والدین کے کہنے پر طلاق

والدین کے کہنے پر طلاق

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والدین کے کہنے پر طلاق دینے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی نافرمان ہو کہ ایذا دیتی ہو اور والدین اس پر طلاق دینے کا کہیں تو شوہر پر طلاق دینا واجب ہے اور حکم عدولی حرام ہے ۔اگر بیوی کا کوئی قصور نہ ہو بلکہ والدین کی طرف سے کوئی مسئلہ ہے یا وہ بلا وجہ طلاق کا حکم دے رہے ہوں تو طلاق دینا جائز ہے اور اس صورت میں شوہر اگر طلاق نہ دے تو بھی کوئی گناہ نہیں کہ یہ والدین کی نافرمانی نہیں ہے ۔

مسند احمد بن حنبل میں ہے:

”عن معاذ قال: اوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيىا وان قتلت وحرقت ولا تعقن والديك وان امراك ان تخرج من اهلك ومالك الخ۔“

ترجمہ : روایت ہے حضرت معاذ سے فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں کی وصیّت فرمائی فرمایا :رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانو اگرچہ مار دئیے جاؤ یا جلا دیئے جاؤ۔ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے گھر بار اور مال سے نکل جانے کا حکم کریں ۔ (مسند احمد بن حنبل ،حدیث 22075، صفحہ 392 ،دار الکتب العلمیہ بیروت)

ترمذی شریف میں ہے :

” وعن ابن عمر قال: كانت تحتي امراة احبها وكان عمر يكرهها. فقال لي: طلقها فابيت. فاتى عمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: طلقها “

ترجمہ : حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ میرے پاس بیوی تھی جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمر اسے ناپسند کرتے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ اسے طلاق دے دو ، میں نے انکار کیا تو حضرت عمر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس واقعہ کا حضور سے ذکر کیا تو مجھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اسے طلاق دے دو۔ ( سنن ترمذی ، حدیث نمبر 1189 ، جلد 2 ،صفحہ 486، دار الکتب العلمیہ بیروت)

اس کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے :

” شاید اس بی بی میں کوئی دینی خرابی ہوگی محض دنیاوی وجہ پر طلاق کا حکم نہ دیا ہوگا۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ امر وجوب کا ہے اور حضرت عبدالله ابن عمر پر اس حکم کی بنا پر طلاق دینا واجب ہو گیا۔مرقات نے فرمایا کہ امر استحباب کے لیے ہے یعنی بہتر یہ ہے کہ طلاق دے دو تاکہ تمہارے والد تم پر ناراض نہ ہوں۔“ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 6 ،حدیث نمبر 4940 )

سنن ترمذی میں ہی ہے :

” وعن ابي الدرداء ان رجلا اتاه فقال: ان لي امراة وان امي تامرني بطلاقها؟ فقال له ابو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم: الوالد اوسط ابواب الجنة فان شىت فحافظ على الباب او ضيع“

ترجمہ :حضرت ابی الدرداء سے کہ ایک شخص انکے پاس آیا بولا میری بیوی ہے اور میری ماں اسے طلاق دے دینے کا مجھے حکم دیتی ہے تو ان سے ابو الدرداء نے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ والدین جنت کے دروازوں میں بیچ کا درازہ ہیں تو اگر تم چاہو تو دروازہ سنبھال لو یا اسے ڈھا دو۔ (سنن ترمذی ،حدیث نمبر 1900، جلد 3 ، صفحہ 375, دار الکتب العلمیہ بیروت)

اس کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے:

”مقصد یہ ہے کہ یا تو اپنی بیوی سے اپنی ماں کو راضی کر دو ساس بہو کی صلح کرا دو یا طلاق دے دو صراحۃً طلاق کا حکم نہ دیا کہ ایسی صورت میں طلاق دینا واجب نہیں بہتر ہے اور اگر ماں باپ بیوی پر ظلم کرنے کا حکم دیں کہ اسے خرچہ نہ دے اسے میکے میں چھوڑ دے تو ہرگز نہ کرے کہ ظلم حرام ہے ماں باپ کی اطاعت حکم شرع کے خلاف میں نہیں۔“ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 6 ، حدیث نمبر 4928)

فتاوی رضویہ میں ہے :

” بعض صورتوں میں زوج پر زوجہ کو طلاق دینا واجب ہو جاتا ہے۔ جیسے زوج کے والدین طلاق کا حکم کریں اور زوجہ کو طلاق نہ دینے میں والدین کی ناراضگی کا باعث ہو تو واجب ہے کہ طلاق دے دے ۔“ ( فتاوی رضویہ جلد دوازدہم، صفحہ 334، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

”علما فرماتے ہیں کہ اگر والدین حق پر ہوں جب تو طلاق دینا واجب ہی ہے اور اگر بی بی حق پر ہو جب بھی والدین کی رضا مندی کے لیے طلاق دینا جائز ہے۔“ (بہار شریعت ،حصہ 10 ، جلد 2 ،صفحہ 556، مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتاوی بحر العلوم میں ہے :

”اس حالت میں زید کا اپنی بیوی کو طلاق دینا جائز کہ طلاق دیدے تو والدین کی اطاعت ہو گی اگر طلاق نہ دے تب بھی شرعاً گناہگار نہ ہو گا۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ اس صورت میں اگر شوہر طلاق نہ دے تو کوئی گناہ نہیں نہ والد کی بے جا نافرمانی اور اگر طلاق دیدے تو یہ بھی جائز ہے۔“ (فتاوی بحر العلوم ،کتاب الطلاق ،جلد 3 ،صفحہ 20 ،شبیر برادرز)

حضرت علامہ مفتی محمد وقا رالدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :

”اگر بیوی کی طرف سے کوئی زیادتی اور قصور نہیں ہے ماں صرف اپنی بیٹی کا بدلہ لینے کیلئے ، بیٹے کو طلاق دینے کا کہتی ہے تو والدہ کے اس حکم کی فرمانبرادری بیٹے پر واجب نہیں ماں کو سمجھائے کہ ترش روئی اور سخت کلامی سے اجتناب کرے یونہی آپ علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ علماء فرماتے ہیں اگر والدین حق پر ہوں تو ان کے کہنے سے طلاق دینا واجب ہے۔ اگر بیوی حق پر ہے جب بھی ماں کی رضا مندی کے لئے طلاق دینا جائز ہے۔“( وقار الفتاوی جلد ۳ص ۲۵۰،۲۵۲)

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

25/07/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں