شہد کی مکھی اور ریشم کے کیڑے کی خریدو فروخت

شہد کی مکھی اور ریشم کے کیڑے کی خریدو فروخت

سوال کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان دین اس بارے میں کہ شھد کی مکھی اور ریشم کے کیڑے اور اس کے انڈوں کی خریدوفروخت کرنا کیسا ہے اور کیا شھد اور ریشم میں عشر واجب ہوگا ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق ریشم کے کیڑے کی بیع کرنا مختلف فیہ ہے امام اعظم کے نزدیک یہ جائز نہیں کیونکہ حشرات الارض کی بیع جائز نہیں اور امام ابو یوسف کے نزدیک کیڑا ریشم کے تابع ہو تو بیع جائز ہے اور امام محمد کے نزدیک ریشم کے کیڑے کی بیع جائز ہے کیونکہ یہ قابل انتفاع ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔

ریشم کے کیڑے کے انڈوں کی بیع کرنا یہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز نہیں جبکہ صاحبین کے نزدیک ضرورت کے تحت جائز ہے اور یہی صحیح ہے۔

شھد کی مکھیوں کی بیع جب اکٹھی ہوتو یہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جائز نہیں جب کہ امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جائز ہے اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے اور صحیح یہ ہے کہ ہر اس چیز کی بیع درست ہے جو کہ حقیقتہ اور شرعاً قابل انتفاع ہو۔شہد اگرچہ تھوڑا ہو اس میں عشر واجب ہے مگر ریشم میں عشر واجب نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے

”الصحيح أنه يجوز بيع كل شيء ينتفع به كذا في التتارخانيۃ “

ترجمہ: صحیح یہ ہے کہ ہر اس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے ، جس سے نفع اٹھایا جا سکتا ہو ، اسی طرح فتاوی تتاخانیہ میں ہے ۔(فتاوی عالمگیری ،جلد3،صفحہ123 مطبوعہ بیروت)

ھدایہ میں ہے

”ولایجوز بیع دود القز عند ابی حنیفہ لانہ من الھوام وعند ابی یوسف یجوز اذا ظھر فیہ القز تبعالہ وعند محمد یجوز کیف ماکان لکونہ منتفعابہ ولایجوز بیع بیضہ عند ابی حنیفہ وعندھما یجوز لمکان الضرورہ “

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک ریشم کے کیڑے کا بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ بھی حشرات الارض میں سے ہے اور امام ابو یوسف کے نزدیک جب اس پر ریشم ظاہر ہوجائے تو ریشم کے تابع کرکے کیڑوں کا بیچنا جائز بھی جائز ہے اور امام محمد کے نزدیک ہر طرح بیچنا جائز ہے کیونکہ یہ ایسا جانور ہے جس سے نفع اٹھایا جاتا ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک کیڑے کے انڈے بیچنا جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک ضرورت کی وجہ سے جائز ہے۔(ھدایہ کتاب البیع باب البیع فاسد جلد 7 صفحہ 174 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

درِ مختار میں ہے :

”(ويباع دود القَز) أي الإبريسم (وبيضه )ای بزرہ وھو بزر الفلیق الذی فیہ الدرد (والنحل) المحرز، وهو دود العسل وھذا عند امام محمد وبہ قالت الثلاثہ وبہ یفتی“

ریشم کے کیڑے اور اس کے انڈوں یعنی اس کو بیچا جاسکتا ہے اور وہ ایسا بزر الفلیق ہے جس میں کیڑا ہو اور شہد کی محفوظ کی ہوئی مکھیوں کی بیع جائز ہے اور یہ امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک ہے اور یہی آئمہ ثلاثہ نے بھی کہا ہے اور اسی کے ساتھ فتویٰ دیا جاتا ہے ۔(ردمختار ، باب البیع الفاسد ، جلد7 ، ص259،260 ، مطبوعہ کوئٹہ)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

”وبیع بذر القز وھو بیع الفلیق یجوز عند ابی یوسف و محمد رحمھما اللہ تعالیٰ علیہ وعلیہ الفتوی وبیع دود القز یجوز عند امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ایضا وعلیہ الفتوی“

اور ریشم کے کیڑے کے انڈوں کی بیع جائز ہے اور وہ جس میں کیڑا ہو صاحبین کے نزدیک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے اور ریشم کے کیڑے کی بیع جائز ہے امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اور اسی پر فتویٰ ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب البیع،جلد 3،صفحہ122 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

”ریشم کے کیڑے اوران کے انڈوں کی بیع جائز ہے۔“(بہار شریعت جلد 2 حصہ 11 صفحہ 711 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

ھدایہ میں ہے

”قال ولایجوز بیع النحل وھذا عند ابی حنیفہ وابی یوسف وقال محمد یجوز اذا کان محرزا وھو قول الشافعی لانہ حیوان منتفع بہ حقیقتہ وشرعا فیجوز بیعہ“

اور شھد کی مکھیوں کی بیع جائز نہیں ہے اور یہ ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ہے اور امام محمد نے فرمایا کہ جب اس کی حفاظت میں جمع ہو تو جائز ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے کیونکہ یہ جانور حقیقتہ اور شرعا قابل انتفاع ہے اس لیے اس کی بیع جائز ہے۔(ھدایہ کتاب البیع باب البیع الفاسد جلد 7 صفحہ 173 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

”ولا یجوز بیع النحل اذا کان مجموعا عند ابی حنیفہ وابی یوسف رحمھما اللہ تعالیٰ الا اذا کان فی کواراتھا عسل فاشتری الکوارات بما فیھا من النحل وقال محمد رحمہ اللہ تعالیٰ یجوز اذا کان مجموعا کذا فی الحاوی بیع النحل يجوز عند محمد رحمہ اللہ علیہ وعلیہ الفتوی كذا في الغاثیہ“

ترجمہ:شہد کی مکھیوں کو جبکہ اکٹھی موجود ہو بیع کرنا جائز نہیں ہے اور یہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ہے لیکن اگر چھتوں میں شہد ہو اور چھتے کو مع ان مکھیوں کے جو اس کے اندر ہے اسکی بیع کرنا جائز ہے امام محمد نے فرمایا اگر شہد کی مکھیاں اکٹھی جمع ہو تو ان کی بیع جائز ہے کذا فی الحاوی شہد کی مکھیوں کی بیع امام محمد کے نزدیک جائز ہے اور اسی پر فتویٰ ہے یہ غیاثیہ میں لکھا ہے ۔(فتاوی عالمگیری کتاب البیع،جلد 3،صفحہ122 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

مصنف عبد الرزاق میں ہے

”کتب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم إلی أهل الیمن أن یؤخذ من أهل العسل العشر“

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو لکھا ہے شھد میں عشر واجب ہے ۔(مصنف عبد الرزاق جلد 4 صفحہ 63 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

ھدایہ میں ہے

”وفی العسل العشر اذا اخذ من ارض العشر وقال الشافعی لایجب لانہ متولد من الحیوان فاشبہ الابریشم ولنا قولہ علیہ السلام فی العسل العشر“

اور شہد میں عشر واجب ہے جب کہ وہ عشری زمین سے ہو اور امام شافعی نے کہا کہ کچھ واجب نہیں ہے کیونکہ یہ حیوان سے پیدا ہوتا ہے لہذا یہ ریشم کے مشابہ ہے اور ہماری دلیل یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہد میں عشر واجب ہے۔(ھدایہ جلد 3 صفحہ 127 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے

”(یجب) العشر (في عسل) وإن قلّ (أرض غیر الخراج) ولو غیر عشریة کجبل ومفازة “

شھد اگرچہ تھوڑا ہی ہو اس میں عشر واجب ہوگا جو غیر خراجی زمین سے حاصل کیا جائے اگرچہ وہ زمین عشری نہ ہو۔

(فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 325 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”عشری زمین یا پہاڑ یا جنگل میں شہد ہوا، اس پر عشر واجب ہے۔ یوہیں پہاڑ اور جنگل کے پھلوں میں بھی عشر واجب ہے، بشرطیکہ بادشاہِ اسلام نے حربیوں اور ڈاکوؤں اور باغیوں سے اُن کی حفاظت کی ہو، ورنہ کچھ نہیں۔“(بہار شریعت جلد 1 حصہ 5 صفحہ 924 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

07 ربیع الآخر 1445ھ23اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں