نکاح سے قبل طلاق

نکاح سے قبل طلاق

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص تنہائی میں بیٹھا ہوا اچانک اونچی آواز کے ساتھ یہ کہہ دے کہ میں اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں۔یہ کہنے والا بالغ شخص ہو ۔لیکن ابھی

ا س کا نہ نکاح ہوا ہے اور نہ ہی منگنی ۔تو کیا جب یہ نکاح کرے گا تو اس عورت کو طلاق ہوجائے گی؟

نوٹ: سائل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جملہ بولتے ہوئے میری یہ نیت تھی کہ جس عورت سے بھی میری شادی ہو اسے طلاق۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورتِ مسئولہ(پوچھی گئی صورت) میں نکاح ہوتے ہی طلاق ہوجائے گی لیکن ایک ہی طلاق ہوگی دوبارہ پھر اسی عورت سے نئے حق مہر کے ساتھ نکاح درست ہو گا اور شوہر کے پاس آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

تفصیل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ جب اس شخص نے یہ کہا کہ میں اپنی ہونے والی بیوی کوطلاق دیتا ہوں اور اس وقت اس کو کوئی بیوی نہیں لیکن اس کی نیت یہ ہے جس عورت سے نکاح ہو اسے طلاق ہوگی تو یہ ملکیت کی طرف اضافت پائی جارہی ہے جس سے طلاق ہوجائے گی۔ہاں اگر کسی اجنبیہ عورت سے کہا جائے کہ تجھے طلاق تو اس صورت میں طلاق نہیں ہوتی کیونکہ وہاں نکاح کی طرف اضافت نہیں ہوتی۔ایک طلاق اس لیے ہوگی کہ جب رخصتی نہ ہو تو تین متفرق طلاقیں دینے سے ایک ہی سے وہ بائن ہوکر نکاح سے نکل جاتی ہے بقیہ دو میں چونکہ وہ نکاح میں نہیں رہتی اس لیے وہ دو لغو ہوجاتی ہیں۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے

”عن الزهري في رجل قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق، وكل أمة أشتريها فهي حرة قال: «هو كما قال»، قال معمر: فقلت: أو ليس قد جاء عن بعضهم أنه قال: لا طلاق قبل النكاح، ولا عتاقة إلا بعد الملك؟ قال: إنما ذلك أن يقول الرجل امرأة فلان طالق، وعبد فلان حر “

ترجمہ:امام زہری سے ایک شخص کے متعلق روایت ہے کہ اس نے کہا: ہر عورت جس سے میں نکاح کروں وہ طلاق والی ہے اور جس لونڈی کو خریدوں وہ آزاد ہے۔ امام زہری نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہے جیسا اس نے کہا ہے۔ معمر نے کہا: میں نے پوچھا:کیا یہ بعض کی طرف سے نہیں آیا کہ طلاق نکاح سے قبل نہیں اور آزادی ملکیت سے پہلے نہیں؟ زہری نے فرمایا: یہ ا س صورت میں ہے کہ آدمی یہ کہے کہ فلاں عورت طلاق والی ہے اور فلاں غلام آزاد ہے۔(مصنف عبدالرزاق،کتاب الطلاق،الطلاق قبل النکاح،جلد6،صفحہ421،حدیث11475، المجلس العلمي، الهند)

دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے

” (فلا تطلق أجنبية قال لها: إن كلمتك فأنت طالق فنكحها فكلمها) لعدم الملك والإضافة إليه وتطلق بعد الشرط إن قاله لزوجته۔۔۔أو قال لأجنبية: إن نكحتك فأنت طالق فنكحها لوجود الإضافة إلى الملك“

ترجمہ:اجنبیہ عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔مرد نے اجنبیہ کو کہا : اگر میں تم سے کلام کروں تو تمہیں طلاق ہے ،تو اس نے اس عورت سے نکاح تو کلام کرنے سے طلاق نہ ہوگی ،عدم ملک اور ملک کی طرف اضافت نہ ہونے کے سبب۔ اگر بیوی سے یہ کہا تو شرط پائی جانے کے بعد طلاق ہوجائے گی یا اجنبیہ سے کہا کہ اگر میں تم سے نکاح کروں تو تو طلاق والی ہے (تو طلاق ہوجائے گی)ملک کی طرف اضافت پائی جانے کی وجہ سے۔( درر الحكام شرح غرر الأحكام،باب التعلیق فی الطلاق،جلد1،صفحہ377،دار إحياء الكتب العربية)

ملک العلماء علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں

”وأما الذی یرجع إلی المرأۃ فمنھا الملک أو علقۃ من علائقہ؛ فلا یصح الطلاق إلا فی الملک أو فی علقۃ من علائق الملک وھی عدۃ الطلاق أو مضافا إلی الملک…أما التنجیز فی غیر الملک والعدۃ فباطل؛ بأن قال لامرأۃ أجنبیۃ: أنت طالق أو طلقتک؛ لأنہ إبطال الحل ورفع القید ولا حل ولا قید فی الأجنبیۃ، فلا یتصور إبطالہ ورفعہ وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا طلاق قبل النکاح “

یعنی طلاق کی وہ شرائط جن کا تعلق عورت سے ہوتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ عورت مرد کی ملکیت میں ہو یا ملکیت کے علاقوں میں سے کوئی علاقہ پایا جائے لہٰذا طلاق صحیح نہیں ہوگی مگراسی صورت میں جب ملکیت یا ملکیت کا کوئی علاقہ پایا جائے اورملکیت کے علاقے سے مراد طلاق کی عدت کا ہونا ہے یا ملکیت کی طرف طلاق کی نسبت کرنا ہے ۔ ملکیت یا عدت کے بغیر تنجیزاً طلاق دینا باطل ہے مثلاً اجنبیہ عورت کو یوں کہا کہ تجھے طلاق ہے ، یا کہا : میں نے تمہیں طلاق دی (تو یہ باطل ہے ۔)کیونکہ طلاق کا مطلب ہوتا ہے حلت کو ختم کرنا اور قید کو اٹھا دینا اور اجنبیہ عورت میں کوئی حلت یا قید ہوتی ہی نہیں تو اس کاختم کرنا یا اٹھانا کیسے متصور ہو سکتا ہے ؟ نیز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نکاح سے قبل طلاق نہیں ہوتی۔ (بدائع الصنائع،کتاب الطلاق جلد3،صفحہ126، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

ہندیہ میں ہے

”لو قال: كل امرأة لي طالق إن فعلت كذا وليست له امرأة ونوى امرأة يتزوجها بعد ذلك صحت كما إذا قال: كل امرأة تكون لي وإلى هذا ذهب شمس الإسلام محمود وقال نجم الدين رحمه الله تعالى: لا تصح وقال السيد الإمام رحمه الله تعالى بالقول الأول نأخذ كذا في فصول الأسروشني “

ترجمہ:اگرمیں نے اس طرح کیا تو میری ہر عورت کو طلاق اور اس وقت اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے اُس عورت کی نیت کی جس سے وہ اس فعل کے بعد نکاح کرے گا( اسے طلاق ہے) تو یہ صحیح ہے۔ جیسا کہ اس طرح کہا کہ ہر عورت جو میری بیوی ہوگی (اسے طلاق)۔اسی طرف شمس الاسلام محمود گئے ہیں اور نجم الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ نیت صحیح نہیں ۔ سید امام رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ قول اول کو ہم لیتے ہیں جیسا کہ فصول اسروشنی میں ہے۔(الفتاوى الهندية،الفصل الثانی فی تعلیق الطلاق،جلد1،صفحہ419،دار الفكر)

ہندیہ میں ہے

”ولو قال: كل امرأة لي تكون ببخارى فهي طالق ثلاثا الصحيح أنه يراد به طلاق امرأة يتزوجها ببخارى وعن هذا قالوا لو تزوج امرأة في غير بخارى ثم نقلها إلى بخارى ويكون هو معها فيه لا تطلق وهو الصحيح كذا في الخلاصة“

ترجمہ: اگر کہا کہ ہر عورت جو میرے لیے ہوگی بخاریٰسے وہ تین طلاقوں والی ہے۔صحیح یہ ہے کہ اس جملہ سےوہ عورت مراد لی جائے جس سے وہ بخاریٰ میں نکاح کرے گا ۔اس کے متعلق فقہاء نے یہ فرمایا کہ اگر اس نے غیر بخاریٰ کی عورت سے نکاح کیا ،پھر اس عورت کے ساتھ بخاریٰ منتقل ہوگیا تو تو طلاق نہ ہوگی اور یہی صحیح ہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔ (الفتاوى الهندية،الفصل الثانی فی تعلیق الطلاق،جلد1،صفحہ418،دار الفكر)

البنایہ شر ح ہدایہ میں ہے

’’(فإن فرق الطلاق) بأن یقول أنت طالق طالق طالق علی ما یجیء الآن(بانت بالأولی)أی باللفظ الأول، وہو قولہ أنت طالق، وتبین لا إلی عدۃ، لأنہا غیر مدخولۃ(ولم تقع الثانیۃ ولا الثالثۃ) لأنہ لا یبقی لوقوعہا محل، فیلغو کلاہما‘‘

یعنی غیر مدخولہ کو اگر متفرق کلمات کے ساتھ طلاق دی جیسے تو طلا ق طلاق طلاق والی ہے تو پہلی سے وہ نکاح سے نقل جائے گی بقیہ دوعورت نکاح میں نہ ہونے کی وجہ سے لغو جائیں گی۔ (البنایۃ شرح الہدایۃ،کتاب الطلاق ،فصل فی الطلاق قبل الدخول،جلد5،صفحہ354، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا عطاری

05ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ بمطابق27مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں