لڑتے لڑتے بولا طلاق، طلاق، طلاق

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ شوہر اپنے سالے سے لڑ رہا تھا لڑتے لڑتے اس نے بولا طلاق، طلاق، طلاق تو اس صورت میں طلاق کا کیا حکم ہوگا؟

الجواب

سوال میں بیان کی گئی صورت کے مطابق اگر شوہر نے طلاق کے الفاظ اپنی بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہے ہوں یا کلام میں بیوی کی طرف نسبت نہیں کی لیکن دل میں نیت کی تو طلاق واقع ہوجائے گی وگرنہ نہیں ہوگی۔کیونکہ صرف لفظ طلاق ان الفاظ میں سے ہے جن میں بیوی طرف اضافت کا ہونا ضروری ہے ، اور وہ اضافت والے الفاظ اگر واضح طور پر بیوی کے لیے استعمال کیے جائیں یا واضح طور پر بیوی کے استعمال نہ کیے جائیں لیکن دل میں نیت کرتے ہوئے بولے جائیں تو ہی ان سے طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں  ہے کہ:لا يَقَعُ فِي جِنْسِ الْإِضَافَةِ إذَا لَمْ يَنْوِ لِعَدَمِ الْإِضَافَةِ إلَيْهَا

اضافت والے امور میں جب نیت نہ ہو تو بیوی کی طرف اضافت نہ ہونے پر  طلاق نہ ہو گی

 كتاب الفتاوى الهندية – الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية – جلد 1 ص382 – المكتبة الشاملة

اسی فتاوی ہندیہ میں ایک اور جگہ ہے کہ: سَكْرَانُ هَرَبَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ فَتَبِعَهَا وَلَمْ يَظْفَرْ بِهَا فَقَالَ بِالْفَارِسِيَّةِ بَسّه طَلَاق إنْ قَالَ عَنَيْت امْرَأَتِي يَقَعُ وَإِنْ لَمْ يَقُلْ شَيْئًا لَا يَقَعُ

 ایک نشہ والے سے اس کی بیوی بھاگ ہوگئی، وہ پیچھے بھاگا اور کامیاب نہ ہونے پر اس نے کہا: تین طلاق کے ساتھ ، پس اگر وہ شوہر کہے کہ میں نے اپنی بیوی کی نیت سے طلاق کے الفاظ کہے، تو طلاق واقع ہوگی، اور اگر اس نے کچھ نہ کہا تو طلاق نہ ہوگی

كتاب الفتاوى الهندية – الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية –  جلد 1 ص382 المكتبة الشاملة

 فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے جب ایسے شخص کے بارے میں سوال ہوا جس نےاپنی اپنی بیوی  کا نام لئے بغیر اسکی غیرموجودگی  کے لئے”ایک طلاق، دو۲طلاق، تین طلاق” کے الفاظ استعمال کہے لیکن ”دیتا ہوں”یا”نہیں دیتاہوں” کچھ نہ کہا تو آپ علیہ الرحمہ نے اس کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے جو فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حکم دو طرح ہوتا ہے ایک دیانۃً اور دوسرا قضاءً۔

 دیانۃً حکم کا معنٰی یہ ہے کہ بندے اور اﷲتعالٰی کے درمیان کا معاملہ ہے یہاں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں، بندہ جانےاور اس کا خداجانے اور سوال میں بیان کی گئی صورت میں بیوی کی طرف طلاق کی اضافت کا ارادہ نہ کیا ہو تو قطعاً طلاق نہ ہوئی، کیونکہ طلاق کا وقوع  واقع کرنے کے بغیر نہیں ہوتا اور طلاق کا واقع کرنا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک طلاق کا تعلق بیوی سے نہ کیاجائے اور یہ اضافت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے اضافت ضروری ہے خواہ نیت میں ہو، تو طلاق جب اضافت لفظی یا قلبی سے خالی ہو تو طلاق کا تعلق پیدا نہ ہوگا کیونکہ تعلق بغیر متعلق نہیں ہوسکتا، اس لئے ایقاع نہ ہوگا، تو وقوع بھی نہ ہوگا، اتنی بات واضح ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا. اور قضاءً بھی طلاق کو واقع کرنے کے حکم کے لئے اضافت کا تحقق ضروری ہے

   فتاوی رضویہ جلد 12 صفحہ 336 رضا فاؤنڈیشن

اسی طرح بہار شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ طلاق میں اضافت ضرور ہونی چاہيے بغیر اضافت طلاق واقع نہ ہوگی خواہ حاضر کے صیغہ سے بیان کرے مثلاًتجھے طلاق ہے یا اشارہ کے ساتھ مثلاًاسے یا اُسے یا نام لے کر کہے کہ فلانی کو طلاق ہے یا اُس کے جسم و بدن یا روح کی طرف نسبت کرے یا اُس کے کسی ایسے عضو کی طرف نسبت کرے جو کل کے قائم مقام تصور کیا جاتا ہو۔

   بہار شریعت حصہ 8 مکتبۃ المدینہ

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ

کتبہ   محمد وقاص عطاری

نظر ثانی  ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی

23 محرم الحرام 1443 ہجری