دیوبندیوں، وہابیوں کا میلاد کو ناجائز ثابت کرتے ہوئے ایک تحریفانہ عبارت پیش کرنا

دیوبندیوں، وہابیوں کا میلاد کو ناجائز ثابت کرتے ہوئے ایک تحریفانہ عبارت پیش کرنا

کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ دیوبندی اور وہابی جو سیرت کانفرنس کو تو بغیر دلیل جائز مانتے ہیں اور میلاد کو بغیر دلیل ناجائز و بدعت کہتے ہیں۔ پہلے تو ان کے پاس میلاد کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں تھی بس یہی ایک خود ساختہ دلیل بنائی ہوئی تھی کہ جو کام صحابہ نہ کریں بدعت ہوتی ہے اس لیے میلاد بدعت ہے(حالانکہ سیرت کانفرنس بھی صحابہ سے ثابت نہیں ہے) اب کچھ وہابیوں نے ایک مستند بزرگ حضرت ابن امیر الحاج(المتوفی 737ھ) رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”المدخل“ سے ایک عبارت میلاد کے ناجائز و بدعت ہونے پر دی ہے۔ وہ عبارت پیش خدمت ہے:

”ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہ فی شہر ربیع الأول من مولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات“

ترجمہ: من جملہ ان بدعات میں سے جن کو لوگ بہت بڑی عبادت اور شعارِ دین سمجھ کر کرتے ہیں، وہ افعال ہیں جو ربیع الاول کے مہینہ میں ولادت حضور کے موقع پر لوگ کرتے ہیں اور بے شک یہ افعال کئی بدعتوں اورحرام کاموں پرمشتمل ہیں۔

یہ عبارت دیوبندیوں کے دارالافتاء دیوبند انڈیا اور جامعہ بنوریہ کراچی کی ویب سائیٹ پر ان کے فتاوی میں ہے اور وہابی مولوی احسان الٰہی ظہیر کی کتاب ”البریلویۃ“ کے صفحہ131پر بھی ہے۔اس حوالے سے آپ کیا فرماتے ہیں؟ نیز اگر چند مستند علمائے کرام جن کو دیوبندی اور وہابی بھی اپنا پیشوا مانتے ہوں ان سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا ثبوت مل جائے تو بہت اچھا ہوگا۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

دیوبندی وہابیوں نے ہمیشہ کی طرح نامکمل عبارت پیش کرکے تحریفانہ انداز میں اپنے باطل نظریات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔حضرت ابن امیر الحاج(المتوفی 737ھ) رحمۃ اللہ علیہ بدمذہبوں کی طرح میلاد شریف کو ناجائز و بدعت کہنے کے قائل نہ تھے بلکہ وہ اس میں ہونے والی خرافات(جیسے گانے باجوں) کی مذمت کررہے ہیں اور آگے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منانے کی ترغیب دی تھی بلکہ ایک پوری فصل میلاد النبی کی شان پر بنام”فصل فی خصوصیۃ مولد الرسول بشہر ربیع الأول“لکھی۔

وہابی دیوبندیوں کی پیش کردہ عبارت کے ساتھ ہی وہ فرماتے ہیں

” فمن ذلک استعمالہم المغانی ومعہم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابۃ وغیر ذلک مما جعلوہ آلۃ للسماع ومضوا فی ذلک علی العوائد الذمیمۃ فی کونہم یشتغلون فی أکثر الأزمنۃ التی فضلہا اللہ تعالی وعظمہا ببدع ومحرمات ولا شک أن السماع فی غیر ہذہ اللیلۃ فیہ ما فیہ فکیف بہ إذا انضم إلی فضیلۃ ہذا الشہر العظیم الذی فضلہ اللہ تعالی وفضلنا فیہ بہذا النبی صلی اللہ علیہ وسلم الکریم علی ربہ عز وجل۔۔فکان یجب أن یزاد فیہ من العبادات والخیر شکرا للمولی سبحانہ وتعالی علی ما أولانا من ہذہ النعم العظیمۃ۔۔ألا تری أن صوم ہذا الیوم فیہ فضل عظیم لأنہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد فیہ فعلی ہذا ینبغی إذا دخل ہذا الشہر الکریم أن یکرم ویعظم ویحترم الاحترام اللائق بہ وذلک بالاتباع لہ صلی اللہ علیہ وسلم فی کونہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یخص الأوقات الفاضلۃ بزیادۃ فعل البر فیہا وکثرۃ الخیرات“

ترجمہ:پس ان قباحتوں میں سے لوگوں کا اس مہینے گانے باجوں ،آلات موسیقی جیسے ڈھول ،بانسری، گٹار وغیرہ کا استعمال کرنا ۔ جن اوقات کو اللہ پاک نے فضیلت اور عظمت عطا فرمائی ان میں بدعتوں اور حرام کاموں میں مشغول ہوکر بری عادتوں کوبرقرار رکھا ،اس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ا س عظمت والی رات کے علاوہ میں جس طرح محفل سماع ہوتی ہے تو اس رات میں اس کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے بالخصوص تب کہ اس رائج سماع کو اس عظمت والے مہینے کی فضیلت شمار کیا جائے جس کو اللہ پاک نے فضیلت عطا فرمائی اور ہمیں بھی اس مبارک مہینے میں فضیلت سے نوازا گیا اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو اپنے رب کے ہاں عزت والے ہیں ۔ لہذا لازم ہے کہ اس مبارک مہینے میں عبادات اور بھلائی والے کاموں میں اضافہ کیا جائے اللہ جل شانہ کا شکر بجالاتے ہوئے کہ اس نے ہمیں ان عظیم نعمتوں سے برتری سے نوازا ۔کیا تو دیکھتا نہیں ہے کہ اس دن میں روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا کام ہے اس لئے اس بابرکت دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ،لہذا اسی پر چاہئے کہ جب یہ احترام والا مہینہ آئے تو اس کی خوب تعظیم و توقیر کی جائے اور احترام کیا جائے جو اس کے لائق ہو اور یہ کام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی فضیلت والے اوقات میں خاص طور پر نیکی والے کا زیادہ کرتے اور بہت زیادہ خیرا ت کرتے تھے ۔(المدخل،فصل فی مولد النبی والبدع المحدثۃ فیہ،جلد2،صفحہ2، دار التراث،بیروت)

ثابت ہوا کہ وہابی جس بزرگ کی عبارت کو دلیل بناکر میلاد کو ناجائز و بدعت ثابت کررہے ہیں وہ واضح تحریف اور بددیانتی ہے۔ وہ بزرگ خود میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائل تھے البتہ اس میں ہونے والی چند غیر شرعی حرکات کی مذمت کررہے ہیں اور وہ مذمت اہل سنت علمائے کرام بھی کرتے ہیں کہ میلاد میں گانے باجے،میوزک والی نعتیں،قوالیاں یہ سب جائز نہیں۔مزید چند حوالہ جات میلاد شریف کے ثبوت پر دیوبندی وہابیوں کے پیشواؤں سے پیش خدمت ہیں:

دیوبندیوں کی کتاب ” المُہند“ میں ہے:

”سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایات سے ان اوقات میں جو عبادات واجبہ سے خالی ہوں۔۔۔ان مجالس میں جو منکرات شرعیہ سے خالی ہوں سبب خیر و برکت ہے۔۔۔۔کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا۔“(المہند علی المفند،صفحہ53،54،المیزان ناشران تاجران کتب،لاہور)

دیوبندیوں کے پیرحاجی امداد اللہ مہاجرمکی صاحب فرماتے ہیں:

’’مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں۔‘‘ (کلیات امدادیہ،فیصلہ ہفت،صفحہ81)

دیوبندیوں کا امام اشرف علی تھانوی محفل میلاد کے متعلق کہتا ہے:

’’اس کے متعلق پہلے میرا یہ خیال تھا کہ اس محفل کا اصل کام ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سب کے نزدیک خیر و سعادت اور مستحب ہی ہے۔ البتہ اس میں جو منکرات اور غلط رسمیں شامل کردی گئی ہیں ان کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہئے۔ اصل امر محفل مستحب کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ اور یہ دراصل ہمارے حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا مسلک تھا۔ حضرت کی غایت شفقت وعنایت اور محبت کے سبب میرا بھی ذوق یہی تھا۔ اور یہی عام طور پر صوفیائے کرام کا مسلک ہے۔ حضرت مولانا رومی بھی اسی کے قائل ہیں۔‘‘(مجالس حکیم الامت، صفحہ160،دارالاشاعت ،کراچی)

دیوبندی ،وہابیوں اور اہل سنت سب کے نزدیک ایک مستند شخصیت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور میں مکہ پاک میں ہونے والے میلاد کی منظر کشی کرتے ہوئے ” فیوض الحرمین “میں فرماتے ہیں:

’’مکہ معظمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولود مبار ک میں تھا ۔ میلاد شریف کے روز اور لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف پڑھتے تھے اور بیان کرتے تھے وہ معجزے جو آپ کی وقت و لادت ظاہر ہوئے تھے اور وہ مشاہدے جو نبوت سے پہلے ہوئے تھے ۔ تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی انوار ظاہر ہوئے ہیں ،یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا ان آنکھوں سے دیکھا اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فقط روح کی آنکھوں سے ۔خد ا جانے یہ کیا امر تھا ان آنکھوں سے دیکھا یا روح کی پس میں نے تامل کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نور ان ملائکہ کا ہے جو اسی مجلسوں اور مشاہد پر موکل مقرر ہیں اور میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ اور انوررحمت ملے ہوئے ہیں۔‘‘ (فیوض الحرمین مع اردو ترجمہ سعادت کونین،صفحہ 133،شاہ ولی اللہ اکیڈمی ،حیدر آباد)

مزید شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے میلاد شریف منانے اور اس میں لنگر تقسیم کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’میرے والد گرامی فرماتے تھے کہ میں یوم میلاد کے موقع پر کھانا پکوا یا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک سال کوئی چیز میسر نہ آسکی کہ کھانا پکوائوں،صرف بھنے ہوئے چنے موجود تھے، چنانچہ یہی چنے میں نے لوگوں میں تقسیم کئے۔خواب میں دیکھا کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں ،یہی چنے آپ کے سامنے رکھے ہیں اور آپ نہایت خوس اور مسرور دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ (رسائل شاہ ولی اللہ دہلوی ،جلد1،صفحہ354،تصوف فاؤنڈیشن،لاہور)

مختصر سیرہ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرقہ وہابیت کا امام ابن عبد الوہاب نجدی کا بیٹا عبد اللہ بن الشیخ لکھتا ہے

’’ وارضعتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثویبۃ عتیقۃ ابی لہب،اعتقھا حین بشرتہ بولادتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقد روی ابولہب بعد موتہ فی النوم فقیل لہ :ماحالک؟ فقال : فی النار الا انہ خفف عنی کل اثنین و امص من بین اصبعی ھاتین ماء واشار برأس اصبعہ وان ذلک باعتاقی ثویبۃ عند ما بشرتنی بولادۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بارضاعھا لہ۔ قال ابن الجوزی : فاذا کان ھذا ابو لہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ فما حال المسلم للمو حد من امتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسر بمولدہ؟ ‘‘

ترجمہ:حضور علیہ السلام کوحضرت ثویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے دودھ پلایا جو ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں۔ ابولہب نے اس کو تب آزاد کیا جب اس نے ابولہب کو حضور علیہ السلام کے پیدائش کی خوشخبری تھی۔ابولہب کے مرنے کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا تو پوچھا تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا میں آگ میں ہوں لیکن ہر پیر کو عذاب میں کمی کردی جاتی ہے اور شہادت کی انگلی سے پانی نکلتا ہے جسے چوستا ہوں ۔یہ وہ انگلی ہے جس سے میں نے ثویبہ کو ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں آزاد کیا تھا۔ ابن جوزی نے فرمایا: ابولہب وہ کافر ہے جس کی مذمت میں قرآن کی سورت نازل ہوئی جب اسے حضو ر علیہ السلام کی ولادت کی رات خوشی منانے سے عذاب میں کمی کردی گئی تو اس مسلمان امتی کا کیا حال ہوگا جو حضور علیہ السلام کی ولادت کی خوشی منائے گا۔ (مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صفحہ13،المکتبۃ السلفیہ،لاہور1979 )

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ اور علامہ جزری علیہ الرحمہ نے بھی اپنے رسالہ میلاد شریف میں اس واقعہ کو لکھا ہے اوراس کے بعد یہ لکھا ہے

’’اذاکان ھٰذا ابولہب الکافرالذی نزل القراٰن بذمہ جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ فما حال المسلم الموحدمن امتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الٰی آخرہ ‘‘

ترجمہ:جب یہ حال ابو لہب جیسے کافر کا ہے جس کی مذمت میں قرآن نال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی شب خوشی منانے کی وجہ سے اس کو بھی قبر میں بدلہ دیا گیا توآپ کے موحد ومسلمان امتی کا کیا حال ہوگا ؟( المواہب اللدنیہ،المقصد الاول ،ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم،جلد1،صفحہ89،المکتبۃ التوفیقیۃ )

امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب الحاوی للفتاوٰی میں میلاد شریف کی اصل ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں

’’سئل شیخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصہ أصل عمل المولد بدعۃ لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثۃ، ولکنہا مع ذلک قد اشتملت علی محاسن وضدہا، فمن تحری فی عملہا المحاسن وتجنب ضدہا کان بدعۃ حسنۃ وإلا فلا، قال: وقد ظہر لی تخریجہا علی أصل ثابت وہو ما ثبت فی الصحیحین من أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم المدینۃ فوجد الیہود یصومون یوم عاشوراء ، فسألہم فقالوا: ہو یوم أغرق اللہ فیہ فرعون ونجی موسی فنحن نصومہ شکرا للہ تعالی ، فیستفاد منہ فعل الشکر للہ علی ما من بہ فی یوم معین من إسداء نعمۃ أو دفع نقمۃ، ویعاد ذلک فی نظیر ذلک الیوم من کل سنۃ‘‘

ترجمہ:شیخ الاسلام حافظ العصر ابوالفضل ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ سے میلاد شریف میں ہونے والے افعال کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :اصل میں میلاد بدعت ہے کہ قرون ثلاثہ کے سلف صالحین سے منقول نہیں ہے ،لیکن یہ اچھے اور ناپسندیدہ افعال پر مشتمل ہے اگر کوئی میلاد میں اچھے اعمال کرے اور غیر شرعی افعال(جیسے گانے باجے ،میوزک والی نعتیں، ذکر والی نعتیں وغیرہ) سے بچے تو میلاد بدعت حسنہ ہے ورنہ نہیں۔ اور فرمایا کہ میرے لئے یہ ظاہر ہوا ہے کہ میلاد کی اصل ثابت ہے اور اس کا ثابت ہونا بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کودس محرم کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے اس کی وجہ پوچھی تو یہودیوں نے کہا کہ اس دن فرعون غرق ہوا موسی علیہ السلام نے اس سے نجات پا ئی تو ہم اللہ عزوجل کے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ جس معین دن میں کوئی نعمت ملے یاکوئی مصیبت دور ہواس دن اللہ عزوجل کا شکر کرنا درست ہے۔ اورہر سال اس دن کو منانا اس واقعہ کی یاد تازہ کرنا ہے ۔ (الحاوی للفتاوٰی بحوالہ ابن حجر ،حسن المقصد فی عمل المولد ،جلد1،صفحہ229،دارالفکر ،بیروت)

امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ امام ابن حجر ہیتمی اور امام نووی کے شیخ رحمۃ اللہ علیہما کے حوالے سے انسان العیون میں لکھتے ہیں

’’وقد قال ابن حجر الہیتمی: والحاصل أن البدعۃ الحسنۃ متفق علی ندبہا، وعمل المولد واجتماع الناس لہ کذلک أی بدعۃ حسنۃ، ومن ثم قال الإمام أبو شامۃ شیخ الإمام النووی: ومن أحسن ما ابتدع فی زماننا ما یفعل کل عام فی الیوم الموافق لیوم مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من الصدقات والمعروف وإظہار الزینۃ والسرور، فإن ذلک مع ما فیہ من الإحسان للفقراء مشعر بمحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم وتعظیمہ فی قلب فاعل ذلک، وشکر اللہ علی ما منّ بہ من إیجاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الذی أرسلہ رحمۃ للعالمین ‘‘

ترجمہ:ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بدعت حسنہ کے مستحب ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ میلاد شریف کرنا اور اس کے لئے لوگوں کا اجتماع بھی بدعتِ حسنہ ہی ہے ۔اسی وجہ سے امام ابو شامہ شیخ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے زمانے میں لوگوں نے جواچھے کام شروع کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ہر سال میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن صدقات کرتے ہیں،نیک اعمال کرتے ہیں، خوشی اور زینت کا اظہار کرتے ہیں۔پس بے شک اس میں فقراء پر احسان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعمال اس کرنے والے کے دل میں حضور علیہ السلام کی محبت و عظمت ہونے کی علامت ہے اور اللہ عزوجل کا شکر اد اکرنا ہے کہ اس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جیسی نعمت عطا فرمائی جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔

(انسان العیون ،باب تسمیتہ صلی اﷲعلیہ وسلم محمداواحمدا،جلد1،صفحہ123،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

امام ابوالخیرسخاوی تحریرفرماتے ہیں

’’ثم لازال اھل الاسلام فی سائرالاقطار والمدن یشتغلون فی شھرمولدہ صلی اﷲ علیہ وسلم بعمل الولائم البدیعۃ المشتملۃ علی الامور البھجۃ الرفیعۃ ویتصدقون فی لیالیہ بانواع الصدقات و یظھرون السرور یزیدون فی المبرات ویھتمون بقرأۃ مولدہ الکریم ویظھر علیھم من برکاتہ کل فضل عمیم‘‘

ترجمہ: پھر اہل اسلام تمام اطراف واقطار اورشہروں میں بماہ ولادت رسالت مآب صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم عمدہ کاموں اور بہترین شغلوں میں رہتے ہیں اور اس ماہ مبارک کی راتوں میں قسم قسم کے صدقات اوراظہارسروروکثرت حسنات واہتمام قراء ۃ مولدشریف عمل میں لاتے ہیں اور اس کی برکت سے ان پرفضل عظیم ظاہرہوتاہے۔ ( انسان العیون،بحوالہ السخاوی ،جلد1،صفحہ83،المکتبۃ الاسلامیہ، بیروت)

تفسیر روح البیان میں ہے

’’ومن تعظیمہ عمل المولد اذا لم یکن فیہ منکر قال الامام السیوطی قدس سرہ یستحب لنا اظہار الشکر لمولدہ علیہ السلام ۔۔وقد قال ابن حجر الہیتمی ان البدعۃ الحسنۃ متفق علی ندبہا وعمل المولد واجتماع الناس لہ کذلک ای بدعۃ حسنۃ قال السخاوی لم یفعلہ احد من القرون الثلاثۃ وانما حدث بعد ثم لا زال اہل الاسلام من سائر الاقطار والمدن الکبار یعملون المولد ویتصدقون فی لیالیہ بانواع الصدقات ویعتنون بقرآء ۃ مولدہ الکریم ویظہر من برکاتہ علیہم کل فضل عظیم قال ابن الجوزی من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجلۃ بنیل البغیۃ والمرام واول من احدثہ من الملوک صاحب اربل وصنف لہ ابن دخیۃ رحمہ اللہ کتابا فی المولد سماہ التنویر بمولد البشیر النذیر فأجازہ بألف دینار وقد استخرج لہ الحافظ ابن حجر اصلا من السنۃ وکذا الحافظ السیوطی وردا علی الفاکہانی المالکی فی قولہ ان عمل المولد بدعۃ مذمومۃ‘‘

ترجمہ:میلاد شریف کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ہے جبکہ وہ بُری باتوں سے خالی ہو۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے۔ ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بدعت حسنہ کے مستحب ہونے پر سب کا اتفاق ہے ۔ میلاد شریف کرنا اور اس میں لوگوں کا جمع ہونا بھی اسی طرح بدعت حسنہ ہے ۔ امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا بعد میں ایجاد ہوا پھر ہر طرف کے اور ہر شہر کے مسلمان ہمیشہ میلاد شریف کرتے رہے اور کرتے ہیں۔ طرح طرح کا صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پڑھنے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مجلس پاک کی برکتوں سے ان پر اللہ عزوجل کابڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میلاد شریف کی تاثیر یہ ہے کہ سال بھر اس کی برکت سے امن رہتا ہے اور اس میں مرادیں پوری ہونیکی خوشخبری ہے ۔ جس بادشاہ نے پہلے اس کو ایجاد کیا وہ شاہ اربل ہے اور ابن دخیہ نے اس کے لئے میلاد شریف کی ایک کتاب لکھی جس پر بادشاہ نے اسکو ہزار اشرفیاں نذر کیں ۔ حافظ ابن حجر اور حافظ سیوطی نے اس کی اصل سنت سے ثابت کی ہے اور فاکہانی مالکی کا رَد کیا ہے جو میلاد شریف کو بدعت سئیہ کہتے اور اس سے منع کرتے ہیں۔(تفسیر روح البیان،فی تفسیر،سورۃ فتح،سورت 48،آیت 28،جلد9،صفحہ56،دار الفکر ،بیروت)

امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی سے پوچھا گیا کہ فی زمانہ منعقد ہونے والی محافلِ میلاد اور محافلِ اَذکار سنت ہیں یا نفل یا بدعت؟ تو اُنہوں نے جواب دیا:

”الموالد والأذکار التي تفعل عندنا أکثرها مشتمل علي خير، کصدقة، وذکر، وصلاة وسلام علي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ومدحه“

ترجمہ:ہمارے ہاں میلاد و اَذکار کی جو محفلیں منعقد ہوتی ہیں وہ زیادہ تر نیک کاموں پر مشتمل ہوتی ہیں، مثلاً ان میں صدقات دیئے جاتے ہیں (یعنی غرباء کی اِمداد کی جاتی ہے)، ذِکر کیا جاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی جاتی ہے۔( الفتاوي الحديثية صفحہ 202 مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ)

علامہ قطب الدین حنفی نے ’’کتاب الاعلام باعلام بیت الله الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ‘‘ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اہلِ مکہ صدیوں سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے رہے ہیں

”يزار مولد النبي صلی اللہ علیہ وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفًا في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها“

ترجمہ:ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعدازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘(کتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام في تاريخ مکة المشرفة صفحہ 355، 356 مطبوعہ سعودیہ)

سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے

”ليس هذا من السنن، ولکن إذا أنفق في هذا اليوم وأظهر السرور فرحاً بدخول النبي صلی اللہ علیہ وسلم في الوجود واتخذ السماع الخالي عن اجتماع المردان وإنشاد ما يثير نار الشهوة من العِشقيات والمشوّقات للشهوات الدنيويّة کالقدّ والخدّ والعين والحاجب، وإنشاد ما يشوّق إلي الآخرة ويزهّد في الدنيا فهذا اجتماع حسَن يُثاب قاصد ذلک وفاعله عليه، إلا أن سؤال الناس ما في أيديهم بذلک فقط بدون ضرورة وحاجة سؤالٌ مکروه، واجتماع الصلحاء فقط ليأکلوا ذلک الطعام ويذکروا الله تعالي ويصلّوا علي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يضاعف لهم القربات والمثوبات“

ترجمہ:یہ عمل سنن میں سے تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس دن مال خرچ کرتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود کے ظہور پذیر ہونے کی خوشی مناتا ہے اور سماع کی محفل منعقد کرتا ہے جو کہ ایسا اجتماع نہ ہو جس میں لغویات جیسے شہوت انگیز ، دنیاوی عشق پر مبنی شاعری جس میں محبوب کے رُخساروں، آنکھوں، ابروؤں کا ذکر ہوتا ہے بلکہ ایسے اشعار ہوں جو کہ آخرت کی یاد دلائیں اور دنیا میں زُہد و تقوی اختیار کرنے کی طرف رغبت دلائیں تو ایسا اجتماع اچھا ہے اور ایسے اجتماع کرنے والا اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ مگر اس اجتماع میں لوگوں کا بغیر حاجت اور ضرورت کے سوال کرنا مکروہ ہے اور اس اجتماع میں صالح لوگوں کا جمع ہونا۔ تاکہ وہ یہ ضیافت کھائیں اور اللہ کا ذکر کریں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجیں۔ اُن کے اجر و ثواب اور قربتِ الٰہیہ میں مزید اِضافہ کا موجب ہے۔( سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد، 1 صفحہ 364 مطبوعہ مصر)

مزید سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے

”مولد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مبجّل مکرّم، قدّس يوم ولادته وشرّف وعظم وکان وجوده صلی اللہ علیہ وسلم مَبدأ سبب النجاة لمن اتبعه وتقليل حظّ جهنم لمن أعدّ لها لفرحه بولادته صلی اللہ علیہ وسلم وتمَّت برکاتُه علي من اهتدي به، فشابَه هذا اليومُ يوم الجمعة من حيث أن يوم الجمعة لا تُسَعّر فيه جهنم، هکذا ورد عنه صلی اللہ علیہ وسلم فمن المناسب إظهار السرور وإنفاق الميسور وإجابة من دعاه ربُّ الوليمة للحضور“

ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا دن بڑا ہی مقدس، بابرکت اور قابل تکریم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے تو وہ نجات و سعادت حاصل کرلیتا ہے، اور اگر ایسا شخص خوشی منائے جو مسلمان نہیں اور دوزخ میں رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہو تو اس کا عذاب کم ہوجاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق چلنے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات مکمل ہوتی ہیں۔ یہ دن یوم جمعہ کے مشابہ ہے، اس حیثیت سے کہ یوم جمعہ میں جہنم نہیں بھڑکتی جس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ اس لیے اس دن خوشی اور مسرت کا اظہار اور حسبِ توفیق خرچ کرنا اور دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا بہت ہی مناسب ہے۔( سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد، 1صفحہ 364 مطبوعہ مصر)

الحمدللہ عزوجل ہم نے مستند سابقہ علمائے کرام سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی دیوبندی کے پیشواؤں سے بھی میلاد کامستحب و بابرکت ہونا ثابت کیا ہے۔ وہابی دیوبندی ساری زندگی لگے رہیں کسی ایک مستند عالم کا قول میلاد کے ناجائز وبدعت ہونے پر پیش نہیں کرسکتے۔یہ اسی طرح تحریفانہ انداز میں دلیل دے کر اور اپنا خود ساختہ بدعت کا باطل اصول پیش کرکے اپنے فرقوں کو راضی رکھتے ہیں اور وہ کم عقل سیرت کانفرنس کو جائز و ثواب سمجھتے ہوئے اس میں مال بھی خرچ کرتے ہیں اور مولویوں کی جیبیں بھی گرم کرتے ہیں اور میلاد کوناجائز وبدعت کہہ کر گناہ گار ہوتے رہتے ہیں۔

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

08 ربیع الاول1445ھ/25ستمبر2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں