اشٹام فروش کو طلاق لکھنے کا کہا تو طلاق جب تک دستخط نہ کیے جائیں  تب تک نہیں ہوگی

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شوہر نے اشٹام فروش کو طلاق لکھنے کا کہا تو طلاق جب تک دستخط نہ کیے جائیں  تب تک نہیں ہوگی؟

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

شوہر نے اشٹام فروش کو طلاق لکھنے کے بارے میں کہا تو اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک اشٹام فروش طلاق نہیں لکھے گا جیسے ہی اس نے طلاق لکھ دی شوہر اس پر دستخط کرے یا نہ کرے تو طلاق اس صورت میں واقع ہو جائے گی جب شوہر اقرار کرتا ہو کہ یہ طلاق اسی کی جانب سے لکھوائی گئی ہے یا اس پر دلیل قائم ہو جائے کہ یہ طلاق شوہر نے لکھوائی ہے

لیکن اگر اشٹام فروش کے پاس پہلے سے طلاق کا تیار شدہ پیپر ہے تو اس کو شوہر پڑھ کر دستخط کردے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی

ردالمحتار میں ہے ” كتب في قرطاس إذا أتاک کتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في آخر أو أمر غيره بنسخه ولم يمله عليه فأتاها الكتابان طلقت ثنتين قضاء إن أقر أنهما كتاباہ أو برهن “ ترجمہ : کسی شخص نے کاغذ پر لکھا کہ جب تیرے پاس میرا یہ خط آئے تو تجھے طلاق ہے پھر اس نے خود دوسرے کاغذ پر اس کی نقل تیار کی یا کسی اور کو اس کی نقل تیار کرنے کا حکم دیا لیکن خود اس کو املاءنہ کروائی ، اس کے بعد وہ دونوں خط عورت کے پاس پہنچے تو قضاء عورت کو دونوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ شوہر اقرار کر تا ہو کہ یہ دونوں اس کے خط ہیں یا اس کے خط ہونے پر دلیل قائم ہو جائے ۔

 ( رد المحتار ، کتاب الطلاق ، مطلب في الطلاق بالكتابة ، جلد 4 ، صفحہ 442 ، مکتبہ ، کوئٹہ )

جدالممتار میں امام احمد رضاخان علیہ رحمة الرحمن فرماتے ہیں: ” اختلفوا فيما لو امر الزوج بكتابة الصک بطلاقها فقيل يقع وهو اقرار به وقیل هو توكيل فلا يقع حتی یکتب و به يفتي و هو الصحيح في زماننا كذا في القنية “ ترجمہ۔اگر شوہر نے اشٹام فروش کو طلاق لکھنے کا کہا تو ایک قول کے مطابق اسی وقت طلاق ہوجائے گی کہ یہ طلاق کا اقرار ہے اور ایک قول کے مطابق اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک وہ لکھے گا نہیں اس لئے کہ یہ طلاق کا وکیل بنانا ہے اور یہی مفتٰی بہ اور ہمارے زمانے کے لحاظ سے صحیح قول ہے

 ( جد المتار ، کتاب الطلاق ، مطلب في الطلاق بالكتابة ، جلد 4 ، صفحہ 13 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

جدالممتار میں ہے” ثم قد شاع في بلادنا أن أحدهم إذا أراد أن يطلق امرأته دعا الصکاک وأمره أن یکتب طلاق امرأته ثلاثة مثلا فيعظه الناس ويستنزلونه عن الثلاث فيقول سمعا : اكتب طلاقين وہکذا ، وكل ذلك دليل قاطع على أنهم لا يرون بالأمر إلا التوكيل ولا يفهمون منه الإقرار أصلا ، فوجب التعويل على ما في ” القنية ” و ” الأشباه ” وہو المصحح المفتى به “

ترجمہ۔ہمارے شہروں میں یہی معروف ہیں کہ ایک بندہ جس نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا اور اشٹام فروش کو کہا کہ اس کی بیوی کو تین طلاقیں لکھ دے لوگوں نے اس کو سمجھایا کہ تین طلاقیں دینے سے باز رہے اور لوگوں کی بات سنتے ہوئے اس نے اشٹام فروش کو کہا کہ دو طلاقیں لکھ دو یہ اس پر دلیل قطعی ہے کہ یہ طلاق کا وکیل بنانا ہے طلاق کا اقرار نہیں ہے یہی صحیح اور مفتی بہ قول ہے

( جد الممتار ، کتاب الطلاق ، مطلب في الطلاق بالكتابة ، جلد 4 ، صفحہ 22 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

رد المحتار میں ہے:ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة

ترجمہ۔اگر شوہر نے کسی سے طلاق کے بارے میں لکھوایا اور اس نے شوہر پر طلاق کا مضمون پڑھا اور شوہر نے اس پر دستخط کر دیے اور بیوی کی طرف بھیجا وہ پیپر بیوی کے پاس آیا تو طلاق واقع ہو جائے گی اگر شوہر اقرار کرتا ہے کہ یہ اسی کی جانب سے ہے

(ردالمحتار جلد 3 صفحہ 247 دارالفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے : ” تحریر سے طلاق کے ثبوت میں ضرور ہے کہ شوہر اقرار کرے کہ میں نے لکھی یا لکھوائی یاعورت اس پر گواہ پیش کرے ۔ محض اس کے خط سے مشابہ ہونا یا اس کے سے دستخط ہونا یا اس کی سی مہر ہونا کافی نہیں ۔ ہاں اگر عورت کو اطمینان اور غالب گمان ہے کہ یہ تحریر اسی کی ہے تو اس پر عمل کرنے کی عورت کو اجازت ہے مگر جب اس کا شوہر انکار کرے تو بغیر شہادت چارہ نہیں ۔ “

  ( بہار شریعت ، جلد 2 ، حصہ 8 ، صفحہ 115 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

22محرم الحرام 1443ھ بمطابق 31 اگست 2021ء

نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری