ماں اور دادا پر نفقہ کی صورت

ماں اور دادا پر نفقہ کی صورت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فوت ہوا جس کے نابالغ بچے ہیں، اس فوت ہونے والے کی وراثت میں کچھ نہیں اور نہ ہی بچوں کی ملکیت میں کچھ مال ہے ،اب اس کا نفقہ کس پر ہوگا ؟ ان بچوں کی والدہ اوردادا زندہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق والد کی وفات کی صورت میں اور جب کہ بچوں کے پاس اپنا بھی مال نہیں تو اب اس کے نفقے کا ذمہ اس کی والدہ اور دادا پر ہے۔نفقہ وارثت کے حصے کے مطابق ہوتا ہے یعنی دو تہائی حصہ دادا پر جب کہ ایک تہائی حصہ والدہ کے ذمے ہوگا ۔

فتاویٰ خانیہ میں ہے

”صغیر مات ابوہ، ولہ ام وجد (اب الاب) کانت نفقتہ علیہما اثلاثا : ثلث علی الام والثلثان علی الجد“

ترجمہ اور اگر نابالغ کے باپ کا انتقال ہوجائے تو اسکی والدہ اور دادا (یعنی والد کے والد) ان دونوں پر تین حصے اس کا نفقہ واجب ہے ایک تہائی والدہ پر اور دو تہائی دادا پر ۔(الفتاوی الخانیة، جلد 1 ،صفحہ 499 ،مطبوعہ مکتبة حقانیة)

فتح القدیر میں ہے

”وفی غیر الوالد یعتبر قدر المیراث حتی تکون نفقہ الصغیر علی الام والجد اثلاثا“

ترجمہ اور والد کے فوت ہوجانے کی صورت میں مقدار میراث معتبر ہوگی یہاں تک کہ نابالغ کا نفقہ والدہ اور دادا پر تین حصے ہوگا۔(فتح القدیر، کتاب الطلاق ،باب النفقہ، جلد 4 ،صفحہ 281 ، دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

فتاویٰ خانیہ میں ہے

”رجل مات وترک ولدا صغیرا وابا کانت نفقة الصغیر علی الجد۔ فان کانت للصغیر ام موسرة وجد موسر کانت نفقة الصغیر علی الجد والام اثلاثا فی ظاھر الروایة اعتبارا بالمیراث“

ترجمہ اور اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کی نابالغ اولاد ہو تو ان کا نفقہ اس کے دادا پر ہے اور اگر اس کی والدہ خوشحال ہو اور دادا بھی خوشحال (صاحب ثروت)ہو تو اس نابالغ کا نفقہ دادا اور والدہ پر ہے تین حصے ظاہر الروایہ کے مطابق باعتبار میراث کے ۔(فتاویٰ خانیہ ،جلد 1 ،صفحہ 450 ،مطبوعہ مکتبة حقانیة)

بہار شریعت میں ہے:

”جو رشتہ دار محارم ہوں اُن کا بھی نفقہ واجب ہے جبکہ محتاج ہوں اور نابالغ یا عورت ہو۔ اوررشتہ دار بالغ مرد ہو تو یہ بھی شرط ہے کہ کمانے سے عاجز ہو مثلاًدیوانہ ہے یا اُس پر فالج گرا ہے یا اپاہج ہے یا اندھا۔ اور اگر عاجز نہ ہو تو واجب نہیں اگرچہ محتاج ہو اور عورت میں بالغہ نا بالغہ کی قید نہیں اور ان کے نفقات بقدرِ میراث واجب ہیں یعنی اُس کے ترکہ سے جتنی مقدار کا وارث ہوگا اُسی کے موافق اِس پر نفقہ واجب مثلاًکوئی شخص محتاج ہے اور اُس کی تین بہنیں ہیں ایک حقیقی ایک سوتیلی ایک اخیافی تو نفقہ کے پانچ حصے تصور کریں تین حقیقی بہن پر اور ایک ایک ان دونوں پراور اگر اسی طرح کے تین بھائی ہیں تو چھ حصے تصور کریں ایک اخیافی بھائی پر اور باقی حقیقی پر سوتیلے پر کچھ نہیں کہ وہ وارث نہیں۔ اور اگر ماں اور دادا ہیں تو ایک حصہ ماں پر اور دو دادا پر۔ اور اگر ماں اور بھائی یا ماں او ر چچا ہے جب بھی یہی صورت ہے اور اگر ان کے ساتھ بیٹا بھی ہے مگر نا بالغ نادار ہے یابالغ ہے مگر عاجز تو اُسکا ہونا نہ ہونا دونوں برابر کہ جب اُس پر نفقہ واجب نہیں تو کالعدم ہے۔“(بہار شریعت جلد 2 حصہ 8 صفحہ 279 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ممبر فقہ کورس

11صفر المظفر 1445ھ29اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں