جو شخص غصے میں پاگل ہوجائے اس کی طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جو شخص غصے میں پاگل ہوجائے اس کی طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

غصے کی حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے بلکہ اکثر غصہ ہی طلاق پر ابھارنے والا ہوتا ہے محض غصہ طلاق کے واقع ہونے میں رکاوٹ نہیں ہوگا ہاں اگر غصے کی شدت اس حد کو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہو جائے، خبر نہ رہے، کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے، تو بیشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز واقع نہ ہوگی اور اگر وہ دعوٰی کرے کہ اس وقت میرا غصہ ایسی ہی حالت کو پہنچا ہوا تھا کہ میری عقل بالکل زائل ہوگئی تھی اور مجھے نہ معلوم تھا کہ میں کیا کہتا ہوں میرے منہ سے کیا نکلتا ہے،تو شوہر کے لیے اپنے اس دعوی کو عادل گواہوں سے ثابت کرنا لازم ہوگا یا اس کی عادت کے بارے میں معلوم و معروف ہو کہ جب بھی اس کو غصہ آتا ہے عقل زائل ہو جاتی ہے تو قسم کے ساتھ بات مان لی جائے گی اور طلاق واقع نہیں ہوگی

ردالمحتار میں ہے:أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه.

ترجمہ۔شوہر غصے کی حالت میں ہے اوراس کی عقل متغیر نہیں ہے اور وہ اپنے قول اور مقصد کو جانتا ہے تو اس صورت میں طلاق کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی تردد نہیں

(رد المحتار جلد 3 صفحہ 244 دارالفکر بیروت)

امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ شوہر نے بیوی کو غصے کی حالت میں طلاق دی تو کیا حکم ہے اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

” تین طلاقیں ہو گئیں زید گناہ گار ہوا اور عورت ہے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی ۔

 قال الله تعالی (فلا تحل له من بعد حتی تنکح زوجا غيره )

 ترجمہ : تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کے لئے دوبارہ حلال نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ وہ مطلقہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے ۔اور غصہ کا عذر بے کار ہے طلاق غصہ ہی میں ہوتی ہے

(فتاوی رضویہ ، جلد 13 ، صفحہ 371 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

  بہار شریعت میں ہے:  آج کل اکثر لوگ طلاق دے بیٹھتے ہیں بعد کو افسوس کرتے اور طرح طرح کے حیلہ سے یہ فتویٰ لینا چاہتے ہیں کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ایک عذر اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ غصہ میں طلاق دی تھی۔ مفتی کو چاہیے یہ امر ملحوظ رکھے کہ مطلقاً غصہ کا اعتبار نہیں۔ معمولی غصہ میں طلاق ہو جاتی ہے۔ وہ صورت کہ عقل غصہ سے جاتی رہے بہت نادر ہے، لہٰذا جب تک اس کا ثبوت نہ ہو، محض سائل کے کہہ دینے پر اعتماد نہ کرے۔”

  (بہارشریعت، جلد 2، حصہ 8، صفحہ 113، مکتبۃ المدینہ)

ردالمحتار میں غصے کی تین قسمیں بیان کرتے ہوئے دوسری قسم سے متعلق مذکور ہے: والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

ترجمہ۔غصہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے کہ وہ اپنے قول اور ارادے کو نہ جانتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اقوال میں سے کچھ بھی نافذ نہیں ہوگا

(رد المحتار جلد 3 صفحہ 244 دارالفکر بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :“غصّہ مانع وقوعِ طلاق نہیں بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راسًا ابطال ہے، ہاں اگر شدّتِ غیظ و جوشِ غضب اس حد کو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہو جائے، خبر نہ رہے، کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے، تو بیشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز واقع نہ ہوگی، پس صورتِ مستفسرہ میں اگر زید اس حالت تک نہ پہنچا تھا تو صرف غصّہ ہونا اسے مفید نہیں۔اور اگر وہ دعوٰی کرے کہ اس تحریر کے وقت میرا غصہ ایسی ہی حالت کو پہنچا ہوا تھا کہ میری عقل بالکل زائل ہوگئی تھی اور مجھے نہ معلوم تھا کہ میں کیا کہتا ہوں کیا میرے منہ سے نکلتا ہے، تو اطمینانِ ہندہ کے لئے اس کا ثبوت گواہانِ عادل سے دے کہ اگرچہ عندﷲ وہ اپنے بیان میں سچا ہو اور اسے عورت کے پاس جانا دیانتًا روا ہو مگر عورت کو بے ثبوت بقائے نکاح اس کے پاس رہنا ہرگز حلال نہیں ہوسکتا، تو ضرور ہوا کہ زید اپنے دعوٰی پر گواہ دے

یا اگر معلوم و معروف ہے کہ اسے پہلے بھی کبھی اس کی ایسی حالت ہو گئی تھی تو گواہوں کی کچھ حاجت نہیں مجرد قسم کھا کر بیان کرے ورنہ مقبول نہیں۔”

(فتاویٰ رضویہ، جلد 12، صفحہ 383، 384، رضا فاؤنڈیشن)

ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :

“غضب اگر واقعی اس درجہ شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہوگی اور یہ کہ غضب اس شدت پر تھا، یا تو گواہانِ عادل سے ثابت ہو یا وہ اس کا دعوٰی کرے اور اس کی یہ عادت معہود و معروف ہو تو قسم کے ساتھ اس کا قول مان لیں گے ورنہ مجرد دعوٰی معتبر نہیں، یوں تو ہر شخص اس کا ادعا کرے اور غصّہ کی طلاق واقع ہی نہ ہو حالانکہ غالبًا طلاق نہیں ہوتی مگر  بحالتِ غضب.”

(فتاویٰ رضویہ، جلد 12، صفحہ 378، رضا فاؤنڈیشن)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :“سرسام و برسام (بیماریوں کے نام) یا کسی اور بیماری میں جس میں عقل جاتی رہی یا غشی کی حالت میں یا سوتے میں طلاق دے دی تو واقع نہ ہوگی۔ یوہیں اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو واقع نہ ہوگی۔

 (بہارشریعت، جلد 2، حصہ 8، صفحہ 113، مکتبۃ المدینہ)

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

26 محرم الحرام 1443ھ بمطابق 4 ستمبر 2021ء

نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری