چھوٹی داڑھی اورکپڑے فولڈ کرنے والوں کے پیچھے نمازپڑھنا

چھوٹی داڑھی اورکپڑے فولڈ کرنے والوں کے پیچھے نمازپڑھنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ زید کسی ایسے بندے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا جس نے پہنچے فولڈ کیا ہوتے ہیں یا داڑھی شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے ساتھی اس کو کہتے ہیں تم قسم اٹھا کر کہو کی ان میں سے کسی کی بھی نماز نہیں ہوئی اور اگر ایسا ہے تو پھر یو اے ای اور ان عرب ممالک میں 90 فیصد کی تو نماز ہوتی ہی نہیں ۔ اگر تم قسم اٹھا دو تو ہم بھی جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے ہم بھی آ ئند ہ ایسی جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھیں گے ۔شرع اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

شرعی طور پر زید کا عمل بالکل درست ہے۔امام لوگوں کی نمازوں کاضامن ہے اور حدیث پاک میں نیک شخص کو امام بنانے کا کہا گیا ہے تاکہ لوگوں کی نمازیں قبول ہوں۔ اگر امام ہی شریعت کے خلا ف افعال کرنے والا ہوگا تو وہ نیک نہیں اور اسے امام بنانا درست نہیں۔

احادیث میں داڑھی رکھنے کا حکم ہے اور حنفی امام کے لیے ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے۔ یونہی حدیث پاک میں نماز میں کپڑے فولڈ کرنے سے منع کیا گیاہے ۔ اب جو امام یہ دونوں افعال کا مرتکب ہویادونوں میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو ،وہ چاہے جس مرضی جگہ کا امام ہو شرعی حکم ایک ہی رہے گا کہ وہ امام بننے کے قابل نہیں۔ اب عرب ممالک تو کیاساری دنیا کے امام صاحبان وہ افعال کریں جو احادیث میں منع ہیں تو حکم سب کے لیے ایک ہوگا۔

لہذا پوچھی گئی صورت میں زید کا قسم کھانا درست ہے کہ جو امام کپڑے فولڈ کرتا ہو یا حنفی امام کی داڑھی ایک مٹھی سے کم ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے جس کو لوٹانا واجب ہے۔ بقیہ احباب کو زید پر ناراض نہیں بلکہ متفق ہوناچاہیے اور صحیح امام کی تلاش کرنی چاہیے تاکہ نمازیں خراب ہونے سے بچائی جاسکیں۔

حاکم مستدرک اور طبرانی معجم میں مرثد ابی مرثد غنوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

”ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم“

ترجمہ:اگر تمہیں اپنی نمازوں کا قبول ہونا خوش کرتا ہو تو چاہئے جو تم میں اچھے ہوں وہ تمہارے امام ہوں کہ وہ تمہارے سفیر ہیں تم میں اور تمہارے رب میں۔ ( المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب ابومرثد الغنوی ،جلد3،صفحہ222، دارالفکر، بیروت )

صحیح بخاری میں ہے:

’’أمرت أن أسجد على سبعة، لا اکف شعرا ولا ثوبا‘‘

ترجمہ:مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور اپنے بالوں اورکپڑوں کو نہ سمیٹوں۔ (صحیح البخاری، جلد1، باب لایکف ثوبہ فی الصلاۃ، صفحہ 163، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

در مختار میں ہے:

” کرہ کفہ“

ترجمہ: کپڑے کو سمیٹنا مکروہِ (تحریمی) ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ، باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها، جلد1، صفحہ 640، دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

اس کے تحت شامی میں ہے:

” حرر الخير الرملي ما يفيد أن الكراهة فيه تحريمية“

ترجمہ : جو علامہ خیر الدین رملی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر کیا ہےوہ اِس فعل کے مکروہِ تحریمی ہونے کو ثابت کرتاہے۔ ( شامی مع در مختار ، باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها، جلد1، صفحہ 640، دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

“کف ثوب” کی ایک صورت یعنی آستینوں کو نصف کلائیوں سے اوپر تک فولڈ کر کے نماز پڑھنے کے متعلق سوال ہوا ،تو آپ نے جواباً لکھا:’’ضرور مکروہ ہے اور سخت وشدیدمکروہ ہے۔ تمام متونِ مذہب میں ہے:’’کرہ کفہ‘‘ ترجمہ:کپڑوں کو لپیٹنا مکروہ ہے۔ لہذا لازم ہے کہ آستینیں اتار کرنماز میں داخل ہو، اگرچہ رَکعت جاتی رہے اور اگرآستین چڑھی نمازپڑھے، تو اعادہ کی جائے۔ کما ھو حکم صلاۃ ادیت مع الکراھۃ کمافی الدر وغیرہ ۔ترجمہ:جیسا کہ ہراس نماز کاحکم ہے جوکراہت کے ساتھ اداکی گئی ہو۔ جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے۔‘‘ملتقطاً(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ309،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

داڑھی سے متعلق بخاری شریف میں ہے:

” عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ“

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے ،تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جومٹھی سے زائد ہوتی ، اسے کاٹ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری، جلد2،صفحہ398 ، مطبوعہ لاهور)

فتح القدیر میں ہے:

” واما الاخذ منھا وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد“

ترجمہ : داڑھی ایک مٹھی سے کم کروانا جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور زنانہ وضع کے مرد کرتے ہیں ، اسے کسی نے بھی مباح نہیں قرار دیا۔ ( فتح القدیر ، جلد2 ، صفحہ 352 ،مطوعہ کوئٹہ )

فتاوی رضویہ میں ہے:

” ایک مٹھی سے کم داڑھی والے کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ، واجب الاعادہ ہے۔۔۔ داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔“ (فتاوی رضویہ ، جلد6 ، صفحہ 603، رضا فاؤنڈیشن ، لاهور)

قسم کے جائز ہونے کہ بارے میں تبیین الحقائق میں ہے:

” وهي مشروعة لأن الله تعالى أقسم وأمر نبيه – صلى الله عليه وسلم – بالقسم فقال تعالى {قل إي وربي إنه لحق} [يونس: 53] ولأن فيها تعظيم أسماء الله وصفاته،،والصحابة كانوا يقسمون فكانت ثابتة بالكتاب والسنة والإجماع۔“

ترجمہ : اور یہ جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرمائی اور اپنے نبی علیہ السلام کو بھی قسم کاحکم دیا “فرما دیجئے میرے رب کی قسم وہ ضرور حق ہے” (سورہ یونس :53) کیونکہ اس میں اللہ عزوجل کے اسماء و صفات کی تعظیم ہے ،اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی قسم کھایا کرتے تھے یہ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے ۔ (تبیین الحقائق، کتاب الأیمان، جلد 3 ، صفحہ 107، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

” قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھاہے کہ قصد و بے قصد زبان سے جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی یہ سخت معیوب ہے ۔“ (بہار شریعت، قسم کا بیان ، جلد 2 ، صفحہ 298، مکتبۃ المدینہ کراچی)

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

9/02/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں