میت کو ایصال ثواب کرنا کہاں سے ثابت ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین و شرع متین مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ میت کو ایصال ثواب کرنا کہاں سے ثابت ہے؟ کیا دن فکس کرکے نیک کام کرنا بدعت ہے؟بینوا توجروا

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میت کو ایصال ثواب کرنا چاہے دن مقرر کرکے ہو یا بغیر مقرر کرکے ہر صورت جائز و مستحب  ہے جو قران و حدیث وآثار صحابہ سے ثابت ہےاور  اس میں دینی و اخروی فوائد کثیرہ ہیں۔

اثبات ایصال ثواب پر چند روایات و آثار مندرجہ ذیل ہیں

وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰)

اوران کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔

پارہ ٢٨ سورة حشر آیت نمبر ١٠

اس آیت میں واضح فرمایا کہ بعد والے پہلے والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ایصال ثواب کی محفل میں بھی اصل یہی ہوتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

(( اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلَُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ اِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ )

’’ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں ہیں (جن کا فائدہ اسے مرنے کے بعد ہوتا رہتا ہے۔ )(۱)صدقہ جاریہ۔ (۲) علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ (۳) نیک اولاد جو اس کے لیےدعا کرے

شرح بخاری / شرح مسلم ؍ کتاب الوصیۃ ؍ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ ، ترمذی ؍ کتاب الاحکام ؍ باب فی الوقف، ابو داؤد کتاب الوصایا ؍ باب ماجاء فی الصدقۃ عن المیت ، نسائی ؍ کتاب الوصایا ؍ باب فضل الصدقۃ علی المیت

حضرتِ سیِّدُنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:ہم اپنے مُردوں کے لئے دُعا کرتے اور اُن کی طرف سے صَدَقہ اور حج کرتے ہیں،کیا اُنہیں اِس کا ثَواب پہنچتا ہے؟سرکارِ مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ لَيَصِلُ اِلَيۡهِمۡ وَيَفۡرَحُوۡنَ بِهٖ كَمَا يَفۡرَحُ اَحَدُكُمۡ بِالۡهَدِيَّةِ اُنہیں اِس کا ثَواب پہنچتا ہے اور وہ اِس سےایسے ہی خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی شخص تحفے سے خوش ہوتا ہے۔

عمدۃ القاری،ج6، ص305

ابن عباس  رضی الله عنہ سے مروی ہے:

(( إِنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم إِنَّ اُمَّہٗ تُوُفِّیَتْ أَیَنْفَعُھَا اِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْھا؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَاِنَّ لِیْ مِخْرَافًا فَاَنَا اُشْھِدُکَ أَنِّیْ قَدْ تَصَدَّقْتُ بِہٖ عَنْھَا )

’’ ایک آدمی نے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ اس کی ماں فوت ہوگئی ہے ، اگر میں اس کی طرف سےصدقہ کروں ، کیا اسے نفع ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘  تو اس آدمی نے کہا میرا ایک پھل دار باغ ہے ، میں آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں میں نے وہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔‘‘

بخاری (۲۷۵۶ ، ۲۷۶۲

حضرت سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی:یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم! میری ماں کا انتقا ل ہو گیا ہے، اُ ن کے لیے کون سا صدقہ افضل ہے؟حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’پانی‘‘تو حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے یعنی اس کا ثواب ان کی روح کو ملے

ابو داود،کتاب الزکاة، باب فی فضل سقی الماء،۲ / ۱۸۰،حدیث:۱۶۸۱

اس میں صراحت ہے کہ وہ آدمی سعد بن عبادہ  رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ اپنی ماں کی وفات کے وقت غائب تھے، پھر انہوں نے یہ سوال رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا

مذکورہ بالا احادیث ِصحیحہ اور  کی توضیحات سے معلوم ہوا

کہ مرنے والے کو ایصال ثواب پہنچانا بلکل جائز بلکہ صحابہ کرام کی سنت اور انکا پسنددیدہ عمل تھا

رہی بات سوئم دسواں چالیسواں تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اہلسنت کا بلکل یہ عقیدہ نہیں کہ ان دنوں کی تعیین واجب ہے بلکہ لوگوں کی آسانی کیلئے یہ دن رکھے جاتے ہیں کہ معروف ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات تیجے کا ختم  دوسرے دن بھی دلایا جاتا ہے اور کوئی بھی اہلسنت کا مفتی ناجائز نہیں کہتا۔

ایصالِ ثواب کے  لئے  نہ کسی وقت کو معیّن کرنا ضروری ہے  نہ کسی عمل کو ۔بغیر کسی قید کے  جب بھی چاہیں ، کو ئی نیک عمل کرکے  میّت کو ایصالِ ثواب کر سکتے  ہیں، چاہے  کوئی صدقہ کرے  یا مدرسہ ومسجد بنا دے  ، میّت کی طرف سے  حج کرے  ، قرآنِ پاک کی تلاوت کرکے  ثواب پہنچائے  یہی کام کسی دن کو معیّن کرکے  کئے  جائیں اس میں بھی حرج نہیں کہ دن معیّن کرنے  سے  مقصود یہ ہوتا ہے  کہ لوگ جمع ہوجائیں اور اہتمام کے  ساتھ عملِ خیر کیا جائے  تعیین شرعاً منع نہیں ہے  جیساکہ نمازِ باجماعت میں لوگوں کی آسانی کے  لئے  ایک وقت مُقرّر کردینا ، کسی دینی اجتماع مَحافل یا شادی بیاہ وغیرہ کے  لئے  دن و تاریخ معیّن کردینا جائز ہے  ۔ہاں البتہ اسی تعیین کو ضروری سمجھنا کہ اس کے  بغیر ایصالِ ثواب نہ ہو گا یہ درست نہیں جاہلانہ خیال ہے  اس سے  باز رہنا ضروری ہے

اور میرا منکرین

سے سوال ہے کہ

جب سے ثابت ہے کہ حدیث میں کہیں تیجہ دسواں کی ممانعت نہیں بجائے کہ یہ ہمیں بتائیں کہ یہ ممانعت موجود ہے

الٹا ہم سے دلیل مانگتے ہیں

شرعی اصول یہ ہے کہ

الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم

السيوطی، الأشباه والنظائر ، 1/ 60

” اشیاء میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں جب تک ان کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو”۔                                                   اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے امام احمد رضاخان علےہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”اب وقت معیّن کرنے سے متعلق گفتگو کرنی ہے جس کا لوگوں میں رواج ہے، جیسے سوم ، چہلم، ایک سال چھ ماہ۔

 اقول و بحول ﷲ ( میں کہتا ہوں اور خدا ہی کی دی ہوئی قوت سے حملہ کرتا ہوں۔) توقیت یعنی کسی کام کے لیے وقت مقرر کرنے کی دو صورتیں ہیں

: (1) شرعی اور (2) عادی۔

    (1) شرعی یہ کہ شریعت مطہرہ نے کسی کام کے لیے کوئی وقت مقرر فرمایا ہے کہ

(١)جواس کے علاوہ وقت میں وہ ہو ہی نہیں سکتا او راگر کریں تو وہ عمل شرعی ادانہ ہوگا۔ جیسے قربانی کے لیے ایام نحر۔

    (٢) یا یہ کہ اس وقت سے اس عمل کو مقدم یا مؤخر کرنا ناجائز ہو، جیسے احرام حج کے لیے حرمت والے مہینے (شوال، ذی قعدہ، ذوالحجہ)۔

    (٣) یا یہ کہ اس وقت میں جو ثواب ہو وہ دوسرے وقت میں نہ ملے ، جیسے نمازعشاء کے لیے تہائی رات۔

    (2) عادی یہ کہ شریعت کی جانب سے کوئی قید نہیں جب چاہیں عمل میں لائیں۔لیکن حدث (کام ہونے)کے لیے زمانہ ضروری ہے اور زمانہ غیر معین میں وقوع محال عقلی ہے۔۔۔۔

     ہوشیار اے طالبان حق ان کو، ان کی سرکشی اور زیادتی میں چھوڑ اور اثار واحادیث کی جانب متوجہ ہو تاکہ ہم کچھ تعیناتِ عادیہ تجھے سنائیں”ازین قبیل ست انچہ درحدیث آمد کہ حضورپرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم زیارتِ شہدائے احد را سرسال مقرر فرمودن کما سیأتی وآمدن مسجد قبارا روز شنبہ؎کما فی الصحیحین عن ابن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما وروزہ شکر رسالت را روز دوشنبہ کما فی صحیح مسلم عن ابی قتادۃ رضی اﷲتعالیٰ عنہ وصدیق اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ مشاورہ دینی صبح وشام کما فی صحیح البخاری عن ام المؤمنین الصدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا وانشائے سفر جہاد را پنچشنبہ کما فیہ عن کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ وطلبِ علم را دوشنبہ کما عند ابی الشیخ وابن حبان والدیلمی بسند صالح عن انس ابن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ”ترجمہ:اسی قبیل سے ہے جو حدیث میں آیا کہ حضور پر نور سید عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد کی زیارت کےلئے سال کا شروع وقت مقرر فرمالیا تھا جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے۔ اور سنیچر کے دن مسجد قبا میں تشریف لانا، جیسا کہ صحیحین(بخاری ومسلم)میں حضرت ابن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔ اور شکرِ رسالت کےلئے دوشنبہ کاروزہ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو قتادہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔اور صدیق اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے دینی مشاورت کے لیے وقتِ صبح وشام کی تعیین جیسا کہ صحیح بخاری میں اُمّ المومنین صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔ اور سفر جہاد شروع کرنے کے لیے پنچشنبہ کی تعیین جیسا کہ اسی صحیح بخاری میں حضرت کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ اورطلب علم کے لئے دو شنبہ کی تعیین جیسا کہ ابوالشیخ ، ابن حبان اور دیلمی نے بسند صالح حضرت انس ابن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کی”و عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعظ وتذکیر را روز پنجشنبہ کما فی صحیح البخاری عن وائل وعلماء ہدایت درس را روز چہار شنبہ کما فی تعلیم المتعلم للامام برھان الاسلام الزر نوجی حکایت کردش ازاُستاد خود امام برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ وگفت ھکذا کان یفعل ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ صاحب تنزیہہ الشریعۃ فرمود وکذا کان جماعۃ من اھل العلم” حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے وعظ وتذکیر کے لیے پنچشنبہ کا دن مقرر کیا جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابوا وائل سے مروی ہے۔اور علما نے سبق شروع کرنے کے لیے بدھ کا دن رکھا جیساکہ امام برہان الاسلام زرنوجی کی تعلیم المتعلم میں ہے۔ انہوں نے اپنے استاد امام برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ سے اس کی حکایت فرمائی اور کہا کہ اسی طرح امام ابوحنیفہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے، صاحب تنزیہہ الشریعۃ نے فرمایا اوراسی طرح ایک جماعت کے علماء کا دستور رہا ہے۔

    یہاں مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علےہ(جو وہابی حضرات کے نسبی چچا، علمی باپ اور طریقت میں دادا تھے)کا کلام سننے کے قابل ہے۔

تفسیر عزیزی میں قولِ باری عزوجل(وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَق)کے تحت فرماتے ہیں”وارد ہے کہ مُردہ اس حالت میں کسی ڈوبنے والے کی طرح فریاد رس کا منتظر ہوتا ہے اور اس وقت صدقے، دعائیں اور فاتحہ اسے بہت کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ، موت سے ایک سال تک، خصوصاً چالیس دن تک اس طرح کی امداد میں بھر پور کوشش کرتے ہیں۔

    شاہ صاحب ”رسالہ ذبیحہ”میں جو مجموعہ زبدۃ النصائح میں چھپا ہے اس طعن کے جواب میں فرماتے ہیں ”قولہ عروس بزرگان خود الخ”یہ طعن مطعون علیہ کے حالات سے بے خبری پر مبنی ہے اس لئے شریعت میں مقررہ فرائض کے سوا کسی کا م کو کوئی فرض نہیں جانتا(یعنی کوئی مسلمان فاتحہ وغیرہ کو فرض و واجب نہیں جانتا)۔ ہاں قبورِ صالحین کی زیارت، قرآن ، دعائے خیر اور تقسیم شرینی وطعام سے ان کی امداد باجماع علماء مستحسن اور اچھا عمل ہے۔اور روز عرس کا تعین اس لئے ہے کہ وہ دن دارالعمل سے دارالثواب کی جانب ان کے انتقال فرمانے کی یاد دہانی کرنے والا ہے ورنہ جس دن بھی یہ کام ہو فلاح ونجات کا سبب ہے۔ اور خلف پر لازم ہے کہ اپنے سلف کے لئے اسی طرح کی بھلائی اور نیکی کرتا رہے۔ پھر سال کے تعین اور اس کے التزام کے سلسلے میں احادیث سے سند ذکر فرمائی کہ ابن المنذر اور ابن مردویہ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ہر سال احد تشریف لاتے، جب درہ کوہ پر پہنچتے تو شہیدوں کی قبر پر سلام کرتے اورفرماتے تمہیں سلام ہو ،تمہارے صبر پر کہ دارِ آخرت کیا ہی عمدہ گھر ہے۔”

    (فتاوٰی رضویہ ،جلد9،صفحہ580۔۔۔۔،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

 منکرین کے نزدیک اگر دن مقرر کرکے کوئی بھی عمل اگر بدعت ہے تو  ان سے سوال ہے کہ عموما اداروں میں جامعات و مدارس میں تنخواہ کے دن فکس ، میٹنگز کے دن فکس ، امتحان کے دن فکس ، ایڈمشن کے دن فکس ، نکاح کا دن فکس، برتھ ڈے کے دن فکس ، چودہ اگست فکس ، پچیس دسمبر فکس ، درس بخاری کا دن، سیرت کانفرنس اور دیگر اجتماعات کا دن فکش، فکس دستار بندی کے لیے دن فکس ‘کیا جاتا ہے کیا یہ ان سب پر بھِ حرام کے فتوے۔ لگائیں گے یہ صرف  ایصال ثواب کی محافل ہی سے بغض ہے۔آخر ایک نیک کام جس میں قرآن تسبیح دورود جیسے کام کے لئے کوئی فکس کر ہی لے تو کیا قباحت ہے جبکہ اس کو واجب یا فرض نہیں سمجھا جاتا۔

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

   ٢۵ فروری٢٠٢١ء بمطابق  ١٢ رجب المرجب ١۴۴٢ ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں