ایک کی بیماری اڑ کر دوسرے کو لگتی ہے یا نہیں؟

استفتاء۔کیا فرماتے ہیں علمائے دیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کی بیماری اڑ کر دوسرے کو لگتی ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہر کام میں کارساز زات واحد القہار ہے اور ہر نفع و نقصان کا مالک اللہ ایزدی ہی ہے اسلیے

کسی کی بیماری اڑ کر دوسرے کو نہیں لگتی جس کی قسمت میں بیماری ہو اسے لگتی ہے  اسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

”لَا عَدْوٰی وَلَا صَفَرَ وَلَا ھَامَۃ“

یعنی نہ  بیماری  کا اُڑ کر لگنا ہے، نہ صَفَر  کی نحوست ہے نہ اُلّو کی نحوست ہے۔ ایک اعرابی نے عرض کی: یارسولَ اللہ! پھرکیا وجہ ہے کہ میرے اونٹ مٹی میں ہرن کی طرح (چست،تندرست و توانا)ہوتے ہیں،تو ایک  خارش زدہ اونٹ  ان میں داخل ہوتا ہے  اور ان کو بھی خارش

زدہ کر دیتا ہے ؟تو حضور علیہ الصّلوٰۃو السَّلام نے فرمایا: پہلے کو کس سے خارش لگی ؟(بخاری،ج4،ص26،حدیث:5717)

تعدیہ مرض سے کیا مراد ہے؟”اَلْعَدْوَی“ سے مراد یہ ہے کہ بیماری ایک شخص سے بڑھ کر دوسرے کو لگ جائے۔ ”لَا عَدْوَی“ والی حدیث اسی سےہے یعنی ایک شے دوسری شے کی طرف مُتَعَدِّی (یعنی منتقل Transfer) نہیں ہوتی۔ (التوقیف علی مہمات التعاریف، ص238)

۔فتح الباری میں ہے:تعدیہ کی نفی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شے اپنی طبیعت کے اعتبار سے دوسری چیز کو نہیں لگتی، چونکہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ امراض اپنی طبیعت کے اعتبار سے مُتَعَدِّی ہوتے ہیں اور وہ ان کی نسبت اللّٰہ تعالٰیکی طرف نہیں کرتے تھے، لہذا اس اعتقاد کی نفی کی گئی اورنبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ان کے اعتقاد کو باطل فرمایا اور مجذوم کے ساتھ کھانا کھایا تا کہ آپ انہیں بیان کردیں کہ اللہ ہی بیمار کرتا ہے اور شفا دیتا ہے۔

(فتح الباری لابن حجر،ج11،ص136،تحت الحدیث: 5707)

مراٰۃ المناجیح میں ہے:

اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے۔ وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو مُتَعَدِّی مانتے ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوبِِ چشم،وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔اس معنیٰ سے مرض کا اُڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تَعَفُّنْ سے اثر لے کر بیمار ہوجائے اس معنیٰ سے تَعَدِّی ہوسکتی ہے اس بنا پر فرمایا گیا کہ جذامی سے بھاگو لہٰذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں۔ غرضکہ عدویٰ یا تَعَدِّی اور چیز ہے کسی بیمار کے پاس بیٹھنے سے بیمار ہوجانا کچھ اور چیز ہے

“(مراٰةلمناجیح،ج6،ص256)

اور بہار شریعت میں بیماری کے متعدی ہونے اور اس سے بچنے کے حوالے سے فرمایا

مرض کا متعدی ہونا غلط ہے اور مجذوم سے بھاگنے کا حکم سد ذرائع کے قبیل سے ہے، کہ اگر اس سے میل جول میں   دوسرے کو جذام پیدا ہوجائے تو یہ خیال ہوگا کہ میل جول سے پیدا ہوا، اس خیالِ فاسد  سے بچنے کے لیے یہ حکم ہوا کہ اس سے علیحدہ رہو۔

حصہ ١٦ ص ۵٠٦

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں