاں چودہ سو سالوں سے عقائد اہل سنت پر متفق ہیں۔یونہی حنفی ،شافعی،مالکی ،حنبلی،ماتریدی،اشعری،چشتی ،قادری ،سہروردی نقشبندی،اویسی وغیرہ سب اہل سنت ہیں،یہ الگ الگ فرقے نہیں۔

جن احادیث و صحابہ کرام اور ائمہ کرام سے اختلاف ثابت ہے وہ فقہ کے ان مسائل میں ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث سے نص (واضح دلیل)وارد نہیں۔فقہ حنفی اور دیگرفقہ میں جو اقوال اس فقہ کے واضح ترجیح والے موجود ہیں،ان کو کسی بھی مفتی کا ترک کرنا درست نہیں۔(اسبابِ ستہ کے سبب تبدیلی کی بحث الگ ہے۔)ہاں وہ مسائل جن کے بارے میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ میں صراحت نہ ہو ان میں اگر تجربہ کار مفتیان کرام قرآن وحدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اختلاف کریں تو وہ معتبر ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

”اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور خود مختلف گروہ بن گئے اے حبیب! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کیاکرتے تھے۔(سورۃ انعام آیت 159)

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

”حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے اور انہیں اختلاف اور فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ ان سے پہلے لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ “(تفسیر صراط الجنان سورۃ انعام پارہ 7 آیت 159)

احکام القرآن میں ہے

”الِاخْتِلَاف الْمَنْهِيَّ عَنْهُ إنَّمَا هُوَ الْمُؤَدِّي إلَى الْفِتْنَةِ وَالتَّعَصُّبِ وَتَشْتِيتِ الْجَمَاعَةِ“

ترجمہ:ممنوع اختلاف وہ ہے جو فتنے ،تعصب اور امت مسلمہ کی جماعت میں انتشار کا سبب ہو ۔(ا‌‌حکام القرآن لابن عربی جلد 1 صفحہ 382 مطبوعہ بیروت)

الاعتصام میں ہے امام شاطبی فرماتے ہیں:

”ووجدنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعده قد اختلفوا في أحكام الدين ولم يتفرقوا ولا صاروا شيعا“

ترجمہ:صحابہ کرام نے دین کے احکام میں اختلاف ضرور کیا ہے لیکن ان کا یہ اختلاف ان کے باہمی افتراق اور گروہ بندی کا سبب نہیں بنا۔(الاعتصام جلد 2 صفحہ 231 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

عبد الرحیم بن حسین عراقی اپنی کتاب” الأربعین العشاریۃ“میں فرماتے ہیں

”الاختلاف فی مسائل العقیدۃ المتفق علیہا عند أہل السنۃ والجماعۃ :فہذا اختلاف مذموم لأن العقیدۃ ثابتۃ بنصوص قطعیۃ فی الکتاب والسنۃ وقد أجمع علیہا الصحابۃ فلا یصح أن یکون فیہا اختلاف بین المسلمین“

ترجمہ: اہل سنت وجماعت کے متفق عقائد میں اختلاف مذموم ہے اسلئے یہ عقائد نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع صحابہ سے ثابت ہیں، جن میں اختلاف صحیح نہیں ہے۔(الأربعین العشاریۃ،جلد1،صفحہ3،دار ابن حزم،بیروت)

ابن ماجہ کی شرح میں ہے

”واما اختلاف المجتہدین فیما بینہم وکذلک اختلاف الصوفیۃ الکرام والمحدثین العظام والقراء الاعلام فہو اختلاف لا یضلل أحدہم الاخر ۔۔۔ قال امام المحدثین السیوطی فی إتمام الدرایۃ نعتقد ان امامنا الشافعی ومالکا وأبا حنیفۃ وأحمد رضی اللہ تعالی عنہم وسائر الأئمۃ علی الہدی من ربہم فی العقائد۔۔۔ ونعتقد ان طریقۃ أبی القاسم الجنید سید الطائفۃ الصوفیۃ علما وعملا طریق مقدم فہو خال عن البدعۃ“

ترجمہ:مجتہدین ،صوفیاکرام،محدثین عظام،قراء حضرات کا باہمی اختلاف ایک دوسرے کو گمراہ نہیں ٹھہراتا۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ”اتمام الدرایۃ“ میں فرماتے ہیں کہ ہمارے امام شافعی،مالکی،ابو حنیفہ احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ کرام رب تعالیٰ کی طرف سے عقائد میں ہدایت پر تھے۔ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ابو القاسم جنید بغدادی صوفی علما و عملی طور پر صحیح راہ پرتھے بدعت والے اعمال سے خالی تھے۔ (شرح سنن ابن ماجہ،جلد1،صفحہ283،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

تفسیر صراط الجنان میں ہے :

”شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ! حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لےکر میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک جتنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے سب کے لئے ہم نے دین کا ایک ہی راستہ مقرر کیا اور اس میں وہ سب متفق ہیں ، وہ راستہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ میں نے تمہارے لئے بھی یہی راستہ مقرر کیا ہے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی فرمانبرداری ، اُس پر اور اس کے رسولوں پر ، اس کی کتابوں پر ، روزِ جزا پر اور باقی تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانا اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ یہ اُمور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں کے لئے یکساں لازم ہیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ دین کے اصول میں تمام مسلمان خواہ وہ کسی زمانے یا کسی امت کے ہوں ، یکساں ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ، البتہ احکام میں امتیں اپنے اَحوال اور خصوصیات کے اعتبار سے جداگانہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا‘‘ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے۔

وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ: اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو بھی غلط عقائد اپنا کر دین میں پھوٹ ڈالنے سے منع فرمایا گیاہے۔(تفسیر صراط الجنان سورۃ الشوریٰ پارہ 25 آیت 13 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

ابو داؤد شریف میں ہے حضور علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا

”كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟» ، قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ ، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؟» قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي، وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَقَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللہِ» “

جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آجائے اس کا فیصلہ کیسے کرو گے ؟انہوں نے فرمایا :اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس بارے میں کوئی حکم نہ ملے؟ انہوں نے عرض کی سنت رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر رسول اللہ کی سنت میں اس بارے میں کوئی حکم نہ ملے ؟تو عرض کی :پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا( شاباش دی) اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے قاصد کو ایسی بات کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہوا۔(سنن ابو داؤد،کتاب الاقضیۃ،باب اجتہادالرائ فی القضاء،حدیث:3594 مطبوعہ کراچی)

سنن دار قطنی میں ہے

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی ایک تحریر ہے جو آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قضا کے متعلق یوں لکھ بھیجی تھی :

”الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا تَخَلَّجَ فِي صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغْكَ فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ اعْرَفِ الأَمْثَالَ وَالأَشْبَاهَ ، ثُمَّ قِسِ الأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ“

ترجمہ:جو مسئلہ تمہیں قرآن و سنت میں نہ ملے اور آپ کو اس بارے میں شک ہو تو اس پر غور کرو اور اچھی طرح غور کرو اور اس سے مشابہ مسائل پر اسے قیاس کرلو۔ (سنن دار قطنی،كتاب الأقضية والأحكام حدیث:4471 مطبوعہ الکتب الاسلامیہ لاہور)

کنز العمال میں ہے

”اختلاف امتی رحمة“

میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔(کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال،جلد 10، صفحہ 136 ، الرقم: 28686، مطبوعہ بیروت)

احکام القرآن لابن العربی میں ہے

”فَأَمَّا الِاخْتِلَافُ فِي الْفُرُوعِ فَهُوَ مِنْ مَحَاسِنِ الشَّرِيعَةِ“

ترجمہ:فروع مسائل میں اختلاف محاسن شریعت میں شمار ہوتا ہے۔(ا‌‌حکام القرآن لابن العربی جلد 2 صفحہ111 مطبوعہ بیروت)

جامع البیان میں ہے

”یسرّنی لو أن أصحاب محمد لم یختلفوا؛ لأنھم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة “

ترجمہ:مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہیں رہتی۔(جامع بیان العلم وفضلہ جلد 2 صفحہ 87 مطبوعہ بیروت)

حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے

”النص ھو المتبع فلا یعول علی البحث معہ“

ترجمہ:اتباع تو نص کی ہی کی جائے گی اس کے ہوتے بحث پر اعتماد نہیں کیا جائیگا۔(حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطلاق جلد 2 صفحہ 241 مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت)

حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:

’’آج کل درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا، نہ کہ واعظ جسے سواے طلاقت لسان، کوئی لیاقت جہاں درکار نہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، کتاب الصوم جلد 10 صفحہ 664 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

علامہ شامی رحمۃ اللہ شرح عقود رسم المفتی میں فرماتے ہیں

’’ان الاجماع علی منع اطلاق التخییر ای بان یختار ویتشھی مھما اراد من الاقوال فی ای وقت اراد‘‘

ترجمہ :مطلق اختیار یعنی جس وقت چاہے جس قول کو چاہے اختیار کرے اس کی مما نعت پر اجماع ہو چکا ہے۔ (شرح عقود رسم المفتی، صفحہ49،سہیل اکیڈمی ،لاہور)

مزیدعلامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں

’’ ان المجتھد والمقلد لا یحل لھما الحکم والافتاء بغیر الراجح لانہ اتباع للھوی وھو حرام اجماعا‘‘

پھر آگے ہے

’’ وقال الامام ابو عمرو فی آداب المفتی اعلم ان من یکتفی بان یکون فتواہ او عملہ موافقا لقول او وجہ فی المسئلۃ ویعمل بما شاء من الاقوال والوجوہ من غیر نظر فی الترجیح فقد جھلوخرق الاجماع‘‘

ترجمہ: مجتہد اور مقلد، ان میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ غیر راجح قول پر فتوی دیں یا فیصلہ کریں اس لئے کہ یہ خواہش کی پیروی ہے اور یہ حرام ہے ۔امام ابو عمرو آداب المفتی میں فرماتے ہیں کہ جو شخص ترجیح میں ٖغور کئے بغیر محض اتنی بات پر اکتفاء کرتا ہے کہ اس کا فتوی یا عمل کسی بھی قول یا کسی بھی وجہ کے مطابق ہوجائے اور وہ مختلف اقوال اور وجوہ میں سے جس پر چاہے عمل کرتا ہے تو وہ جاہل ہے اور اس نے اجماع کو پھاڑ دیا۔ (شرح عقود رسم المفتی، صفحہ10,11،سہیل اکیڈمی ،لاہور)

میزان الشریعہ الکبری میں ہے

”ان اشارع بین لنا بسنتہ ما اجمل فی القرآن وکذلک الائمہ المجتھدین بینو لنا ما اجمل فی احادیث الشریعہ ولو لا بیانھم لنا ذلک لبقیت الشریعہ علی اجمالھا وھکذا القول فی اھل کل دور بالنسبہ للدور الذین قبلھم الی یوم القیامہ فان الاجمال لم یزل ساریا فی کلام علماء الامہ الی یوم القیامہ ولولا ذلک ما شریعت الکتب ولا عمل علی الشروح حواش کما مر“

شارع علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی سنت کے ساتھ قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل کی ہے اور ایسے آئمہ مجتہدین نے ہمارے لیے احادیث شریعت کے اجمال کو بیان فرمایا ہے اور بالفرض ان کا بیان نہ ہوتا تو شریعت اپنے اجمال پر باقی رہتی اور یہی بات ہر اہل دور کی بہ نسبت اپنے پہلے دور والوں کی ہے قیامت تک اس لیے کہ اجمال علماء امت کے کلام میں قیامت تک جاری رہتا اگر ایسا نہ ہوتا تو کتابوں کی شرحیں اور شرحوں پر حواشی نہ لکھے جاتے۔(میزان الشریعہ الکبری جلد 1 صفحہ 46 مطبوعہ مصطفی البابی مصر)

میزان الشریعہ الکبری میں ہے

”ایاکم ان تماد رو الی الانکار علی قول مجتھد او تختطہ الا بعد احاطتکم بادلہ الشریعہ کلھا ومعرفتکم بجمیع لغات العرب التی احتوت علیھا الشریعہ ومعرفتکم بمعانیھا وطرقھا “

ترجمہ:خبردار مجتھد کے کسی قول پر انکار یا اسے خطا کی نسبت نہ کرنا جب تک شریعت مطہرہ کی تمام دلیلوں پر احاطہ نہ کرلو جب تک تمام لغت عرب جن پر شریعت مشتمل ہے پہچان نہ لو اور ساتھ ہی فرمادیا وانی لکم بذلک بھلا کہاں تم اور کہاں یہ احاطہ۔(میزان الکبری جلد 1 صفحہ 39 مطبوعہ مصطفی البابی مصر)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

11صفر المظفر 1445ھ29اگست 2023ء

نظر ثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں