کینسر کے مریضوں کے لیے روزے کا حکم

کینسر کے مریضوں کے لیے روزے کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جو لوگ میری طرح کینسر میں مبتلاء ہیں روزہ نہیں رکھ سکتے ان کے لیے روزے کا کیا حکم ہے؟

User ID:علی اکبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ روزے کے سبب کینسر کے بڑھ جانے کا یقین ہو یا کسی ماہر طبیب نے بتایا ہو کہ روزہ رکھیں گے تو مرض کے بڑھنے یا جان جانے کا اندیشہ ہے تو فلحال ان پر روزے رکھنا لازم نہیں البتہ صحت ملنے پر ان پر لازم ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں اور اگر شیخ فانی یعنی 80 سال کی عمر ہو اور روزہ رکھنا ممکن نہیں تو فدیہ دینا ہو گا اور اگر اس سے کم عمر ہو تو تندرستی کا انتظار کرے اور وصیت بھی کر جائے کہ میرے بعد ان روزوں کا فدیہ دیا جائے۔فرمان باری تعالی ہے: اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ ترجمہ: کنزالعرفان:گنتی کے چند دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے . اسکے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:مریض کو بھی رخصت ہے جبکہ اسے روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک ہونے کا اندیشہ ہوتو یہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں ممنوع ایام کے علاوہ اوردنوں میں روزہ رکھ لے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ مریض کو محض زیادہ بیماری کے یا ہلاکت کے صرف وہم کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ کسی دلیل یا سابقہ تجربہ یا کسی ایسے طبیب کے کہنے سے غالب گمان حاصل ہو جو طبیب ظاہری طور پر فاسق نہ ہو۔

(تفسیر صراط الجنان ، سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ286)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔

(بہارِ شریعت ،جلد 1،حصہ5،صفحہ1003،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

4شعبان المعظم 1445ھ/ 15فروری 2024 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں