بیعت کا ثبوت اور پیر کی شرائط

بیعت کا ثبوت اور پیر کی شرائط

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ بیعت کا ثبوت کہاں سے ہے؟ نیز پیر کی شرائط کیا ہیں ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

قرآن وحدیث میں بیعت کا ثبوت موجود ہے اور یہ بیعت نیک کام کرنے اور گناہوں سے بچنے پر ہوتی تھیں، یہی طریقہ تصوف میں رائج ہے کہ پیر کامل مرید بنانے سے پہلے گناہوں سے توبہ کرواتا اور نیک کام کرنے کا وعدہ لیتا ہے۔

جس پیر میں چار شرائط پائی جائیں وہی حقیقت میں جامع شرائط پیر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے اور جس میں چار شرائط میں سے ایک بھی کم ہو ،تو وہ پیر بننے کا اہل ہی نہیں، اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا ،ناجائز و گناہ ہے، اگر ایسے شخص کی بیعت کر لی تو اس کو ختم کرنا لازم ہے۔ وہ چار شرائط یہ ہیں:

(1) صحیح العقیدہ ہو سنی ہو۔

(2) دین کا اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

(3) فاسق (گناہ کرنے والا)نہ ہو۔

(4) اس کا سلسلہ بیعت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو۔(یعنی اس نے باقاعدہ کسی پیر سے بیعت کی ہو اور اس کے پیر نے آگے کسی پیر کامل کی بیعت کی ہو یوں یہ سلسلہ چلتا چلتا حضور علیہ السلام تک پہنچ جائے۔)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

”إنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ“

ترجمہ کنزالایمان : اور وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔(پاره 26، سورة الفتح ، آیت 10)

تفسیرِ نور العرفان میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ مفسر شهیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمه الله تعالی علیہ فرماتے ہیں:

”بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت سنت صحابہ ہے خواہ بیعت اسلام ہو یا بیعت تقوی یا بیعت توبہ یا بیعت اعمال و غیره۔“(تفسير نور العرفان ، پاره 26 سورة الفتح، آیت10)

تفسیرِ صراط الجنان میں اسی آیت کے تحت ہے:

” اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک جولوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرتے ہیں کیونکہ رسول سے بیعت کرنا اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرنا ہے جیسے کہ رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور جن ہاتھوں سے انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیعت کا شرف حاصل کیا ،ان پر اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت ہے تو جس نے عہد توڑا اور بیعت کو پورا نہ کیا وہ اپنی جان کے خلاف ہی عہد توڑتا ہے کیونکہ اس عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اسے عظیم ثواب دے گا۔

نوٹ: اس آیت میں جس بیعت کا ذکر کیا گیا ا س کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ بیعت ہے جوحُدَیْبِیَہ کے مقام پر حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے لی تھی اور یہ بیعت ’’بیعت ِرضوان‘‘ کے نام سے مشہورہے۔“(تفسیرِ صراط الجنان، پارہ26 سورۃ الفتح، آیت10،)

صحیح بخاری میں ہے

”عَنْ جَرِيرِ بن عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الله عليه ونت عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلُّ مسلم“

ترجمہ: حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے نماز کی پابندی زکوۃ کی ادائیگی اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔(بخاری شریف ، کتاب الايمان، باب قول النبي صلى الله علیه وسلم ، ج1، ص21، دار طوق النجاة)

مسلم شریف میں ہے

”عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رسول اللہ صلى الله عليه وآلہ وسلم في مجلس، فَقَالَ تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَسَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَذِّبَهُ“

ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں تھے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، اور زنا نہیں کرو گے ، اور چوری نہیں کرو گے، اور جس شخص کا قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے اس کو بے گناہ قتل نہیں کرو گے تم میں سے جس شخص نے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ تعالی پر ہے اور جس نے ان محرمات میں سے کسی کا ارتکاب کیا اور اس کو سزا دے دی گئی وہ اس کا کفارہ ہے اور جس نے ان میں سے کسی حرام کام کو کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا پردہ رکھا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف مفوض ہے،اگر وہ چاہے تو اس کو معاف کر دے اور اگر چاہے تو اس کو عذاب دے۔(صحیح مسلم ، باب الحدود كفارات لاهلها ، ج3، ص1333_ ، دار احياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی رضویہ میں امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”بیعت بیشک سنت محبوبہ ہے، امام اجل شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عوارف شریف سے شاہ ولی اللہ دہلوی کی القول الجمیل تک اس کی تصریح اور ائمہ واکابر کا اس پر عمل ہے، اور رب العزت عزوجل فرماتا ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ ﴾ترجمہ کنزالایمان اور وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔

اور فرماتا ہے: ﴿يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ﴾ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ (پاره 26، سورة الفتح ، آیت 10) اور فرماتا ہے: “لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تحْتَ الشَّجَرَةِ” بے شک اللہ تعالیٰ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس درخت کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے۔ (پاره 26، سورة الفتح، آيت10) اور بیعت کو خاص بجیا دسمجھنا جہالت ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: “يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكُنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقُنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلُنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانِ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعُهُنَّ وَاسْتَغْفِرُ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” اے نبی جب تمھارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللہ کا کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان یعنی موضع ولادت میں اٹھائیں اور کسی نیک بات میں تمھاری نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ (فتاوی رضویہ ، ج 26، ص 586، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں

’’من لم یحفظ القراٰن و لم یکتب الحدیث لایقتدی بہ فی ھذا الامر لان علمنا ھذا مقید بالکتاب و السنۃ‘‘

ترجمہ: جس نے نہ قرآن یاد کیانہ حدیث لکھی یعنی جو علم ِ شریعت سے آگاہ نہیں دربارِ طریقت اس کی اقتدا نہ کریں اسے اپنا پیر نہ بنائیں کہ ہمارا یہ علم طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ ،جلد1،صفحہ79، دار المعارف، القاہرۃ)

اعلیٰ حضرت بیعت کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”(1)شیخ کا سلسلہ باتصال صحیح حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک پہنچا ہو، بیچ میں منقطع نہ ہو کہ منقطع کے ذریعہ سے اتصال ناممکن۔۔۔۔۔(2)شیخ سنی العقیدہ ہو بدمذہب گمراہ کا سلسلہ شیطان تک پہنچے گا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک۔۔۔۔۔(3)عالم ہو اقول علم فقہ اسی کی اپنی ضرورت کے قابل کافی اور لازم کہ عقائد اہلسنت سے پورا واقف کفر واسلام وضلالت وہدایت کے فرق کا خوب عارف ہو ورنہ آج بد مذہب نہیں کل ہوجائے گا۔(4)فاسق معلن نہ ہو، اقول اس شرط پر حصول اتصال کا توقف نہیں کہ مجرد فسق باعث فسخ نہیں مگرپیرکی تعظیم لازم ہے اور فاسق کی توہین واجب ہے۔ دونوں کا اجتماع باطل۔“ (فتاوی رضویہ ملخصاً،جلد21،صفحہ507-505،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

ایک اورمقام پرہے:

” پیرمیں ان شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس کی بیعت جائز نہیں بلکہ اگر دانستہ کر لی تو اس پر اس بیعت کاتوڑناواجب ہے۔“ (فتاوی رضویہ شریف ،جلد21،صفحہ568،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ بابر عطاری مدنی اسلام آباد

11ربیع الثانی1445/ 26اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں