کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کرنے والا کیا سنی رہے گا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کرنے والا کیا سنی رہے گا؟ بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم امتِ مسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور نصرت و اعانت کے ليے منتخب فرمایا، ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت ومدح میں قرآنِ پاک میں جابجا آیاتِ مبارکہ وارد ہیں جن میں ان کے حسنِ عمل، حسنِ اخلاق اور حسنِ ایمان کا تذکرہ ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت اور انعاماتِ اخروی کا مثردہ سنا دیا گیا ہے۔ جن کے اوصافِ حمیدہ کی خود اللہ عزوجل تعریف فرمائے ان کی عظمت اور رفعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ ان پاک ہستیوں کے بارے میں قرآنِ پاک کی کچھ آیات درج ذیل ہيں:

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ۔

ترجمۂ کنزالایمان: یہی سچے مسلمان ہیں انکے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی(پ9،الانفال:4)

سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔

ترجمۂ کنزالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور انکے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،التوبۃ: 100)

معاذاللہ ان کی شان میں گستاخی  کرنے والا بدمذھب، گمراہ، بلکہ بعض صورتوں میں کافر ہے اور نارِ جہنم کا مستحق ہے۔

اللہ پاک اس کے نہ فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی نفل۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن نجات کی کوئی امید نہیں ہو گی اور تمام اہل محشر اس پر لعنت کریں گے۔

یہاں پر ” صحابہ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا نہ کہنے کے متعلق 10 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ” ذکر کئے جاتے ہیں۔

(01) جو میرے صحابہ کو برا کہے! اس پر اللہ پاک، فرشتوں، اور تمام انسانوں کی لعنت، اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔

(الدعاء للطبرانی، صفحہ 581، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت )

(02) میرے اصحاب کو برا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد ( یعنی ایک کلو میں 40 گرام کم ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا، اور نہ اس مد کے آدھے. ( بخاری شریف، جلد 02 صفحہ 522، حدیث 3673،  مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ بیروت )۔

(03) ستاروں کے متعلق سوال نہ کرو اپنی رائے سے قرآنِ پاک کی تفسیر نہ کرو اور میرے صحابہ میں سے کسی کو برا نہ کہو تو یہ خالص ایمان ہے”.( الفردوس، جلد 05، صفحہ 64، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت )

(04) میرے صحابہ کی میری وجہ سے جس نے حفاظت اور عزت کی تو میں بروزِ قیامت اس کا محافظ ( یعنی حفاظت کرنے ) والا ہوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ پاک کی لعنت ہے”. ( فضائل الصحابہ للامام احمد، جلد 02، صفحہ 908، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ).

(05) جب تم لوگوں کو دیکھو کہ میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو: اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے شر پر ( ترمذی جلد 5 صفحہ 463، مطبوعہ دارالفکر بیروت )

شرح حدیث:  حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی صحابہ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی خود تمہاری طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔

( مرآۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 344، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور )

(06) جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ پاک کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا”( یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھا جائے گا )۔ ( السراج المنیر شرح الجامع الصغیر جلد 3 صفحہ 86، مطبوعہ مکتبۃ الایمان المدینۃ المنورہ ).

(07) جس نے میرے صحابہ کے متعلق اچھی بات کہی تو وہ نفاق سے بری ( یعنی آزاد ) ہو گیا، جس نے میرے صحابہ کے متعلق بری بات کہی تو وہ میرے طریقے سے ہٹ گیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور کیا ہی بری جگہ ہے پلٹنے کی”. ( جمع الجوامع، جلد 8 صفحہ 428، مطبوعہ دارالسعادۃ الازھر )

(08) میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو!  اللہ سے ڈرو!  میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا ، اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ کو ایذا دی اور  جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑے”

( ترمذی جلد 05، صفحہ 363، مطبوعہ دارالفکر بیروت )

(09) قیامت کے دن ہر شخص کو نجات کی امید ہوگی سوائے اس شخص کے جس نے میرے صحابہ کو گالی دی، بے شک اہل محشر ان یعنی صحابہ کو گالی دینے والوں پر لعنت کریں گے ( تاریخ اصبہان  جلد 1 صفحہ 126، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت )

(10) اذا ذکر اصحابی فامسکوا ترجمہ : جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز رہو ( یعنی برا کہنے سے باز رہو )۔

( معجم کبیر جلد 02، صفحہ 96، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت )

شرح حدیث: حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہنے سے باز رہو کیونکہ قرآن کریم میں ان کے لیے رضائے الہی کا مژدہ یعنی خوشخبری  بیان ہو چکی ہے لہذا ضرور ان کا انجام  ( یعنی ٹھکانہ )  پرہیزگاری ہے اور رضائے الہی کے ساتھ جنت میں ہوگا اور یہ وہ ہے جو امت کے ذمہ باقی ہے لہذا جب بھی ان کا ذکر ہو تو صرف اور صرف بھلائی اور ان کے لئے نیک دعاؤں کے ساتھ ہو۔( مرقات جلد 1 صفحہ 282، مطبوعہ دارالفکر بیروت )

تلک عشرۃ کاملۃ ( یہ مکمل دس حدیثیں ہیں )

شرح عقائد میں ہے ” فسبھم و الطعن فیھم ان کان مما یخالف الادلۃ القطعیۃ فکفر کقذف عائشۃ والا فبدعۃ وفسق و بالجملۃ لم ینقل عن السلف المجتہدین والعلماء الصالحین جواز اللعن علی معاویۃ “

ترجمہ:صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان میں گالی و طعن اگر دلیل قطعی کے مخالف ہو جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر قذف کی تہمت لگانا کفر ہے اور اس کے علاوہ(صحابہ کی شان میں گستاخی)فسق و گمراہی ہے

( شرح عقائد، صفحہ195، مکتبہ رحمانیہ، لاہور )

شرح الشفاء للملا علی قاری میں ہے: ” وَسَبّ آل بَيْتِه وَأزْوَاجِه وَأصْحَابِه صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم وَتَنقّصُهُم حَرَام مَلْعُون فاعِلُه أي مذموم وملام قائله”.

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو گالی دینا اور ان کی شان میں تنقیص کرنا (عیب لگانا، گستاخی کرنا) حرام ہے، ایسا کرنے والا ملعون ہے۔ ( الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، جلد 02, صفحہ 651، مطبوعہ دارالفیحاء- عمان)

بہار شریعت میں ہے: ” کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفاء کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے، مثلاً حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدۂ ماجدہ حضرت ہند، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ، و حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی ﷲ تعالیٰ عنہم، حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدا حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخبث الناس خبیث مُسَیْلِمَہ کذّاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے: کہ میں نے خیر النّاس و شر النّاس کو قتل کیا، اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّا ( یعنی ان سے نفرت کرنا ) ہے اور اِس کا قائل رافضی، اگرچہ حضراتِ شیخین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی توہین کے مثل نہیں ہو سکتی، کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔ ( بہار شریعت جلد 01  حصہ اول صفحہ 252-253 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں