جانوروں اور گوشت مچھلی میں بیع سلم

جانوروں اور گوشت مچھلی میں بیع سلم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان دین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا جانوروں میں ، گوشت میں اور مچھلی میں بیع سلم درست ہوگی ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق جانور میں بیع سلم جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں جنس ،عمر ،نوع اور صفت کو متعین نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کی ممانعت پر نص بھی وارد ہے۔گوشت میں بیع سلم جائز ہے یا نہیں تو یہ مختلف فیہ ہے امام اعظم کے گوشت میں بیع سلم جائز نہیں ہے جبکے صاحبین کے نزدیک اگر اس کی جنس،نوع ،صفت،مقدار،خصی، دو دانت اور فربہ وغیرہ اوصاف متعین ہو تو اس میں بیع سلم جائز ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔

مچھلی اگر چھوٹی ہو تو اس میں بیع سلم پیمانہ اور وزن دونوں طرح جائز ہے اور بڑی مچھلی میں بیع سلم جائز ہے یا نہیں تو یہ مختلف فیہ ہے امام اعظم کے نزدیک بڑی مچھلی میں بیع سلم جائز نہیں جس طرح گوشت میں جائز نہیں ہے صاحبین کے نزدیک مچھلی میں بیع سلم جائز ہے خشک ہو یا تازہ البتہ تازہ میں یہ شرط ہے کہ ایسے موسم میں ہو جہاں وہ بازار میں موجود ہو اور ان کی مقدار اور قسم متعین ہو اور مقدار کا تعین وزن سے ہو عدد سے نہیں کیونکہ ان کے عدد میں تفاوت کا امکان ہے اور اسی قول پر فتویٰ ہے۔

مستدرک للحاکم میں ہے:

”عن ابن عباس رضی اللہ عنه، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم نهى عن السلف في الحيوان “

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیوان میں بیع سلم سے منع فرمایا۔(مستدرک للحاکم، جلد2، صفحہ 65، رقم الحدیث2341، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

ہدایہ میں ہے:

” ولا يجوز السلم في الحيوان وقال الشافعي: يجوز لأنه يصير معلوما ببيان الجنس والسن والنوع والصفة والتفاوت بعد ذلك يسير فأشبه الثياب. ولنا أن بعد ذكر ما ذكر يبقى فيه تفاوت فاحش في المالية باعتبار المعاني الباطنة فيفضي إلى المنازعة “

ترجمہ: حیوان میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جائز ہے ،کیونکہ جانور جنس، عمر، نوع اور صفت کے بیان کے ساتھ معلوم و متعین ہو جاتا ہے اور اس کے بعد تفاوت بہت کم رہ جاتا ہے، تو یہ کپڑے کی طرح ہو جائے گا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں بیان کرنےکے بعد بھی باطنی صفات کی بنیاد پر جانور کی مالیت میں تفاوت فاحش باقی رہتا ہے، جو جھگڑے کی طرف لے جاتا ہے۔ (ھدایہ، جلد3،صفحہ71، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

قدوری میں ہے

“ولا یجوز السلم فی الحیوان ولا فی اطرافہ”

اور بیع سلم حیوان اور اس کے اطراف میں جائز نہیں۔(القدوری باب بیع السلم صفحہ 302 مطبوعہ کراچی)

بہار شریعت میں ہے :

”بیع سلم کسی حیوان میں درست نہیں ۔ نہ لونڈی غلام میں ۔ نہ چوپایہ میں ، نہ پرند میں حتیٰ کہ جو جانور یکساں ہوتے ہیں مثلاً کبوتر، بٹیر، قمری، فاختہ، چڑیا، ان میں بھی سلم جائز نہیں۔“(بہار شریعت باب بیع السلم کا بیان جلد 2 حصہ 11 صفحہ 805 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

وقار الفتاوی میں ہے:

”جانوروں میں بیع سلم جائز نہیں ، اس لیے کہ بیع سلم میں جس چیز کو خریدا جاتا ہے، وہ ایسی ہونی چاہیے کہ اس کو صفات سے متعین کیا جا سکے ۔ جانور کو صفات سے متعین نہیں کیا جا سکتا ۔“(وقار الفتاوی، جلد2، صفحہ 471، بزم وقار الدین، کراچی)

ھدایہ میں ہے

” قال ولا خیر فی السلم فی اللحم عند ابی حنیفہ وقالا اذا وصف من اللحم موضعا معلوما بصفہ معلومہ جاز”

ترجمہ:ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک گوشت کی بیع سلم میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور صاحبین نے فرمایا کہ اگر گوشت کی معلوم جگہ صفت معلومہ کے ساتھ بیان کی جائے تو جائز ہے۔(ھدایہ، جلد3،صفحہ72، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

“ولا یصح بیع السلم فی اللحم عند ابی حنیفہ و قالا یجوز اذا بین جنسہ ونوعہ وسنہ وموضعہ وصفتہ وقدرہ کشاہ خصی ثنی من الجنب او الفخذ سمین مائہ رطل وفی منزوع العظم روایتان والاصح عدمہ وفی الحقائق والعیون الفتوی علی قولھما”

امام اعظم کے نزدیک گوشت میں سلم صحیح نہیں ہے اور صاحبین نے کہا کہ جائز ہے بشرطیکہ اس کی جنس اور نوع سن اور جگہ اور صفت اور مقدار بیان کردی جائے مثلاً خصی دو دانت والی کے پہلو اور ان میں سے فربہ اور سو رطل اور ہڈی کے گودہ میں دو روایتیں آئی ہیں اور اصح یہ ہے کہ ناجائز ہے اور حقائق اور عیون میں لکھا ہے کہ صاحبین کے قول پر فتویٰ ہے۔

(فتویٰ ھندیہ كتاب البیع جلد 4 صفحہ 482 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

ردالمختار میں ہے

“(ولحم ولو منزوع عظم ) وجوز اذا بین وصفہ وموضعہ لانہ موزون معلوم وبہ قالت الائمہ الثلاثہ وعلیہ الفتوی “

اور گوشت میں صحیح نہیں اگرچے ہڈی سے اتارا گیا ہو اور صاحبین نے اسے جائز قرار دیا ہے جب کہ اس کا وصف اور اس کا محل بیان کردیا جائے کیونکہ اس کا وزنی ہونا معلوم ہے یہی آئمہ ثلاثہ نے کہا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔(ردالمختار کتاب البیع باب السلم جلد 7 صفحہ 482 مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

”گوشت کی نوع وصفت بیان کردی ہو تو اس میں سلم جائز ہے۔ “(بہار شریعت جلد 2 حصہ 11 صفحہ 306 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

“وان اسلم فی السمک الصغار بالکیل او الوزن فالصحیح انہ یصح فی الصغار کذا فی الینابیع وفی الکبار عن ابی حنیفہ روایتان فی ظاھر الروایہ عنہ وھو قولھما یجوز کذا فی المحیط السرخسی”

اگر چھوٹی مچھلیوں میں پیمانہ اور وزن سے سلم ٹھہرائی تو صحیح یہ ہے کہ یہ جائز ہے کذا فی الینابیع اور بڑی مچھلیوں میں امام اعظم سے دو روایتیں ہیں پس ظاہر الروایہ میں جائز ہے اور یہی صاحبین کا قول ہے کذا فی المحیط السرخسی۔(فتویٰ ھندیہ كتاب البیع جلد 4 صفحہ 482 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

ھدایہ میں ہے

“قال ولاخیر فی السلم فی السمک الطری الا فی حیتہ وزنا معلوما وضربا معلوما لانہ ینقطع فی زمان الشتاء حتی لو کان فی بلد لا ینقطع یجوز مطلقا وانما یجوز وزنا لا عدد لما ذکرنا وعن ابو حنیفہ انہ لا یجوز”

امام محمد کے نزدیک تازہ مچھلی کی بیع سلم میں کوئی بھلائی نہیں ہے مگر اس کے زمانے میں وزن معلوم اور نوع معلوم کے ساتھ کیونکہ تازہ مچھلی سردی کی آمد پر منقطع ہوجاتی ہے حتی کہ اگر عاقد ایسے شہر میں ہو جہاں تازہ مچھلی منقطع نہیں ہوتی تو مطلقاً جائز ہے اور وزن کے ساتھ جائز ہے نہ کہ گنتی کے ساتھ اس دلیل کی وجہ جو ہم بیان کر چکے ہیں اور امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ جائز نہیں ہے۔(ھدایہ، جلد3،صفحہ74، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

ردالمختار میں ہے

“وفی ضری (حین یوجد وزنا وضربا) ای نوعا قید لھما (لاعدد)لتفاوت (ولو صغارا جاز وزنا وکیلا)فی الکبار روایتان

(روایتان)والمختار الجواز وھو قولھما لان السمن والھزال غیر معتبر فیہ عادہ”

تازہ مچھلی میں اس وقت صحیح ہوتی ہے جب وہ وزن اور کسی نوع کے اعتبار سے پائی جائے یہ دونوں کے لیے قید ہے تفاوت کی وجہ سے عدد کے اعتبار سے صحیح نہیں ہوتی اور اگر وہ چھوٹی ہو تو وزن اور کیل کے اعتبار سے جائز ہے اور بڑی مچھلیوں میں دو روایتیں ہیں۔

(قولہ روایتان)اس میں مختار قول جواز کا ہے اور یہی صاحبین کا قول ہے کیونکہ اس میں موٹا ہونا اور کمزور ہونا عادہ غیر معتبر ہے۔(ردالمختار کتاب البیع باب السلم جلد 7 صفحہ 482 مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”مچھلی میں سلم جائز ہے خشک مچھلی ہو یا تازہ۔ تازہ میں یہ ضرور ہے کہ ایسے موسم میں ہو کہ مچھلیاں بازار میں ملتی ہوں یعنی جہاں ہمیشہ دستیاب نہ ہوں کبھی ہوں کبھی نہیں وہاں یہ شرط ہے۔ مچھلیاں بہت قسم کی ہوتی ہیں لہٰذا قسم کا بیان کرنا بھی ضروری ہے اور مقدار کا تعین وزن سے ہو عدد سے نہ ہو کیونکہ ان کے عددمیں بہت تفاوت ہوتاہے۔ چھوٹی مچھلیوں میں ناپ سے بھی سلم درست ہے۔“(بہار شریعت باب بیع السلم کا بیان جلد 2 حصہ 11 صفحہ 805 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

07 ربیع الآخر 1445ھ23اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں