دورانِ حج اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت حج کرے گی یا نہیں؟

دورانِ حج اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت حج کرے گی یا نہیں؟

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت حج پر مکہ میں شوہر کے ساتھ ہو اور شوہر فوت ہو جائے تو کیا عدت میں وہ اپنا فرض حج ادا کرسکتی ہے؟ نیز عدت کہاں اور کیسے گزارے؟ بینوا توجروا۔(بیان فرما کر اجر پائیے۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

پوچھی گئی صورت میں چونکہ عورت عدت وفات کی وجہ سے محصرہ نہیں ہے؛ اس لیے کہ فقہائےکرام نے فرمایا ہے کہ اگر عورت نے احرام باندھ کر شوہر کے ساتھ مکہ معظمہ کے لیے سفر کیا، اور راستے میں شوہر کا انتقال ہوگیا اور مکہ معظمہ کا فاصلہ 92 کلومیٹر سے کم رہے گیا ہے تو اس صورتحال میں عورت محصرہ نہیں ہوگی، اس لیے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر اس کا کوئی محرم ساتھ ہو تو اس کے ساتھ حج پورا کرے، اور اگر محرم ساتھ نہ ہو تو گروپ کی ایسی عورتوں کے ساتھ حج پورا کرے جو خدا ترس اور دیندار ہوں۔ نیز اس عورت کے لیے عدت کا حکم یہ ہے کہ وہیں مکہ معظمہ میں پوری کرے، لیکن چونکہ آج کل سعودی حکومت کے نظام آمد و رفت کے پیش نظر ویزہ ڈیٹ مکمل ہونے پر سفر کرنا ضروری ہے، اس لیے یہاں رہے کر عدت پوری کرنا تو نہایت دشوار ہے؛ اس لیے فقہاے کرام نے دفع حرج و مشقت کے پیش نظر فرمایا کہ مکہ پاک میں ہی فلائٹ کی واپسی والے دن تک عدت گزارے یعنی قیام کے بقیہ دن بھی یہیں گزارے اور پھر عدت کے بقیہ دن اپنے وطن میں پورے کرے، لیکن چونکہ اسکے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے اور اس کا وطن شرعی مسافت پر واقع ہے اس لیے واپس آنے میں تفصیل ہے، پہلی صورت یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہے تو اسکے ساتھ واپس آئے، دوسری صورت یہ ہے کہ محرم ساتھ نہیں ہے تو اگر اسے کسی طرح بلانا ممکن ہے تو اسے بلائے اور اس کے ساتھ جائے، تیسری صورت یہ ہے کہ کسی محرم کو بلانا ممکن نہیں تو آخری صورت یہ ہے کہ گروپ میں موجود ایسی عورتیں کہ جو سمجھدار اور نیک پارسا ہوں ان کے ساتھ واپس آئے، اور اپنے ملک میں جہاں پہلے پہنچ کر عدت گزارنا ممکن ہو وہاں عدت گزارے یا اس سے قریب ترین آبادی میں، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر شوہر کے گھر پہنچ کر عدت کے بقیہ ایام پورے کرے۔

رد المحتار میں ہے:

”فلو أحرمت و ليس لها محرم و لا زوج فهي محصرة كما في “اللباب” و “البحر”. ثم هذا إذا كان بينها و بين مكة مسيرة سفر و بلدها أقل منه أو أكثر لكن يمكنها المقام في موضعها وإلا فلا إحصار فيما يظهر“

ترجمہ: اگر عورت نے احرام باندھ لیا، اور اس کے ساتھ محرم یا شوہر نہیں ہے تو وہ محصرہ ہے جیسا کہ “لباب” اور “بحر الرائق” میں ہے، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ وہاں سے مکہ معظمہ کی مسافت شرعی مسافت (92 کلو میٹر) پر ہو اور اس شہر کی مسافت کم ہو، یا زیادہ ہو لیکن وہاں اس کے لیے ٹھہرنا ممکن ہو۔ اور اگر یہ صورتیں نہ ہوں۔ تو احصار نہیں، یہی ظاہر ہے۔(ردالمحتار، کتاب الحج، باب الاحصار، جلد3، صفحہ5، دار المعرفۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

محقق مسائل جدیدہ، سراج الفقھاء مفتی نظام الدین رضوی مصباحی صاحب لکھتے ہیں:

”فتح القدير باب العدة میں مسئلہ”إذا خرجت المرأة مع زوجها إلى مكة فمات عنها في غير مصر“ کے ضمن میں ہے:

”معناه إذا كان إلى المقصد (أي إلى مكة المعظمة) ثلاثة أيام فصاعداً فإذا كان دونها إلى المقصد لا تتخير بل يتعين عليها الذهاب إلى المقصد أي مكة شرفها ﷲ تعالى)اه“

ترجمہ: عورت نے اپنے شوہر کے ساتھ مکہ معظمہ کا سفر کیا اور شوہر راستے میں ہی کہیں فوت ہو گیا اور مکہ معظمہ کا فاصلہ وہاں سے 92 کلومیٹر سے کم ہے تو عورت پر واجب ہے کہ مکہ شریف چلی جائے۔ (آپ کے مسائل، مسائل حج، ص93، مکتبہ برہان ملت، فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب العدۃ، جلد4، صفحہ168، مطبوعہ: کراچی)

محقق مسائل جدیدہ، سراج الفقھاء مفتی نظام الدین رضوی مصباحی صاحب لکھتے ہیں:

”اس عورت کے لیے عدت وفات باعث احصار نہیں۔۔۔لہذا وہ حج کرے، بعد حج مکہ معظمہ میں عدت گزارے۔“

مزید کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں:

” اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے بے شوہر ومحرم والی عورت کو اس عورت کے جیسی فرمایا ہے جس کا شوہر مکہ معظمہ کے راستے میں فوت ہو جائے، اور اسے حج کی اجازت دی ہے۔ اور بعد حج مکہ معظمہ میں عدت وفات پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس زمانے میں حکومت سعودیہ کے سخت قانون اور اس پر سختی سے عمل کی وجہ سے وہاں پورے زمانہ عدت تک قیام سخت دشوار ہے۔ اور حرج وضرر کا باعث بھی، اس لیے اسے اجازت ہے کہ اپنے ملک میں آکر عدت گزارے اگر یہ ممکن ہو کہ اپنے ملک میں جہاں پہلے پہنچی وہاں عدت گزار سکے یا اس سے قریب ترین آبادی میں تو وہیں عدت گزارے اور یہ بھی دشوار ہو تو ناچار ہے، شوہر کے گھر پہنچ کر عدت کے ایام پورے کرے۔ “(آپ کے مسائل، مسائل حج، ص92-93، ملتقطا، مکتبہ برہان ملت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”اور اگر شوہر ومحرم نہیں رکھتی تو اگر اتنی دور پہنچ گئی کہ مکہ معظمہ تک مدت سفر نہیں مثلا جدہ پہنچ گئی تو اب چلی جائے اور واپس نہ ہو کہ واپسی میں سفر بلا محرم ہے اور وہ حرام ہے۔”وکانت کمن أبانھا زوجھا أو مات عنھا ولو في مصر ولیس بینھا وبین مصرھا مدۃ سفر رجعت ولوبین مصرھا مدۃ وبین مقصدھا أقل مضت“ترجمہ: مثلا اس عورت کو خاوند نے طلاق بائن دے دی یا وہ فوت ہوگیا اگر وہ شہر تھا اور اس عورت اورا س کے وطن کے درمیان مدت سفر نہیں تو وہ عورت لوٹ آئے اور اگر اس کے وطن کے لیے مدت سفر ہو او رمقصد کے لیے مدت سفر کم ہو تو سفرجاری رکھے۔

پھر بعد حج مکہ معظمہ میں اقامت کرے بلا محرم گھر کو واپس آنا بلکہ مدینہ طیبہ کی حاضری ناممکن ہے، یہ وہ عورت ہے جس نے خود اپنے آپ کو بلا میں ڈالا، اس کے لیے چارہ کار نہیں مگر یہ کہ اس کا کوئی محرم جا کر اسے لائے، یوں کہ اس سال وہ جانا چاہتا تھا اس سال گیا یا یوں کہ اس سال تک اس کا کوئی محرم نابالغ تھا اب بالغ ہوا اور لاسکتا ہے، اور یہ بھی نہ ہو تو چارہ کار نکاح ہے نکاح کرے پھر شوہر کے ساتھ چاہے واپس آئے یا وہیں مقیم رہے، اور اگر دونوں طرف مدت سفر ہے توبلا سخت تر ہے اور جانا یا آنا کوئی بھی بے گناہ نہیں ہوسکتا، مگربہ حصول محرم یا تحصیل شوہر، شوہر کے قبضے میں اگر ہمیشہ رہنا نہ چاہے تو اس کا یہ علاج ہے کہ اس شرط پر نکاح کرے کہ میرا کام میرے ہاتھ میں رہے گا جب چاہوں اپنے آپ کو طلاق بائن دے لوں، اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو سب طرف سے دروازے بند ہیں پوری مضطرہ ہے، اگر ثقہ معتمدہ عورتیں واپسی کے لیے ملیں تو مذہب امام شافعی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر عمل کر کے ان کے ساتھ واپس آئے، اور جانے کے لیے ملیں تو انکے ساتھ جائے انھیں کے ساتھ واپس آئے کہ تقلید غیر عند الضرروۃ بلا شبہہ جائز ہے۔ “(فتاوی رضویہ،کتاب الحج، جلد 10، صفحہ707-708، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی علیمیہ ہے:

”ایسی عورت کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جس مکان میں سکونت کے دوران بیوہ ہوئی اس میں عدت وفات پوری کرے۔۔۔۔ مگر آج کل سعودی حکومت کے نظام آمد و رفت کے پیش نظر مدینہ منورہ میں رہے کر عدت پوری کرنا نہایت دشوار ہے اور اپنے وطن آنے میں بھی سخت مشقت ہے لہذا بوجہ دفع حرج و مشقت وہ عورت مکہ مکرمہ جا کر حج ادا کرے اور اگر بعد حج ممکن ہو تو وہیں پر ورنہ بصورت مجبوری اپنے وطن پہلے جس جگہ پہنچ کر عدت گزارنا آسان ہو وہاں گزارے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اب بوجہ ضرورت شوہر کے گھر عدت پوری کرے۔ وﷲ تعالی اعلم۔“(فتاوی علیمیہ، حج کا بیان، جلد1، صفحہ484-485، ملتقطا، مطبوعہ: شبیر برادرز)

فتح القدیر میں ہے:

”وفي “البدائع”…رجعت وبلغت أدنى المواضع اللتي تصلح للإقامة أقامت فيه واعتدت إن لم تجد محرما بلا جلاف وكذا إن وجدت عند أبي حنيفة”“

ترجمہ: ” بدائع الصنائع” میں ہے…عورت لوٹے گی اور جس قریبی جگہ میں اقامت کرنا ممکن ہو وہاں عدت پوری کرے، اگر محرم ساتھ نہ ہو تو بالاتفاق، اور امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک محرم کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔ (فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب العدۃ، جلد4، صفحہ169، ملتقطا، مطبوعہ: مکتبہ حقانیہ، پشاور)

تفہیم المسائل میں ہے:

”حج کے لئے گھر سے روانہ ہوتے وقت عورت کے ساتھ شوہر یا کسی محرم رشتے دار کا رفیق ہونا ضروری ہے، شرعا محرم اس قریبی مرد رشتے دار کو کہتے ہیں، جس کے ساتھ اس عورت کا نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہو اگر اسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے تو مالی استطاعت کے باوجود اس پر حج فرض نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ گھر سے حج کے لئے روانہ ہوتے وقت اس کو شوہر کی رفاقت حاصل تھی ، لہذا اس کا سفر حج شرعاً درست ہے۔ اب اگر حج سے پہلے یا دوران حج قضاء الہی سے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ حج پورا کرے، اگر کوئی اور محرم موجود ہے تو اس کے ساتھ، ورنہ شرعی حجاب کے اہتمام کے ساتھ وہ ایسی عورتوں کے گروپ کے ساتھ ساتھ رہے، جن کے محارم اگر چہ موجود ہیں لیکن وہ خدا ترس اور دین دار ہیں۔ حرمین طیبین میں مقررہ مدت سے زائد اقامت ویسے بھی خلاف قانون ہے اور مومن کے لئے عزت نفس کا تحفظ بھی مقاصد شریعت میں ہے، لہذا جب حسب پروگرام واپس گھر پہنچ جائے تو گھر پر عدت پوری کرے۔“(تفہیم المسائل، کتاب الحج، جلد1، صفحہ 232، مطبوعہ: ضیاء القرآن)

واللہ تعالی أعلم بالصواب

کتبه: ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی

مؤرخہ 19 ذوالحجۃ الحرام 1444ھ بمطابق 08جولائی 2023ء، بروز ہفتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں