انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والا نکاح اور طلاق

انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والا نکاح اور طلاق

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ اگر انٹرنیٹ کے ذریعے یوں نکاح ہو کہ لڑکا باہر کے ملک اور لڑکی پاکستان میں اقامت پذیر تھی اور نکاح کا عقد کچھ یوں ہوا کہ دونوں کے والدین ایک ہی گھر میں جمع تھے اور سب اس نکاح پر راضی تھے۔ مولوی صاحب نے موبائل پر ہی لڑکے سے پوچھا کہ ” فلاں بنت فلاں 5000 روپے حق مہر کے عوض آپ کو قبول ہے؟“ تو لڑکے نے جواباً کہا: ”قبول ہے۔“ یوں تین مرتبہ انہوں نے پوچھا اور لڑکے نے ہاں میں یعنی قبول کیا کے الفاظ بولے اور یہ پوچھنے کے فوراً بعد کال کاٹ دی۔ یہ فنکشن صرف نکاح کا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اس سب کے بعد لڑکے کا اپنی بیوی سے فون پر جھگڑا ہوا تواس نے بیوی کو طلاق دے دی ان الفاظ کے ساتھ کہ ”جا میرے وَلوں طلاق اِی“ 3 مرتبہ یہ الفاظ بولے۔ چونکہ اس وقت لڑکا باہر کے ملک ہی میں تھا اس لیے یہ سب واٹس ایپ پر ہوا اور طلاق بھی واٹس ایپ پر وائس میسجز کی صورت میں دی ۔ بعد ازاں لڑکا ایک ہفتے کے لیے پاکستان گیا تو رخصتی کا سلسلہ ہوا اور وہ لڑکی کو گھر لے آئے اور صحبت وغیرہ بھی ہوئی۔ یہ گمان کرتے ہوئے کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی، خاندان کے بڑوں سے بھی پوچھا تو انہوں نے ایسا ہی کہا کہ یوں طلاق نہیں ہوتی۔ شریعت ا س بارے میں کیا کہتی ہے؟ یہ نکاح ہوا یا نہیں؟ طلاق ہوئی یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بیان کردہ صورتِ حال کے بعد یہ واضح ہے کہ یہ نکاح منعقد ہی نہ ہوا، کیونکہ انعقادِ نکاح کی ایک شرط ”ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا“ اس میں مفقود رہی۔ اس لیے کہ لڑکا باہر کے ملک میں تھا جبکہ نکاح کی مجلس پاکستان میں منعقد تھی، نکاح خواں کو صرف موبائل پر لڑکے کا عکس نظر آ رہا تھا یا آواز سنائی دے رہی تھی، لیکن وہ فیزیکلی طور پر نکاح کی مجلس میں موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی وکالت وغیرہ کا سلسلہ ہوا، نیز بعد میں بھی تجدیدِ نکاح نہ ہوا۔جب نکاح ہی نہ ہوا تو طلاق دینا لغو گیا کہ عورت اس کے لیے محض اجنبیہ تھی۔ نیز یہ رخصتی وغیرہ کرنا ناجائز و حرام تھا، اور جو کچھ ان کے درمیان ہوا شرعا قطعاً حلال نہ تھا، ان دونوں پر توبہ فرض ہے۔

اب اگر یہ دونوں اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو نئے سرے سے شرعی طریقۂ کار کے مطابق گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔ نیز اگرشوہر باہرمیں ہی رہتے ہوئے پاکستان میں موجود عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کا ایک جائز طریقہ یہ ہے کہ لڑکا وہاں مجلسِ نکاح میں موجود کسی شخص کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دے خواہ فون یا انٹر نیٹ ہی کے ذریعے، اور پھر وہ وکیل اس کی طرف سے ایجاب و قبول کا سلسلہ کر لے۔

اہم معروضات: جس شخص کو نکاح کرنا ہے اس پر نکاح و طلاق کے ضروری مسائل سیکھنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ گناہ میں پڑے کا شدید خطرہ لاحق رہتا ہے جیسے کہ سوال مسئولہ میں ہوا۔ نیز سوال میں طلاق کے الفاظ کہنے کے باوجود رخصتی کا معاملہ بیان کیا گیا، اگر نکاح منعقد ہوا ہوتا تو ضرور طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی، اس سب کے باوجود رخصتی کروانا اور طلاق نہ ہونے کا مسئلہ بتانا محض غلط و باطل ہے۔ جن لوگوں نے یہ غلط مسئلہ بتایا ان پر توبہ لازم ہے، انہیں ڈرنا چاہیئے کہ جو بغیر علم کے مسئلہ بتائے وہ گناہ گار اور عذابِ نار کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ واضح رہے کہ شرعی مسئلہ عالم دین سے پوچھنا چاہیے، خاندان کے بڑے بوڑھوں کا اس میں کیا کام؟

نیز اب اس بات کا خیال رہے کہ جب تک ان کا شرعا نکاح نہیں ہوجاتا، ان کا آپس میں میاں بیوی والے تعلقات رکھنا، بلا تکلف باتیں کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قطعا نامحرم ہیں، اگرچہ قانونی کاغذات میں شوہر و زن رجسٹرڈ ہوں۔

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”ومن شرائط الايجاب القبول: اتحاد المجلس“

ترجمہ: ایجاب و قبول کی شرائط میں سے مجلس کا ایک ہونا بھی ہے۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، ‌‌كتاب النكاح، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 178، مطبوعه: دار الکتب العلمیة)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

” اور کوئی ایجاب، مجلس سے باہر قبول پر موقوف نہیں رہ سکتا۔ کما نصوا علیہ فی عامۃ الکتب وفی النھر والدر من شرائط الایجاب والقبول اتحاد المجلس۔ وفی التنویر وشرحیہ لایتوقف الایجاب علی قبول غائب عن المجلس فی سائر العقود من نکاح وبیع وغیرھما بل یبطل الایجاب ولا تلحقہ الاجازۃ اتفاقا “ (ترجمہ: جیسا کہ فقہائے کرام نے کثیر کتبِ فقہ میں اس کی تصریح کردی ہے۔ النہر اور الدر المختار میں ہے کہ ایجاب وقبول کے معتبرہونے میں مجلس کا اتحاد ضروری ہے۔ نیز تنویر الابصار اورا س کی دونوں شرحوں میں ہے کہ ایجاب مجلس سے غائب کسی شخص کے قبول کرنے پر موقوف نہ ہوگا، تمام عقود بشمول نکاح وبیع وغیرہما کا یہی حکم ہے۔ بلکہ یوں ایجاب بالاتفاق باطل ہوجاتا ہے اور اس کو اجازت لاحق نہیں ہوتی۔ )“(فتاوی رضویہ، کتاب النکاح،جلد نمبر 11،صفحہ نمبر 164، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

شیخ شمس الدين محمد بن عبد الله خطيب تمرتاشی غزی ﷫ (المتوفی: 1004ھ/ 1596ء) لکھتے ہیں:

”ومحله المنكوحة“

ترجمہ: طلاق کا محل منکوحہ (جس سے نکاح ہو چکا ہو وہ عورت ہی) ہے۔(تنوير الأبصار، کتاب الطلاق، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 66، مطبوعه: المکتبة النبوية)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی ﷫ (المتوفی: 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں:

”ٹیلی فون کے ذریعے نکاح پڑھنا ہرگز صحیح نہیں۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 01، صفحه نمبر 515، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

علامہ فرید الدین عالم بن العلاء الہندی ﷫ (المتوفی: 786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:

”‌يصح ‌التوكيل ‌بالنكاح، وإن لم يحضره الشهود“

ترجمہ: نکاح کے لیے وکیل بنانا صحیح ہے اگرچہ گواہ حاضر نہ ہوں۔(الفتاوی التاتارخانیة، کتاب النکاح، الفصل الوكالة بالنکاح، جلد نمبر 4، صفحه نمبر 146، مطبوعه: مکتبة رشیدیة)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی ﷫ (المتوفی: 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں:

”کوئی عورت مشرق میں ہو اور وہ کسی شخص کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دے کہ تم میرا نکاح اتنے مہر کے ساتھ فلاں شخص سے کر دو جو مغرب میں ہے وکیل نے وہاں پہنچ کر دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرا دیا تو نکاح ہوگیا۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 01، صفحه نمبر 514-515، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی ﷜ سے مروی ہے:

”من ‌أفتى ‌بغير ‌علم ‌لعنته ‌ملائكة ‌السماء والأرض“

ترجمہ: جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فرشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔(كنز العمال، جلد نمبر 10، صفحه نمبر 193، حدیث نمبر 29015، مطبوعه: مؤسسة الرسالة)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

”نجيز الكلام مع النّساء للأجانب ومحاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالةالرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم ومن ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ “

ترجمہ:ہم وقت ِضرورت اجنبی عورتوں سے کلام کو جائز سمجھتے ہیں ،البتہ یہ جائز نہیں قرار دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں ،گفتگوکو بڑھائیں ،نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں،کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کوابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔(رد المحتارعلی الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلا ۃ ،مطلب فی ستر العورۃ،جلد نمبر 1،صفحہ نمبر 406،مطبوعہ: دار الفكر، بيروت)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

25 شوال المکرم 1444ھ / 16 مئی 2023ء

ستونوں کے درمیان صف بنانا کیسا؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرحِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو ستونوں کے درمیان صف قائم کرنا کیسا؟ بینوا تؤجروا۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب،اللہم ہدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں بے ضرورت ستونوں کے درمیان صف بنانا جائز نہیں ہے کہ حدیثِ پاک میں اس سے منع کیا گیا۔

لیکن ضروت کے پیشِ نظر جائز ہے۔ جیسے بارش وغیرہ کی صورت میں در میں کھڑا ہوجائے یاعید و جمعہ کے موقع پر بھیڑ کی وجہ سے جگہ تنگ پڑتی ہو تو پڑھنے میں حرج نہیں۔

سنن ابنِ ماجہ میں ہے:

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كُنَّا نُنْهَى أَنْ نَصُفَّ بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنُطْرَدَ عَنْهَا طَرْدًا.

ترجمہ:

قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول االلہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں دو ستونوں کے بیچ صف باندھنے سے منع فرمایا جاتا اور وہاں سے دھکے دے کرہٹائے جاتے تھے۔

(كِتَابٌ : إِقَامَةُ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا. | بَابٌ : الصَّلَاةُ بَيْنَ السَّوَارِي فِي الصَّفِّ. الجزء رقم :2، الصفحة رقم:234)

مسند امام احمد و سنن ابی داؤد و جامع ترمذی و سنن نسائی و صحیح حاکم میں ہے:

عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ مَحْمُودٍ قَالَ : صَلَّيْنَا خَلْفَ أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ فَاضْطَرَّنَا النَّاسُ، فَصَلَّيْنَا بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ، فَلَمَّا صَلَّيْنَا قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : كُنَّا نَتَّقِي هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

یعنی ایک تابعی کہتے ہیں ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی لوگوں نے ہمیں مجبور کیا تو ہمیں دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھنی پڑی (جب ہم نماز پڑھ چکے تو) انس بن مالک نے فرمایا ہم زمانۂ اقدس حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں اس سے بچتے تھے۔

(سنن الترمذی،أَبْوَابُ الصَّلَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : كَرَاهِيَةُ الصَّفِّ بَيْنَ السَّوَارِي ،الجزء رقم :1، الصفحة رقم:268)

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں قبیل باب الصلوٰۃ الی الراحلۃ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا:

لاتصفوا بین الاساطین واتموا الصفوف

ستونوں کے بیچ میں صف نہ باندھو اور صفیں پوری کرو ۔

(عمدۃ القاری شرح البخاری باب الصلوٰۃ بین السواری فی غیر جماعۃ، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۴/۲۸۶)

عمدۃ القاری میں ابن حبیب سے ہے:

لیس النھی عن تقطیع الصفوف اذاضاق المسجد وانما نھی عنہ اذکان المسجد واسعا۔

یعنی جب مسجد تنگ ہو تو اس وقت صفوں کو توڑنا منع نہیں، یہ اسوقت منع ہے جب مسجد کشادہ ہو۔

( عمدۃ القاری شرح البخاری باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۴/۲۸۶)

دُرمختار میں ہے:

ھذا کلہ عندعدم العذر کجمعۃ وعید فلوقاموا علی الرفوف والامام علی الارض اوفی المحراب لضیق المکان لم یکرہ۔

یہ تمام (یعنی کراہت) اس وقت ہے جب عذر نہ ہو عذر کی صورت میں مثلاً جمعہ اور عید کے بھِیڑ کے موقع پر بھی اگر مسجد تنگ ہو اور بعض نمازی رفوف (دروازے کے تختے ) پر کھڑے ہوں اور امام زمین پر یا محراب میں ہو تو کراہت نہیں ۔

( درمختار باب مایفسد الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۹۲)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ اپنے فتاویٰ رضویہ شریف میں ایک سوال کے جواب ارشاد فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

اور بے ضرورت مقتدیوں کا دَر (یعنی دو ستونوں کے بیچ کی جگہ) میں صف قائم کرنا یہ سخت مکروہ کہ باعث قطعِ صف ہے اور قطع صف ناجائز ، ہاں اگر کثرت ِجماعت کے باعث جگہ میں تنگی ہو اس لئے مقتدی دَر میں اور امام محراب میں کھڑے ہوں تو کراہت نہیں۔ یونہی اگر مینہ (یعنی بارش) کے باعث پچھلی صف کے لوگ دروں میں کھڑے ہوں تو یہ ضرورت ہے۔

والضرورات تبیح المحظورات

( سخت ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے۔)

(فتاویٰ رضویہ ج 6،ص 29)

آگے چل کر مزید فرمایا:

اور دروں میں مقتدیوں کے کھڑے ہونے کو قطع صف نہ سمجھنا محض خطاہے۔علمائے کرام نے صاف تصریح فرمائی کہ اس میں قطع صف ہے۔

(فتاویٰ رضویہ ج 6،ص 30)

فتاویٰ تاج الشریعہ میں مسجد میں جگہ کشادہ ہونے کی صورت میں ستونوں کے درمیان صف بنانے کے بارے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گیا:

یہ قطعِ صف ہے اور قطعِ صف ممنوع ہے، جس پر حدیث میں وعید آئی:

’’من قطع صفا قطعہ اللہ ‘‘

[المستدرک علی الصحیحین‘ج۱‘ص۳۳۳‘کتاب الصلوٰۃ من کتاب الامامۃ والصلوٰۃ الجمعۃ‘دارالکتب العلمیۃ‘ بیروت]

جو صف قطع کرے اللہ تعالیٰ اسے منقطع فرماتا ہے‘ لہٰذا اس سے احتراز کریں۔

(فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم،صفحہ 304)

فتاویٰ اشرفیہ میں ہے:

قطعِ صف حرام ہے مگر قطع کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

(فتاویٰ اشرفیہ جلد پنجم،صفحہ 684)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔

کتبہ:شاہد علی عطاری

23 شوال المکرم 1444ھ 16/05/2023

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ یہاں پر کچھ آن لائن ایپلیکیشنز (applications) ہیں جن کے ذریعے لوگ گروسری وغیرہ کو خریدتے ہیں، یا اپلیکیشن (application) کے ذریعہ پیمنٹ (payment)کر کے کریڈٹ واؤچر لے کر اپلیکیشن والٹ میں کریڈٹ لوڈ کر لیتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اپلیکیشن میں ایرر آنے کی وجہ سے کریڈٹ واؤچر پیمنٹ کے بغیر ہی شو ہونے لگتے ہیں۔ اس سچویشن میں بعض لوگ پیمنٹ (payment) کے بغیر ہی فری کریڈٹ لوڈ کر لیتے ہیں، اور پھر اس سے شاپنگ کرتے ہیں۔ ایسا کرنا کیسا؟لیکن کمپنی کی طرف سے کسی قسم کا کوئی اعلان یا کریڈٹ واپسی کا مطالبہ بھی نہیں ہوتا۔

سائل: محمد وسیم (یو اے ای)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورتِ مسئولہ میں ایرر (error) کی وجہ سے پیمنٹ کیے بغیر فری میں کریڈٹ واؤچر ڈاؤنلوڈ کر کے کریڈٹ والٹ میں لوڈ کرنا شرعا جائز نہیں، نہ ہی اس کا استعمال روا ہے۔ اگر بغیر پیمنٹ کے سسٹم ایرر کی وجہ سے وہ شو بھی رہا تھا تو چاہیئے یہ تھا کہ اسے ڈاؤنلوڈ نہ کیا جاتا بلکہ اپنی پروفائیل سے اسے ریموو یا ڈلیٹ کر دیا جاتا، کیونکہ یہ اس کا حق نہیں۔ بلکہ اگر اسے ایسے ہی چھوڑ دیتے تو ایرر کے ریسالو (resolve) ہوتے خود بخود یہ ختم ہو جاتا۔ بہر کیف اگر کسی نے ایسا کر لیا ہو یعنی ناجائز طریقے پر اس واؤچر کو استعمال کر لیا ہو تو اس پر لازم ہے کہ کمپنی کو اتنے پیسے واپس کرے اور توبہ کرے۔ اگر کمپنی کو براہِ راست ادائیگی ممکن نہیں تو ہیلپ سینٹر رابطہ کر کے اتنے پیسوں کے دیگر واؤچر خرید کر کمپنی ہی کو لوٹا دے، اور اگر یہ بھی ممکن نہیں اور کسی طرح کمپنی کو ادائیگی نہیں ہو سکتی تو کمپنی کی طرف سے اتنی رقم صدقہ کر دے۔

تفصیل اس مسئلہ کی کچھ یوں ہے کہ ایپلیکیشن کےذریعے پیمنٹ کرنے پر ملنے والا کریڈٹ واؤچر در اصل کمپنی کی جانب سے تحفہ ہوتا ہے جو کہ کمپنی اسی شخص کو دیتی ہے جو ان کی شرائط پر پورا اترتے ہوئے پیمنٹ کرنے کے لیے ان کی ایپلیکیشن استعمال کرتا ہے۔ لیکن جب ایک شخص ان شرائط پر پورا اترا ہی نہیں بلکہ محض ایپلیکیشن ایرر کی وجہ سے سسٹم کو مغالطہ لگا اور اس کو واؤچر شو ہونے لگ گیاتو ظاہر ہے اس شخص کے لیے نہ ہی کمپنی نے وہ واؤچر ایشو کیا ہے اور نہ ہی اس شخص کا استحقاق ہوا۔ لہذا وہ واؤچر لینا کئی وجوہات کی بنا پر جائز نہ رہا: اولاً یہ ناحق اور باطل طریقے سے دوسرے کا مال ہڑپ کرنا ہے کہ اس کریڈٹ والٹ کے ذریعے یہ شخص مفت میں چیزیں خرید سکے گا جس کی ادائیگی کمپنی کو کرنی پڑے گی۔ ثانیاً اس میں دھوکا دہی کی صورت واضح ہے، کہ اس بات کا علم ہوتے ہوئے کہ یہ ایرر کی وجہ سے غلط واؤچر مجھے شو ہو رہا ہے پھر بھی اسے لینا اور استعمال کرنا کمپنی کے ساتھ دھوکا ہے ۔ سوال میں بیان کیا گیا کہ کمپنی کی طرف سے کریڈٹ واپسی کا فی الوقت مطالبہ نہیں، لیکن لا محالہ اگر کمپنی کو اس کی اطلاع جائے تو کمپنی اس پر ہرگز راضی نہ ہوگی۔ ثالثاً اس میں ایک مسلمان کو نقصان پہنچانا پایا جا رہا ہے، جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے، کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

شیخ شمس الدين محمد بن عبد الله خطيب تمرتاشی غزی ﷫(المتوفی: 1004ھ/ 1596ء) لکھتے ہیں: ”هي تمليك العين مجانا“ ترجمہ: ہبہ (تحفہ) مفت میں عین چیز کا کسی کو مالک بنانا ہے۔

(تنوير الأبصار، کتاب الهبۃ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 182، مطبوعه: المکتبة النبوية)

قرآن پاک میں اللہ کریم کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنْ اَمْوالِ النَّاسِ بِالۡاِثْمِ وَاَنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ﴾ترجمہ کنزالایمان :اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤاور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔

(پارہ نمبر 2،سورۃ البقرۃ 2،آیت نمبر 188)

علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد انصاری قرطبی ﷫ (المتوفی:671ھ/1273ء) اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:”‌الخطاب بهذه الآية يتضمن جميع أمة محمد صلى الله عليه وسلم، والمعنى: لا يأكل بعضكم مال بعض بغير حق. فيدخل في هذا: القمار ‌والخداع والغصوب وجحد الحقوق، وما لا تطيب به نفس مالكه“ ترجمہ: اس آیت میں خطاب حضور ﷺ کی تمام امت کو شامل ہے اور معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے کا مال نا حق طریقے سے نہ کھائے، اس عموم میں جوا، غصب، حق دینے سے انکار کر کے حق کھا جانا، جس چیز کے دینے پر مالک راضی نہ ہو، اس کا لینا (وغیرہ سب شامل ہیں۔)

(الجامع لأحكام القرآن، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 338، مطبوعه: دار الكتب المصرية، القاهرة)

حضرت انس بن مالک ﷜ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه“ ترجمہ:کسی مسلمان کامال بغیراس کی رضاکے لیناحلال نہیں ہے ۔

(سنن الدارقطنی،جلد نمبر 3،صفحہ نمبر 424، حدیث نمبر 2885، مطبوعہ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:” لا يجوز لأحد من المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد بغير سبب شرعي“ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے، کسی دوسرے کا مال لے۔

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب کتاب الحدود باب التعزیر ، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 178، مطبوعه: دار الفکر)

جامع صغیر ،صحیح ابن حبان،المعجم الکبیر لطبرانی وغیرہ کتبِ حدیث میں یہ حدیث مبارکہ مروی ہے:”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا والمکروالخداع فی النار“ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں، اور مکرکرنے والا اور دھوکہ دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

(صحیح ابن حبان، جلد نمبر12، صفحۃ نمبر 369، مطبوعه: مؤسسة الرسالة)

(المعجم الكبير، جلد نمبر10، صفحه نمبر138، مطبوعه: القاهرة، جامع الصغیر،جلد نمبر 6،صفحہ نمبر 241،مطبوعہ: بیروت)

علامہ برہان الدین ابو المعالی محمود بن احمد بخاری حنفی ﷫ (المتوفى: 616ھ/ت1219ء) لکھتے ہیں: ” والغدرحرام“ترجمہ:اوردھوکہ دیناحرام ہے ۔

(المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی،جلد نمبر2،صفحہ نمبر 363،دارالكتب العلمية،بيروت)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”غدر(دھوکہ )مطلقاً حرام ہے نیز کسی قانونی جُرم کاارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ ذلت و بلاکے لئے پیش کرنا شرعاً بھی جرم ہے۔“

(فتاوی رضویہ، جلد نمبر 23، صفحہ نمبر581، مطبوعہ: رضافاؤنڈیشن، لاہور)

حضرت ابو سعید خدری ﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:”لا ضرر ولا ضرار ، من ضار ضره الله ، ومن شاق شق الله عليه“ ترجمہ: نہ ضرر (نقصان) لو اورنہ ہی ضرردو،جوضرردے اللہ c اس کوضرردے گا، اورجومشقت میں ڈالے اللہ c اس کو مشقت میں ڈالےگا ۔

(سنن الدارقطنی،جلد نمبر 4،صفحہ نمبر 51، حدیث نمبر 3079، مطبوعہ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

بدر الفقہاء اجمل العلماء علامہ مفتی محمد اجمل قادری رضوی ﷫ (المتوفی: 1383ھ/1963ء) لکھتے ہیں: ” جو مال بغیر مرضی مالک کے کسی طرح جبر و غصب سے حاصل کیا جاوے، وہ حرام و خبیث مال ہوا اور حرام و خبیث مال نہ تو کارِ خیر کے لائق ہے، نہ شرعا غاصب کو اس کے صرف کرنے کا حق حاصل، نہ بعد علم کے ایسے مال خبیث کا کارِ خیر میں لگانا جائز ہے بلکہ اس غاصب پر فرض ہے کہ جلد از جلد اس مال مغصوب کو اگر مالک زندہ ہے تو اس کو سونپ دے اور اگر مالک موجود نہ ہو تو اس کے ورثاء کو سپرد کرے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر مال اس کی طرف سے صدقہ کر دے۔“

(فتاوی اجملیہ،جلد نمبر 3،صفحہ نمبر 322، مطبوعہ: شبیر برادرز لاہور)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

25 شوال المکرم 1444ھ / 16 مئی 2023ء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ اسلام میں مشت زنی (Masturbation) کا کیا حکم ہے، کیا ایک نوجوان جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی مشت زنی کر سکتا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

اللہ cنے بندے کی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے دو جائز طریقے مقرر کیے ہیں: (١) بیوی اور(٢) کنیز یعنی شرعی باندی۔ ان دو کے علاوہ کسی اور طریقہ سے شہوت پوری کرنے کو سرکشی قرار دیا۔ اس میں مشت زنی (Masturbation) کرنا بھی داخل ہے، لہذا مشت زنی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، حدیث پاک میں اس فعل کے مرتکب کو ملعون کہا گیا ہے، لہذا اس فعلِ بد سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہے۔

اگر کسی شخص کو شیطان بار بار بہکائے اور اسے بہت وسوسے آئیں تو اسے چاہیئے کہ کثرت سے توبہ و استغفار کرے اور کثرے سے روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو کاٹتا ہے، نیز اچھی صحبت اپنائے، بری صحبتوں سے اور جنسی ہیجان پیدا کرنے والی محفلوں سے خود کو بچا کر رکھے۔ اس کے علاوہ نمازِ باجماعت کی پابندی کے ساتھ ”لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم“ کی کثرت کرے۔

البتہ! اگر کسی غیر شادی شدہ شخص پر اتنا زیادہ شہوت کا غلبہ ہے کہ لوگوں کے پاس بیٹھنے یا کسی کام کی طرف دھیان لگانے، غرض کسی تدبیر سے جوش کم نہیں ہو پاتا، اور اس کی وجہ سے اسے زنا کاری میں پڑنے کا قوی اندیشہ یا یقین ہو اور اس میں نکاح کرنے کی استطاعت بھی نہیں تو اس شدید حاجت کے وقت صرف شہوت توڑنے کی غرض سے مشت زنی منع نہیں ہے تاکہ زنا وغیرہ سے خود کو بچا سکے۔ لیکن پھر بشرطِ استطاعت اس کو نکاح کی تدبیر کرنی لازم ہے، نہ یہ کہ اس عمل بد کی عادت بنالے ۔

چنانچہ قرآن پاک اللہ c کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ (۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(۶)﴾ترجمہ کنزالایمان:اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی ملک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں۔

(پارہ نمبر 18،سورۃ المؤمنون 23،آیت نمبر 5-6)

پھراگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ (۷)﴾ ترجمہ کنزا لایمان : تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔

(پارہ نمبر 18،سورۃ المؤمنون 23،آیت نمبر 7)

علامہ ابو البركات عبد الله بن احمد النسفی ﷫(المتوفی:710ھ/ت1310ء) تفسیر مدارک میں لکھتے ہیں: ”وفيه دليل ‌تحريم ‌المتعة والاستمتاع بالكف لإرادة الشهوة“ ترجمہ: اس آیت میں متعہ اور مشت زنی کی شہوت کے ارادے کے ساتھ حرام ہونے کی دلیل ہے۔

(مدارك التنزيل وحقائق التأويل ،جلد نمبر2 ، صفحہ نمبر 460، مطبوعه: دار الكلم الطيب، بيروت)

شیخ ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير بصری (المتوفى: 774ھ) مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”وقد استدل الإمام الشافعي، رحمه الله، ‌ومن ‌وافقه ‌على ‌تحريم الاستمناء باليد بهذه الآية الكريمة { وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ (۵)اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(۶) } قال: فهذا الصنيع خارج عن هذين القسمين، وقد قال: {فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ (۷) } وقد استأنسوا بحديث رواه الإمام الحسن بن عرفة في جزئه المشهور حيث قال:حدثني علي بن ثابت الجزري، عن مسلمة بن جعفر، عن حسان بن حميد ، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سبعة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العاملين، ويدخلهم النار أول الداخلين، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: ناكح يده“یعنی: ان آیات سے مشت زنی کے حرام ہونے کا امام شافعی اور ان کے ساتھ موافقت کرنے والوں نے استدلال کیا ہے اور فرمایا کہ یہ قبیح فعل ان حلال قسموں (بیوی اور شرعی باندی) سے خارج ہے، اور دیگر علما نے اس حدیث سے جو امام حسن بن عرفہ نے روایت کی کہ حضرت انس ﷜سے مروی ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: سات افراد ہیں، جن کی طرف اللہ cقیا مت والے دن نظر رحمت نہ فرمائے گا، اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالمین کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے اول دوزخ میں ڈالے گا۔ ہاں اگر وہ (موت سے قبل ) توبہ کرلیں تو اللہ c ان کی توبہ قبول فرمانے والا ہے ۔(ان میں سے ایک) ہاتھ سے نکاح کرنے والا (یعنی مشت زنی کرنے والا) ہے ۔

(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)

علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی ﷫ (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم والله تعالى أعلم“یعنی: جمہور آئمہ نے اس آیت سے مراد مشت زنی کی حرمت لی ہے، کہ وہ بھی ﴿وَرَآءَ ذٰلِكَ﴾ میں داخل ہے ۔ امام احمد بن حنبل ﷫نے مشت زنی کو (حاجت کے وقت) جائز کیا کہ منی جسم کا فاضل مادہ ہے تو اسے حاجت کے وقت نکالنا جائز ہے، جیسے حاجت کے وقت پچھنا لگوانا اور حجامت کروانا جائز ہے، اور سعید بن جبیر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیلتے تھے۔اور حضرت عطا ء فرماتے ہیں: میں نے ایک قوم کے بارے میں سنا ہے کہ حشر میں انکی ہتھیلیاں گابھن (حاملہ ) ہوں گی اور میرا گمان ہے کہ وہ مشت زنی کرنے والے ہوں گے۔

(روح المعانی ،جلد نمبر9،صفحہ نمبر 214، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت )

صدر الافاضل بدر الاماثل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”معلو م ہو اکہ ہاتھ سے قضائے شہوت(مشت زنی) کرنا حرام ہے۔ سعید بن جبیر ﷜نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے۔“

(خزائن العرفان، سورۃ المؤمنون 23، تحت آیت 7، صفحہ نمبر 234، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”یہ فعل (مشت زنی) ناپاک حرام وناجائز ہے، اللہ جل وعلا نے اس حاجت کے پورا کرنے کو صرف زوجہ و کنیز شرعی بتائی ہیں اور صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ : ﴿ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ﴾جو اس کے سو ااور کوئی طریقہ ڈھونڈھے توو ہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (سورۃ المؤمنون 23،آیت نمبر 7) حدیث میں ہے : ناکح الید ملعون (ترجمہ:)جلق لگانے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص جوان تیز خواہش ہو کہ نہ زوجہ رکھتاہو نہ شرعی کنیز اور جوش شہوت سخت مجبور کرے اوراس وقت کسی کام میں مشغول ہوجانے یا مردوں کے پاس جابیٹھنے سے بھی دل نہ بٹے غرض کسی طرح وہ جوش کم نہ ہو یہاں تک کہ یقین یاظن غالب ہوجائے کہ اس وقت اگر یہ فعل نہیں کرتا تو حرام (زنا) میں گرفتار ہوجائے گا، تو ایسی حالت میں زنا ولواطت سے بچنے کے لئے صرف بغرض تسکین شہوت نہ کہ بقصد تحصیل لذت و قضائے شہوت اگر یہ فعل واقع ہو تو امید کی جاتی ہےکہ اللہ تعالی مواخذہ نہ فرمائے گا۔ پھر اس کے ساتھ ہی واجب ہے کہ اگر قدرت رکھتا ہو فورا نکاح یا خریداری کنیز شرعی کی فکر کرے ورنہ سخت گنہگار ومستحق لعنت ہوگا۔ یہ اجازت اس لئے نہ تھی کہ اس فعل ناپاک کی عادت ڈال لے اور بجائے طریقہ پسندیدہ خدا ورسول اسی پر قناعت کرے۔

(فتاوی رضویہ،جلد نمبر 22،صفحہ نمبر 202، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

اس کے بعد طریقۂ محمدیہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اما الاستمناء فحرام الا عند شروط ثلثۃ ان یکون عزبا وبہ شبق و فرط شہوۃ (بحیث لو لم یفعل ذلک لحملتہ شدۃ الشھوۃ علی الزنا او اللواط والشرط الثالث ان یرید بہ تسکین الشھوۃ لاقضاء ھا مزید ا من شرحھا الحدیقۃ الندیۃ“ ترجمہ: مشت زنی حرام ہے، مگر تین شرائط کے ساتھ جواز کی گنجائش ہے: (1) کنوارہ ہو اور غلبہ شہوت ہو (2) شہوت اس قدر غالب ہو کہ بدکاری ،زنا،یا لونڈے بازی وغیرہ کا اندیشہ ہو (3) تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے محض تسکین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت ۔طریقہ محمدیہ کی عبارت مکمل ہوگئی، جس میں اس کی شرح حدیقہ ندیہ سے کچھ اضافہ بھی شامل ہے ۔

(فتاوی رضویہ،جلد نمبر 22،صفحہ نمبر 202-203، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

اگر زنا کا خوف نہیں تو شہوت کو ذکر اذکار یا روزوں سے توڑ ا جائے، چنانچہ فقیہ اعظم ﷫ کی تحریر فرماتے ہیں: ”وہ(مشت زنی کرنے والا)گناہ گار ہے ، عاصی ہے اصرار کے کے سبب مرتکب کبیرہ ہے ، فاسق ہے ، حشر میں ایسوں کی ( یعنی مشت زنی کرنے والو ں کی ) ہتھیلیاں گابھن (حاملہ) اٹھیں گی، جس سے مجمع اعظم اس کی رسوائی ہو گی، اگر توبہ نہ کریں تو اور اللہ عزوجل معاف فر ماتا ہے جسے چاہے اور عذاب دیتا ہے جسے چاہے(اس کا علاج یہ ہے کہ جس کو اس فعل بد کی خواہش ہو) اسے چاہیے کہ لا حول شریف کی کثرت کرے اور جب شیطان اس حرکت کی طرف بلائے تو فورا ً دل سے متوجہ بخدا عزوجل ہو کر لا حول پڑھے نماز پنجگانہ کی پابندی کرے، نماز صبح کے بعد سورۂ اخلاص کا ورد رکھے۔ واﷲ تعالٰی اعلم “

(فتاوی رضویہ جلد نمبر 22، صفحه نمبر244، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

21 شوال المکرم 1444ھ / 12 مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں