تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران کہا تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیں اس طرح کہنے سے ایک طلاق ہوئی یا تینوں ہوگئیں؟

─── ◈☆◈ ───
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو چکی ہے، چاہے اس نے لفظ ’’حرام‘‘ کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو یا نہیں، کیونکہ لفظ ’’حرام‘‘ طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے، البتہ چوں کہ لفظِ حرام سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور ایک بائن طلاق کے بعد دوسری بائن طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے لفظِ حرام تین دفعہ کہنے کے باوجود ایک ہی طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے اور دونوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے، عورت عدت کے بعد کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، لیکن اگر مذکورہ شخص نے اس سے پہلے کبھی دو طلاقیں نہ دی ہوں اور دونوں دوبارہ ساتھ رہناچاہیں تو نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوران عدت اور عدت گزرنےکے بعد بھی دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔اگر پہلے لفط حرام سے ہی شوہر نے تین طلاقوں کی نیت کی تو تینوں ہوجائیں گی۔
رد المحتار میں ہے:
‌ومن ‌الألفاظ ‌المستعملة: ‌الطلاق ‌يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية
ترجمہ:اور الفاظ مستعملہ میں سے:طلاق مجھے لازم ہے حرام مجھے لازم ہے اور مجھ پر طلاق لازم ہے اور مجھ پر حرام ہے تو ان الفاظ سے طلاق بغیر نیت کے واقع ہو جائے گی عرف کی وجہ سے ( مصنف کا قول پس طلاق واقع ہو جائے گی بغیر نیت کے عرف کی وجہ سے)یعنی وہ صریح ہو گی نا کہ کنایہ نیت کے شرط نا ہونے کی دلیل کی وجہ سے اگرچہ لفظ حرام سے طلاق بائن واقع ہو گی کیونکہ یہ ایسا صریح ہے جس سے بائن واقع ہوتی ہے جیسا کہ گزرا لیکن طلاق بائن واقع ہونے میں بحث ہے جسے ہم کنایات کے باب میں ذکر کریں گے اور جنہوں نے اس کو صریح ذکر کیا ہےوہ اس لیے کہ عرف میں یہ طلاق میں استعمال کے لیے شائع ہو گیا وہ اس کے علاؤہ طلاق کے صیغے نہیں جانتے اور اس کی قسم نہیں اٹھاتے مگر مرد اور تحقیق گزرا کہ صریح وہ ہے جس کا عرف میں طلاق میں استعمال غالب ہو اس حیثیت سے کہ وہ عرف میں صرف طلاق کے لیے ہی استعمال ہوتا ہو چاہے کوئی سی بھی زبان میں ہے اور یہ ہمارے عرف میں اسی طرح ہے تو اس کا صریح ہونے کا اعتبار کرنا لازم ہے جیسا کہ متاخرین نے فتویٰ دیا تو مجھ پر حرام ہے ان الفاظ کے بارے میں کہ یہ طلاق بائن ہے عرف کی وجہ سے بغیر نیت کے باوجود اس کے کہ متقدمین نے اسے نیت پر موقوف ہونے پر دلائل سے بیان کیا۔
( الدرالمختار و ردالمحتار ، كتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، جلد3، صفحہ252 بیروت)
الدرالمختار شرح تنویر الابصار میں ہے: (لا) يلحق البائن (البائن)إذا أمكن جعله إخبارا عن الاول: كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لانه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء، بخلاف أبنتك بأخرى أو أنت طالق بائن،
ترجمہ:بائن بائن کو ملحق نہیں ہو گی جبکہ اسکو پہلی کی خبر بنانا ممکن ہو جیسے تو بائن ہے بائن ہے یا میں نے تجھے ایک طلاق کیساتھ بائنہ کیا تو یہ واقع نہیں ہو گی کیونکہ یہ خبر دینا ہے لہذہ اسے انشاء بنانے کی ضرورت نہیں برخلاف یہ کہنا کہ میں نے تجھے دوسری طلاق سے بائنہ کیا یا تو طلاق والی ہے بائنہ ہے۔(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار , صفحہ 215)

بحر الرائق میں ہے:أَنَّهُ لَوْ قَالَ لَهَا أَنْت عَلَيَّ حَرَامٌ، وَالْحَرَامُ عِنْدَهُ طَلَاقٌ وَقَعَ، وَإِنْ لَمْ يَنْوِ،
ترجمہ:اگر مرد نے کہا تو مجھ پر حرام ہے اور حرام اسکے ہاں طلاق ہو تو طلاق واقع ہو جائے اگرچہ وہ اسکی نیت نا کرے۔
(( البحر الرائق شرح كنز الدقائق ، جلد 3،صفحہ324،بیروت))
بہار شریعت میں ہے:بائن بائن کو لاحق نہیں ہو تی جبکہ یہ ممکن ہو کہ دوسری کو پہلی کی خبر دینا کہہ سکیں مثلاًپہلے کہا تھا کہ تو بائن ہے اس کے بعد پھر یہی لفظ کہا تو اس سے دوسری واقع نہ ہوگی کہ یہ پہلی طلاق کی خبر ہے یا دوبارہ کہا میں نے تجھے بائن کر دیا اور اگر دوسری کو پہلی سے خبر دینا نہ کہہ سکیں مثلاً پہلے طلاق بائن دی پھر کہا میں نے دوسری بائن دی تو اب دوسری پڑے گی۔((بہار شریعت ،کنایہ کا بیان،جلد 2 ،حصہ 8، صفحہ 133، مکتبۃ المدینہ کراچی))

واللہ ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ
محمد افضل مدنی عطاری

اپنا تبصرہ بھیجیں