اللہ عزوجل کو خدا یا گاڈ کہنا

اللہ عزوجل کو خدا یا گاڈ کہنا

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جب اللہ تعالیٰ کے اسما توفیقی ہیں تو پھر خدا یا God گاڈ کہہ کر پکارنا کیسے درست ہے ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ اللہ پاک کے پاکیزہ اور برکت والے نام جن کا صفات و افعال کے طور پر اطلاق ہوتا ہے وہی ہیں جو قرآن و سنت میں اجمالاً و تفصیلاً بلا حصر بیان کئے گئے اور انہی کے ساتھ پکارنے کا حکم دیا گیا۔ اہلسنت کے راجح مؤقف کے مطابق اللہ تعالیٰ کے مبارک اسماء توقیفی ہیں یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں جو تعلیم دیئے گئے، انہی مبارک ناموں کے ساتھ اللہ پاک کو پکارا جائے گا اپنی طرف الفاظ و اسماء بنانے کی اجازت نہیں۔ یہ حکم اللّٰہ پاک کے ان اسماء کے متعلق ہے جو افعال و صفات کے متعلق بولے جائیں۔ اور باری تعالیٰ کا اسم ذاتی “اللّٰہ” ہے۔

دیگر لغات و زبانوں میں جو اسماء رب العالمین کی معرفت و پہچان کے لئے استعمال کئے جائیں، محض اسی ذات کے لئے استعمال ہوں اور ان کلمات کے معانی میں بھی حرج نہ ہو اور نہ ہی ممنوع و محال ہوں تو ان کے استعمال میں حرج نہیں جیسے فارسی میں”خدا”، “ایزد” اور “یزداں”، ترکی زبان میں “تنکری”، ہندی میں “ایشور”، اور انگریزی میں “God” وغیرہ۔ خدا لفظ “خود” اور “آ” سے مرکب ہے جس کا معنی ہے وہ ذات کہ جسے کسی نے نہ بنایا ہو،وہ خود سے ہو، یعنی کہ اس کا وجود لذاتہ ہے۔

ہاں جن کے معانی ممنوع و محال ہوں تو ان کا اطلاق درست نہیں۔ جیسے رام اس کا معنی ہے ہر چیز میں رما ہوا،سرایت کیا ہوا، یہ معنی اللہ پاک کے حق میں محال ہے۔ اور بھگوان اس کا معنی ہے عورت کی شرمگاہ والا، معاذاللہ یہ معنی بھی اللّٰہ پاک کے حق میں محال ہے۔ لہذا جن الفاظ کا معنی ممنوع و محال ہو ان کو اللہ پاک کے لئے بولنا جائز نہیں ہے۔

نیز جس لفظ کا معنی درست ہو مگر اسے اللہ پاک کیلئے کفار استعمال کرتے ہوں، مسلمانوں میں اس کا رواج نہ ہو تو مشابہت کے سبب وہ لفظ بھی ممنوع ہے۔ انگریزی زبان کا لفظ “God” یہ بھی بطور علم بولا جاتا ہے اور اس کا معنی محافظ ہے۔ جو کہ اللہ پاک کے لئے درست ہے، اس میں کوئی شرعی خرابی نہیں۔ مگر چونکہ نصاری کا عرف ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے۔ عرف کی بنا پر ہی معلّم کہنا بھی منع ہے کہ عرف میں بچے پڑھانے والے کو معلّم کہا جاتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَاوَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾

ترجمۂ کنزالعرفان : اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(پارہ 9 ، سورۃ الاعراف ، آیت 180)

مذکورہ بالا آیت ِمبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:

”﴿ اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ﴾ (جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں۔)اللہ تعالیٰ کے ناموں میں حق و اِستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے ہے ۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا، جیسا کہ مشرکین نے اِلٰہ کا”لات“ اور عزیز کا” عُزّیٰ“ اور منان کا ” مَنات “ کرکے اپنے بتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تَجاوُز اور ناجائز ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا نام مقرر کیا جائے ،جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو ، یہ بھی جائز نہیں ،جیسے کہ اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَسماء تَوقِیفیہ ہیں۔“(صراط الجنان ،جلد3،صفحہ 481،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

حدیث پاک میں ہے:

”عن ‌أبي هريرة رضي اللہ عنه: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: ‌إن ‌للہ ‌تسعة وتسعين اسما، مائة إلا واحدا، من أحصاها دخل الجنة“

ترجمہ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ایسے ہیں ، جو اِن ناموں کو یاد کرے گا ،وہ جنت میں جائے گا ۔( صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب ما يجوز من الاشتراط والثنيا في الإقرار، جلد 1 ، صفحہ 486 ، مطبوعہ لاھور)

مفتی محمد احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتےہیں:

”اللہ پاک کے بہت سے نام ہیں جن میں سے ایک نام ذاتی ہے، اللہ، باقی نام صفاتی۔حق یہ ہے کہ اللہ پاک کے نام توقیفی ہیں کہ شریعت نے جو بتائے اُن ہی ناموں سے پکارا جائے۔اپنی طرف سے نام ایجاد نہ کیے جائیں ، اگرچہ ان کا ترجمہ صحیح ہو۔ “(مراٰۃ المناجیح، جلد3، صفحہ 325، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز )

نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے اللہ پاک سے دعا کرتے ہوئے یوں عرض کیا:

”أسألك ‌بكل ‌اسم هو لك سميت به نفسك“

ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں ، جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، کتاب الدعاء ،جلد6، صفحہ40، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

امام شرف الدین نَوَوِی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

”واتفق ‌العلماء على أن هذا الحديث ليس فيه حصر لأسمائه سبحانه وتعالى فليس معناه أنه ليس له أسماء غير هذه التسعة والتسعين وإنما مقصود الحديث أن هذه التسعة والتسعين من أحصاها دخل الجنة فالمراد الإخبار عن دخول الجنة بإحصائها لا الإخبار بحصر الأسماء ولهذا جاء في الحديث الآخر أسألك بكل اسم سميت به نفسك“

ترجمہ :علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اسماء اِلٰہیہ ننانوے میں مُنْحَصِر نہیں ہیں ، حدیث پاک کا یہ مطلب نہیں کہ ان ننانوے ناموں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور نام نہیں ہیں ، بلکہ حدیث کا مقصود صرف یہ ہے کہ ان ننانوے ناموں کو یاد کرنے والا داخلِ جنّت ہوگا، تو مراد جنت میں داخل ہونے کی خبر دینا ہے ، نہ کہ ناموں کو انہی میں منحصرکرنا ، اسی وجہ سے دوسری حدیث پاک میں یہ الفاظ آئے کہ (نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے عرض کیا اے اللہ !) میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں ، جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے۔ (شرح النووی علی المسلم، کتاب الذکر والدعاء ۔الخ، باب فی اسماء اللہ ۔ ۔، جلد 17 ، صفحہ 5 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

مفتی محمد احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتےہیں:

’’ان ناموں میں رب تعالیٰ کے بہت سے مشہور نام نہیں آئے ، جیسے قدیم، وتر، شدید،کافی ، رب اکرم،اعلیٰ،اکرم الاکرمین، ذوالعرش المجید،فعال لما یرید، مالك یوم الدین،رفیع الدرجات، ذوالقوۃ المتین، ذوالعرش، احسن الخالقین وغیرہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے کل نام یہ نہیں ہیں ، جیساکہ پہلے عرض کیا گیا۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، جلد3، صفحہ326، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز )

مواقف و شرح مواقف میں ہے:

”{تسمیتہ تعالٰی بالاسماء توقیفیۃ ای یتوقف اطلاقھا علی الاذن فیہ} ولیس الکلام فی اسمائہ الاعلام الموضوعۃ فی اللغات انما النزاع فی الاسماء الماخوذۃ من الصفات و الافعال“

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے مختلف نام رکھنا یہ توقیفی ہے یعنی ان کے متعلق جب تک شرع کی طرف سے اجازت نہ ہو تو نہیں رکھ سکتے۔ اور مختلف زبانوں میں جو اللہ پاک کے اسماء اعلام وضع کئے گئے ہیں یہ کلام ان کے متعلق نہیں،اختلاف صرف ان اسماء میں ہے جو افعال و صفات سے لئے گئے ہوں۔(المرصد السابع،المقصد الثالث،تسمیتہ تعالٰی بالاسماء توقیفیۃ،ج4،ص232، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور )

شرح مقاصد میں ہے:

”قالوا اہل کل لغۃ یسمونہ باسم مختص بلغتھم کقولھم “خدا” و “تنکری” و شاع ذالک و ذاع من غیر نکیر و کان اجماعا قلنا کفی بالاجماع دلیلا علی الاذن الشرع“

ترجمہ: انہوں نے کہا ہر زبان والے اللّٰہ تعالیٰ کا وہ نام رکھتے ہیں جو انکی زبان کے ساتھ خاص ہوتا ہے جیسے خدا اور تنکری، اور یہ بغیر کسی اعتراض کے شائع و ذائع ہے اور یہ اجماع ہے، ہم نے کہا یہ اجماع اجازت شرع پر دلیل کافی ہے۔(شرح المقاصد،المقصد الخامس فی الالہیات،المبحث الثانی،ج3، ص257، نوری رضویہ پبلشنگ لاہور)

الیواقیت و الجواہر میں ہے:

”المبحث الخامس عشرہ: فی وجوب اعتقاد ان اسماء اللہ تعالی توقیفیۃ فلا یجوز لنا ان نطلق علی اللہ تعالی اسما الا ان ورد فی الشرع وقالت المعتزلۃ یجوز لنا ان نطلق علیہ الاسماء الائق معناھا بہ تعالٰی وان لم یرد بھا شرع ومال الی ذالک القاضی ابو بکر الباقلانی، قال الشیخ کمال الدین بن ابی شریف فی حاشیتہ:ولیس الکلام فی اسمائہ الاعلام الموضوعۃ فی اللغات و انما الخلاف فی الاسماء الماخوذۃ من الصفات و الافعال کما نبہ علیہ السید فی شرح المواقف“

ترجمہ: پندرہویں فصل اس بارے میں کہ اللہ تعالی کے اسماء کے توقیفی ہونے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے پس ہمارے لیے اللہ تعالی پر کسی اسم کا اطلاق کرنا جائز نہیں، مگر یہ کہ اس کے متعلق شرع میں اجازت وارد ہو اور معتزلہ نے کہا جن اسماء کے معنی اللہ تعالی کے لائق ہیں ان کا اطلاق اس پر کرنا درست ہے اگرچہ شرع میں ان کا ذکر نہ آیا ہو قاضی ابوبکر باقلانی بھی اسی طرف مائل ہوئے شیخ کمال الدین بن ابو شریف نے اپنے حاشیہ میں فرمایا یہ اختلاف اللّٰہ پاک کے ان اسماء اعلام میں نہیں جو مختلف زبانوں میں وضع کیے گئے ہیں، اختلاف صرف ان اسماء میں ہے جو صفات و افعال سے لیے گئے ہیں جیسا کہ اس پر سید نے شرح مواقف میں تنبیہ فرمائی ہے۔ (الیواقیت والجواہر،صفحہ 110 دارالکتب العلمیہ بیروت)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

”وخلاصة الكلام في هذا المقام أن علماء الإسلام اتفقوا على جواز إطلاق الأسماء والصفات على الباري تعالى إذا ورد بها الإذن من الشارع وعلى امتناعه إذا ورد المنع عنه، واختلفوا حيث لا إذن ولا منع في جواز إطلاق ما كان سبحانه وتعالى متصفا بمعناه ولم يكن من الأسماء الاعلام الموضوعة في سائر اللغات إذ ليس جواز إطلاقها عليه تعالى محل نزاع لأحد، ولم يكن إطلاقه موهما نقصا بل كان مشعرا بالمدح فمنعه جمهور أهل الحق مطلقا للخطر، وجوزه المعتزلة مطلقا، ومال إليه القاضي أبو بكر لشيوع إطلاق نحو خدا وتكرى من غير نكير فكان إجماعا، ورد بأن الإجماع كاف في الإذن الشرعي إذا ثبت“

ترجمہ:خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن اسماء و صفات کے ذات باری تعالی پر اطلاق کے متعلق شرع کی طرف سے اجازت ہے ان کا اطلاق کرنے پر علماء اسلام کا اتفاق ہے اور جن سے ممانعت وارد ہوئی ان کے ممنوع ہونے پر اتفاق ہے اور جہاں نہ اجازت ہے نہ ممانعت وہاں ان کا اطلاق کرنے میں اختلاف ہے جن کے معنی کے ساتھ ذات باری تعالی متصف ہے اور وہ مختلف زبانوں میں وضع کیے گئے اسماء اعلام بھی نہ ہوں کیونکہ جو مختلف زبانوں میں وضع کیے گئے اسماء اعلام ہیں ان کا ذات باری تعالی پر اطلاق کرنے میں کسی کا اختلاف نہیں، اور ان کے اطلاق میں نقص کا وہم نہ ہو بلکہ ان میں مدح کا معنی ہوں تو ان کو جمہور اہل حق نے اندیشے کی بنا پرمطلقا منع فرمایا ہے اور معتزلہ نے ان کی مطلقا اجازت دی ہے اور اسی طرح قاضی ابوبکر مائل ہوئے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ الفاظ خدا اور تنکری وغیرہ کا بغیر کسی انکار کے اطلاق کیا جاتا ہے لہذا اس پر اجماع ہو گیا ان کا رد یوں کیا گیا کہ اجماع جب ثابت ہو تو اجازت شرعی کے لیے دلیل کافی ہے۔(تفسیر روح المعانی،ج5، ص113،دار الکتب العلمیہ بیروت)

شہاب الدین محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں:

”ومن فسر الإلحاد في الأسماء بما ذكر ذهب إلى أن أسماء الله تعالى توقيفية يراعى فيها الكتاب والسنة والإجماع فكل اسم ورد في هذه الأصول جاز إطلاقه عليه جل شأنه وما لم يرد فيها لا يجوز إطلاقه وإن صح معناه“

ترجمہ: اور جس نے اسماء میں الحاد یعنی حد سے بڑھنے کی تفسیر کی اس کے ساتھ جو ذکر کیا گیا تو وہ اس بات کی طرف گیا کہ اللہ پاک کے اسما توقیفی ہیں اس میں قران،سنت اور اجماع کی رعایت کی جائے گی۔ تو ہر وہ نام جو اس اصول کے تحت آئے یعنی قران سنت اور اجماع کے تحت درست ہو تو اس کا اللہ پاک کی ذات پر اطلاق کرنا جائز ہے اور جو نام اس اصول پر پورا نہ اترے تو اس کا اللہ جل شانہ پر اطلاق درست نہیں اگرچہ اس کا معنی درست ہو۔(تفسیر روح المعانی،سورہ اعراف،آیت:180 ،ج5،ص113، دار الکتب العلمیہ بیروت)

تفسیر کبیر میں ہے:

’’وقولہم بالفارسیۃ خدای معناہ أنہ واجب الوجود لذاتہ لأن قولنا خدای مرکبۃ من لفظتین فی الفارسیۃ، أحدہما ’’خود‘‘ ومعناہ ذات الشیئ ونفسہ وحقیقتہ والثانیۃ قولنا ’’آی‘‘ معناہ جاء ، فقولنا خدای معناہ أنہ بنفسہ جاء وہو إشارۃ إلی أنہ بنفسہ وذاتہ جاء إلی الوجود لابغیرہ وعلی ہذا الوجہ فیصیر تفسیر قولہم خدای أنہ لذاتہ کان موجودا‘‘

ترجمہ:اور ان کا فارسی میں قول خدا اس کا معنی یہ کہ وہ لذاتہ واجب الوجود ہے کیونکہ ہمارا قول خدا یہ فارسی میں دو لفظوں سے مرکب ہے ان میں سے ایک “خود” اور اس کا معنی ہے ذات شی اور اس کا نفس اور اس کی حقیقت اوردوسرا ہمارا قول “آ” ہے اور اس کا معنی ہے عربی میں جاء یعنی خود آیا تو اب خدا کا معنی ہو جائے گا کہ وہ ذات خود موجود ہے اور یہ اشارہ ہے اللہ کی ذات اور اس کی حقیقت کی طرف کہ اس کا وجود خود بخود ہے نہ کہ اپنے غیر کے ساتھ اور اسی طریقے پر ان کے قول کی تفسیر ہو جائے گی کہ اس کا وجود ذاتی ہے۔( تفسیر کبیر،ج1،ص:122،دار احیاء التراث العربی بیروت)

امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’فإن قلت: فہل یعم تعظیم الأسماء جمیع الألفاظ الدائرۃ علی ألسنۃ الخلق علٰی اختلاف طبقاتہم وألسنتہم؟ فالجواب نعم، ہی معطمۃ فی کل لغۃ مرجعہا إلی ذات واحدۃ۔۔۔ وہو بلسان فارسی خدا، أی بلسان الحبشۃ ’’واق‘‘ وبلسان الفرنجی ’’کریطر دروا‘‘۔۔۔ تجد ذلک اسم الإلٰہی معظما فی کل لسان‘‘

ترجمہ: اگر تو اعتراض کرے کہ کیا اسماء کی تعظیم سارے الفاظ کو عام ہے جو دائر ہیں مخلوق کی زبانوں پر ان کے طبقوں اور زبانوں کے مختلف ہونے کی بنا پر تو جواب یہ کہ ہاں۔ کیونکہ یہ عظمت ہر اس لغت میں ہے کہ جس کا مرجع ذات وحدہ لا شریک کی طرف ہے۔۔۔ اور زبان فارسی میں خدا اور زبان حبشہ میں واق زبان فرنجی میں کری طر دروا۔ اسی طرح ہر زبان کے اندر تو ایسا الہی نام پائے گا جو اللہ تعالی کے وجود پر دلالت کرے گا۔ (الیواقیت والجواہر،ص:78، مطبوعہ مصر)

عقائد مع شرح النبراس میں ہے:

”فإن قیل: کیف یصح إطلاق الوجود والواجب والقدیم ونحو ذلک، کلفظ خدا بالفارسیة․․․ قلنا بالإجماع وہو من أدلة الشرعیة؛ لأنہ قد ثبت بالقرآن والحدیث أن ا لإجماع حجة“

ترجمہ:اور اگر اعتراض کیا جائے کہ وجود واجب اور قدیم وغیرہ جیسا کہ فارسی میں لفظ”خدا”کا اللّٰہ پاک پر اطلاق کیسے درست ہے؟ تو ہم جواب دیں گے اجماع کے سبب، اور اجماع ادلہ شرعیہ میں سے ہے کیونکہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اجماع حجت ہے۔ (النبراس علی العقائد،ص172 -173، مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت فرماتے ہیں:

”ھر زبان ہندی میں جو معبود برحق کے اسما سے ہے، جیسے ایشور، اور بظاہر اس میں کوئی معنی محال نہیں جیسے رام میں ہیں کہ ہر چیز پر رما ہونے اور سرایت و حلول پر دلیل ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج15، ص307، رضا فاونڈیشن لاہور)

فتاوی مصطفویہ میں ہے:

”اللہ عز وجل پر ہی خدا کا اطلاق ہو سکتا ہے،اور سلف سے لے کر خلف تک ہر قرن میں تمام مسلمانوں میں بلا نکیر اطلاق ہوتا رہا ہے،اور وہ اصل میں “خودآ” ہے،جس کے معنی ہیں وہ جو خود موجود ہوکسی اور کے موجود کئے موجود نہ ہوا ہو،اور وہ نہیں مگر اللہ عزوجل ہمارا سچا خدا۔“(فتاوی مصطفویہ، ص31، مطبوعہ، مکتبہ اعلی حضرت)

فتاوی شارح بخاری میں ہے:

” گاڈ انگریزی کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں محافظ، اس لحاظ سے اللہ تعالی کو گاڈ کہنے میں کوئی حرج نہیں ،لیکن چونکہ خدا کو گاڈ کہنا عیسائیوں کا عرف اور ان کا شعار ہے لہذا مسلمانوں کو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔“(فتاوی شارح بخاری، ج1، ص173، مکتبہ برکات المدینہ کراچی)

فتاوی شارح بخاری میں ہے:

”مجدد اعظم امام احمد رضا خان قدس سرہ نے فتاوی رضویہ میں ایشور کو معبود برحق کے اسماء میں شمار کیا۔ گارڈ انگریزی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی محافظ کے ہیں ان کے عرف میں خدا کو بھی گاڈ کہتے ہیں اس لحاظ سے اللہ عزوجل کو ایشور اور گارڈ کہنے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ ایشور وغیرہ خدا کو کہنا ہندوؤں کا عرف ہے اور گاڈ کہنا نگریزوں کا، اگر کوئی اجنبی آدمی کسی کے سامنے یہ کہے: ایشور چاہے گا تو یہ ہوگا. تو سننے والا اسے ہندو سمجھے گا اسی طرح اگر کوئی کہے: گاڈ چاہے گا تو یہ ہوگا۔ تو اسے عیسائی سمجھے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معبود برحق کو ایشور وغیرہ کہنا ہندوؤں کا شعار ہے اور گارڈ کہنا نصاری کا، اس لیے مسلمان ایشور، گارڈ وغیرہ کہنے سے احتراز کریں۔“(فتاوی شارح بخاری, جلد1,

، صفحہ 173 ،مکتبہ برکات المدینہ کراچی)

فتاوی شارح بخاری میں لفظ بھگوان کے معنی کے حوالے سے ہے:سنسکرت میں بھگ عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں اور وان کا معنی والا ہے۔( فتاوی شارح بخاری، جلد1،ص 171،مکتبہ برکات المدینہ کراچی)

مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

”قرآن کریم میں اللہ تعالی کی صفت یہ بیان ہوئی﴿ وَیُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمْ تَکُوۡنُوۡا تَعْلَمُوۡنَ﴾اس آیت کی روشنی میں لغوی معنی کے اعتبارسے یقیناًاللہ تعالیٰ معلم ہوا ، لیکن اللہ تعالیٰ کومعلم کہناممنوع ہے، اس لیے کہ عرف عام میں معلم مکتب میں بچوں کو پڑھانے والے کو کہتے ہیں۔‘‘(فتاوی شارح بخاری ، جلد 1 ، صفحہ 207 ، مطبوعہ برکات المدینہ ، کراچی )

واللّٰہ تعالٰی اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

2جمادی الاولی1445ھ

17نومبر2023ء جمعہ

اپنا تبصرہ بھیجیں