مرزا انجینئر کا قبلہ اول ہونے کا انکار کرنا

مرزا انجینئر کا قبلہ اول ہونے کا انکار کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں یہود کے حمایتی مرزا محمد علی انجینئر نے اپنے ویڈیوکلپ میں جزمی طور پر یہ کہا ہے کہ بیت المقدس قبلہ اول نہیں ہے۔آپ اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

مرزا انجینئر کا جزمی طور پر یوں قبلہ اول کا انکار کرنا، مسلمانوں کے دلوں سے اس کی اہمیت کو کم کرنا اور اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کا کہنا جہالت و غداری ہے۔

بیت المقدس کو قبلہ اول کہنا غلط نہیں ہے ۔دراصل اس بارے میں اختلاف ہے کہ جب نماز فرض ہوئی تو کس طرف منہ کر کے نماز پڑھی گئی۔ کثیر دلائل بلکہ صحابی رسول حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہی ثابت ہے کہ بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے مکہ میں نماز پڑھی جاتی رہی اور مدینہ میں بھی کچھ عرصہ ایسا رہا ،پھر قبلہ تبدیل ہونے کا قرآن میں حکم آیا اور بیت اللہ شریف قیامت تک مسلمانوں کا قبلہ بن گیا۔ اب مسلمانوں کا بیت المقدس کو قبلہ اول اس طور پر کہنا درست ہے کہ نماز میں پہلے قبلہ بیت المقدس ہی تھا کیونکہ جزمی طور پر اس کا خلاف ثابت نہیں۔ ہاں بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ایک تحقیق کے مطابق بیت المقدس قبلہ اول ہے۔

تفسیر مظہری میں ہے:

”واختلف العلماء في كيفية قبلته صلى الله عليه و سلم قبل الهجرة بمكة فقال قوم انه صلى الله عليه و سلم كان يصلى وهو بمكة نحو بيت المقدس والكعبة بين يديه رواه احمد عن ابن عباس ورواه ابن سعد ايضا وسنده جيد واطلق آخرون وقالوا انه كان يصلى الى بيت المقدس وقال البغوي كان يصلى الى الكعبة فلما هاجر الى المدينة استقبل بيت المقدس روى ابن جرير وغيره بسند جيد قوى عن ابن عباس قال لما هاجر رسول الله صلى الله عليه و سلم الى المدينة امره الله ان يستقبل بيت المقدس وقال ابن جريح انه صلى الله عليه و سلم أول ما صلى الى الكعبة ثم صرف الى بيت المقدس وهو بمكة فصلى ثلاث حجج ثم هاجر الى المدينة والاول أصح وأقوى “

ترجمہ: علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ مکہ میں ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبلہ کی کیفیت کیا تھی۔ بعض علماء نے فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں تھے تو اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں آپ کے سامنے ہوتے تھے۔ اسے امام احمد نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور ایسے ہی ابن سعد نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند جید ہے۔ بعض نے کہا کہ مکہ میں حضور علیہ السلام بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ امام بغوی نے کہا کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن جب وہ مدینہ ہجرت کر گئے تو بیت المقدس کی طرف منہ کیا۔ ابن جریر اور دیگر نے ابن عباس کی جید سند سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ ابن جریح نے فرمایا کہ آپ نے مکہ میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی پھر کعبہ ہی میں رہتے ہوئے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ہوا اور تین سال آپ نے یونہی نماز ادا کی ، پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ پہلا قول زیادہ صحیح اور مضبوط ہے۔(التفسیر المظہری،جلد1،صفحہ142،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

فتح الباری لابن رجب میں ہے:

”وقد اختلف الناس هل كان النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ و سلم بمكة قبل هجرته يصلي إلى بيت المقدس أو إلى الكعبة؟ فروى عن ابن عباس: إنه كان يصلي بمكة نحو بيت المقدس والكعبة بين يديه. خرجه الإمام أحمد . وقال ابن جريج: صلى أول ما صلى إلى الكعبة، ثم صرف إلى بيت المقدس وهو بمكة، فصلت الأنصار قبل قدومه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ و سلم إلى بيت المقدس ثلاث حجج وصلى بعد قدومه ستة عشر شهرا، ثم وجهه الله إلى البيت الحرام. وقال قتادة: صلت الأنصار قبل قدومه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ و سلم المدينة نحو بيت المقدس حولين.۔۔۔ وهؤلاء منهم من قال: ذلك كان باجتهاد منه لا بوحي “

ترجمہ: لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت سے پہلے مکہ میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے تھے یا کعبہ معظمہ کی طرف منہ کر کے ؟حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے جبکہ کعبہ معظمہ بھی سامنے ہوتا تھا۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں: حضور علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی، پھر مکہ میں رہتے ہوئے بیت المقدس کی طرف تین سال تک رخ کیا پھر ہجرت کے بعد سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کیا، پھر بیت الحرام کی طرف رخ کیا۔ حضرت قتادہ نے فرمایا: حضور علیہ السلام کی آمد سے قبل انصار نے مدینہ میں بیت المقدس کی طرف دو سال تک نماز پڑھی۔ ان میں سے جن علماء نے جو فرمایا وہ اپنے اجتہاد سے ہے نہ کہ الہام سے۔(فتح الباری لابن رجب، جلد1، صفحہ183، مكتبة الغرباء الأثرية، المدينة النبوية)

شرح زرقانی میں ہے:

” (نحو بيت المقدس) بأمر الله تعالى على الأصح، وقول الجمهور ليجمع له بين القبلتين كما عد من خصائصه على الأنبياء والمرسلين وتأليفا لليهود كما قال أبو العالية خلافا لقول الحسن البصري أنه باجتهاده، ولقول الطبري خير بينه وبين الكعبة فاختاره طمعا في إيمان اليهود، ورد بما رواه ابن جرير عن ابن عباس: لما هاجر صلى الله عليه و سلم إلى المدينة واليهود أكثر أهلها يستقبلون بيت المقدس أمره الله تعالى أن يستقبل بيت المقدس ففرحت اليهود فاستقبلها سبعة عشر شهرا وكان يحب أن يستقبل قبلة إبراهيم فكان يدعو وينظر إلى السماء فنزلت الآية يعني: {قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام} [البقرة: 144] (سورة البقرة: الآية 144) فارتابت اليهود وقالوا: ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها فأنزل الله: {ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله} [البقرة: 115] (سورة البقرة: الآية 115) وظاهره أن استقباله إنما وقع قبل الهجرة إلى المدينة، لكن روى أحمد من وجه آخر عن ابن عباس: «كان صلى الله عليه و سلم يصلي بمكة نحو بيت المقدس، والكعبة بين يديه» وجمع الحافظ بأنه لما هاجر أمر أن يستمر على الصلاة لبيت المقدس. وأخرج الطبري، عن ابن جريج قال صلى الله عليه و سلم أول ما صلى إلى الكعبة ثم صرف إلى بيت المقدس وهو بمكة فصلى ثلاث حجج، ثم هاجر فصلى إليه بعد قدومه المدينة ستة عشر شهرا، ثم وجهه الله إلى الكعبة. وقوله في حديث ابن عباس الثاني: والكعبة بين يديه يخالف ظاهر حديث البراء عند ابن ماجه أنه كان يصلي بمكة إلى بيت المقدس محضا.

وحكى الزهري خلافا في أنه كان بمكة يجعل الكعبة خلف ظهره أو يجعلها بينه وبين بيت المقدس، فعلى الأول كان يجعل الميزاب خلفه، وعلى الثاني كان يصلي بين الركنين اليمانيين. وزعم ناس أنه لم يزل يستقبل الكعبة بمكة فلما قدم المدينة استقبل بيت المقدس ثم نسخ؛ وهو ضعيف، ويلزم منه دعوى النسخ مرتين، والأول أصح؛ لأنه يجمع به بين القولين، وقد صححه الحاكم وغيره من حديث ابن عباس. اهـ. “

ترجمہ: (بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی) خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق، یہ زیادہ صحیح قول ہے اور جمہور کا قول ہے کہ یہ اس لئے تھا تاکہ آپ کے لیے دونوں قبلوں کو جمع کیا جائے جیسا کہ اسے انبیاء و مرسلین کے مقابلے میں ان کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا اور یہود کے لیے جیسا کہ ابو العالیہ نے کہا حسن بصری کے اس قول کے برعکس کہ یہ ان کے اپنے اجتہاد کی وجہ سے ہے اور طبری کے اس قول کے برعکس: حضور علیہ السلام کو بیت المقدس اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے یہود کے ایمان لانے کی خاطر بیت المقدس کی طرف رخ کیا۔ اس کا رد کیا جو ابن جریر نے ابن عباس کی روایت سے نقل کی ہے: جب حضور علیہ السلام نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی کثرت تھی تو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ، یہودی خوش ہوئے ،تو سترہ مہینوں کے لیے ایسا رائج رہا اور آپ علیہ السلام پسند کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبلہ کی طرف رخ ہو تو آپ اس کی دعا کرتے اور آسمان کی طرف دیکھتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے۔ ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف ۔ پھر یہودیوں کو اعتراض ہوا اور کہنے لگے: کس چیز نے انہیں اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر ہی اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے۔ اس کا ظاہر یہی ہے کہ مدینہ پاک کی طرف ہجرت سے قبل ہی بیت المقدس قبلہ تھا لیکن اما م احمد نے ایک اور نقطہ نظر سے ابن عباس سے روایت کی ہے: حضور علیہ السلام مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور کعبہ درمیان میں ہوتا تھا۔ امام ابن حجر عسقلانی نے اسی پر اتفاق کیا کہ جب حضور علیہ السلام ہجرت کر گئے تو انہیں بیت المقدس کی طرف نماز جاری رکھنے کا حکم دیا گیا۔ طبری نے ابن جریج سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : آپ علیہ السلام نے پہلے کعبہ کی طرف نماز پڑھی، پھر آپ بیت المقدس کی طرف رخ ہوا اور وہ مکہ میں تھے اور تین سال یہ جاری رہا، پھر ہجرت کی اور مدینہ میں سولہ ماہ یہ جاری رہا ،بعد میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ ابن عباس کی دوسری حدیث میں ان کا یہ قول: کعبہ ان کے سامنے ہوتا تھا یہ ظاہری طور پر حدیث براء کے خلاف ہے کہ جو ابن ماجہ میں ہے کہ وہ مکہ میں خالصتاً بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ امام زہری سے اس کے خلاف حکایت ہے کہ مکہ میں آپ علیہ السلام کعبہ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے یا اپنے اور بیت المقدس کے درمیان رکھا کرتے تھے، پہلے کے مطابق وہ میزاب کو اپنے پیچھے رکھتے تھے اور دوسرے کے مطابق وہ دو یمنی ارکان کے درمیان نماز پڑھتے تھے اور کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ وہ مکہ میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرتے تھے، پھر جب وہ مدینہ آئے تو آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا اور پھر اسے منسوخ کر دیا۔ یہ ضعیف ہے، اور اس میں دو مرتبہ فسخ لازم آئے گا اور پہلا زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ اس میں دونوں اقوال جمع ہیں اور حاکم اور دیگر نے اسے ابن عباس کی حدیث سے صحیح ثابت کیا ہے۔ (شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك، باب ما جاء في القبلة ،جلد1،صفحہ667،مكتبة الثقافة الدينية ، القاهرة)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

” وقد جاء في هذا الباب أحاديث كثيرة، وحاصل الأمر أنه قد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم أمر باستقبال الصخرة من بيت المقدس، فكان بمكة يصلي بين الركنين، فتكون بين يديه الكعبة وهو مستقبل صخرة بيت المقدس، فلما هاجر إلى المدينة تعذر الجمع بينهما، فأمره الله بالتوجه إلى بيت المقدس، قال ابن عباس والجمهور “

ترجمہ: اس باب میں کثیر احادیث آئی ہیں اور حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضور علیہ السلام نے بیت المقدس میں صخرہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ۔ تو آپ علیہ السلام دو رکنوں(حجرِ اسود اور رکن یمانی ) کے درمیان نماز پڑھتے تھے جس سے کعبہ سامنے ہو جاتا تھا اور وہ بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوتے تھے۔ پھر جب آپ نے مدینہ شریف ہجرت کی تو یوں دونوں کو جمع کرنا ممکن نہ رہا تو اللہ عزوجل نے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا، ابن عباس اور جمہور نے یہی فرمایا ہے۔(تفسیر ابن کثیر،جلد1،صفحہ325،دار الكتب العلمية،بیروت)

تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

” أن الله تعالى بين ذلك في قوله: وما جعلنا القبلة التي كنت عليها إلا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه [البقرة: 143] فأمرهم الله تعالى حين كانوا بمكة أن يتوجهوا إلى بيت المقدس ليتميزوا عن المشركين، فلما هاجروا إلى المدينة وبها اليهود، أمروا بالتوجه إلى الكعبة ليتميزوا عن اليهود “

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان میں واضح کیا: اور اے حبیب! تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ تو اللہ عزوجل نے حکم دیا جب آپ علیہ السلام و صحابہ کرام مکہ میں تھے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرو تاکہ مشرکین سے امتیاز ہو جائے اور جب مدینہ ہجرت کی تو وہاں یہود تھے تو حکم ہوا کہ کعبہ کی طرف منہ کرو تاکہ یہودیوں سے امتیاز ہو جائے۔( التفسير الكبير،جلد4،صفحہ83،دار إحياء التراث العربي،بيروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد محمد انس رضا قادری

16 ربیع الآخر 1445ھ01نومبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں