کیا بدمذہبوں کا رد کرنا فرقہ واریت ہے؟

کیا بدمذہبوں کا رد کرنا فرقہ واریت ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی بد عقیدہ یا گمراہ فرقوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں رد کرنا فرقہ واریت ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ہدایۃ الحق الصواب

بد عقیدہ لوگوں اور گمراہ فرقوں کے عقائد و نظریات کا رد کرنا فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی تعلیمات ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،صحابہ کرام و علمائے اسلاف نے بدمذہبوں کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے دور رہنے اور لوگوں کو ان کے فتنے سے آگاہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز فرقہ واریت سے مراد یہ نہیں کہ بندہ خود کو اہل سنت بھی کہے تو فرقہ واریت ہے بلکہ جو عقائد و نظریات اہل سنت سے ہٹ کر ہوںوہ فرقہ واریت و گمراہی ہے۔ حنفی،شافعی،حنبلی،مالکی،چشتی،قادری،سہروردی،نقشبندی،اویسی وغیرہ سب عقائد کے لحاظ سے سُنّی ہیں ۔ صحابہ کرام سے لے کر اب تک تمام صحابہ و تابعین ،ائمہ مجتہدین،علماء ،صوفیا، فقہاء رحمہم اللہ نے اہل سنت وجماعت کے حق ہونے کا ہی ارشاد فرمایا ہے ۔

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جامع میں راویت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں

”اذا ظھرت الفتن اوقال البدع فلیظھر العالم علمہ ومن لم یفعل ذٰلک فعلیہ لعنۃ اﷲ والملئکۃ والناس اجمعین لایقبل اﷲ منہ صرفا ولاعدلا “

ترجمہ:جب فتنے یا فرمایا بدمذہبیاں ظاہر ہوں تو فرض ہے کہ عالم اپنا علم ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اورآدمیوں سب کی لعنت، اللہ نہ اس کافرض قبول کرے نہ نفل۔ ( الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع،صفحہ308، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

انوار حدیث میں ہے

”عن انس رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ ﷺ اذا رأیتم صاحب بدعۃ فاکفھروا فی وجھہ فان اللہ یبغض کل مبتدع“

ترجمہ:حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کسی بدمذہب کو دیکھو تو اس کے سامنے ترش روئی سے پیش آؤ اس لیے کہ خدائے تعالیٰ ہر بدمذہب کو دشمن رکھتا ہے۔ (انوار حدیث،کتاب الایمان،صفحہ 89،مکتبۃ المدینہ)

ایک روایت میں ہے

”عن بهز بن حکیم عن ابیه عن جدہ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیه وسلم اترغبون عن ذکر الفاجر متی یعرفہ الناس اذکروا الفاجر بما فیه یحذرالناس“

ترجمہ:حضرت بہز بن حکیم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دادا سے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ فاجر کو برا کہنے سے پرہیز کرتے ہو آخر اسے لوگ کیوں کر پہچانیں گے فاجر کی برائیاں بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچیں۔(انوارالحدیث صفحہ 318مطبوعہ مکتبہ فقیہ ملت دہلی)

امام نووی علیہ الرحکہ فرماتے ہیں

”ان یکون مجاهرا بفسقه او بدعته کالمجاھر بشرب الخمر ومصادرۃ الناس واخذ المکس وجبایۃ الاموال ظلما وتولی الامور الباطلۃ فیجوز ذکرہ“

ترجمہ:سرعام فسق وبدعت کا اظہار کرتا ہو جیساکہ شراب پینا لوگوں پر ظلم کرنا تاوان لینا یا ظلما مال لینا اور دیگر باطل کام کرتا ہو تو اس کے علانیہ گناہوں کا ذکر جائز ہے۔(ریاض الصالحین مترجم جلد دوم کتاب الامور المنھی عنھا صفحہ 282ناشرادبی دنیا دہلی)

مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”بدعقیدہ لوگوں کا ضرر فاسق کے ضرر سے بہت زائد ہے فاسق سے جو ضرر پہنچے گا وہ اس سے بہت کم ہے، جو بدعقیدہ لوگوں سے پہنچتا ہے فاسق سے اکثر دنیا کا ضرر ہوتا ہے اور بدمذہب سے تو دین و ایمان کی بربادی کا ضرر ہے اور بدمذہب اپنی بدمذہبی پھیلانے کے لیے نماز روزہ کی بظاہر خوب پابندی کرتے ہیں،تاکہ ان کاوقار لوگوں میں قائم ہو پھر جو گمراہی کی بات کریں گے ان کا پور ااثر ہوگا، لہٰذا ایسوں کی بدمذہبی کااظہار فاسق کے فسق کے اظہار سے زیادہ اہم ہے اس کے بیان کرنے میں ہر گز دریغ نہ کریں۔ “(بہارِ شریعت،باب زبان کو روکنا اور گالی گلوچ۔۔۔۔الخ،حصہ 16، مکتبۃ المدینہ)

تفسیرابن کثیر میں ہے

’’وہذہ الأمۃ أیضًا اختلفوا فیما بینہم علی نحل کلہا ضلالۃ إلا واحدۃ، وہم أہل السنۃ والجماعۃ، المتمسکون بکتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وبما کان علیہ الصدر الأول من الصحابۃ والتابعین، وأئمۃ المسلمین فی قدیم الدہر وحدیثہ، کما رواہ الحاکم فی مستدرکہ أنہ سئل، علیہ السلام عن الفرقۃ الناجیۃ منہم، فقال ما أنا علیہ (الیوم) واصحابی‘‘

ترجمہ:یہ امت بھی ان (یہود ونصاری ) کی طرح دین کے معاملے میں اختلاف کرے گی ،تمام کے تمام فرقے گمراہ ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے وہ اہل سنت ہوں گے،جو کتاب اللہ اور سنت رسول کو تھامے ہوں گے اور انہی عقائد پر ہوں گے جن پر صدر اول کے لوگ صحابہ کرام ،تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ائمہ مسلمین رحمہم اللہ شروع سے چلے آ رہے ہیں۔حدیث جسے امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نجات والے فرقے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، فی التفسیر،سورۃ الروم ،آیت30،جلد6،صفحہ317،دار طیبۃ للنشر والتوزیع)

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں

’’ عن محمد بن سہل البخاری قال کنا عند القربانی فجعل یذکر أہل البدع فقال لہ رجل لو حدثتنا کان أعجب إلینا فغضب وقال کلامی فی أہل البدع أحب إلی من عبادۃ ستین سنۃ‘‘

ترجمہ:حضرت محمد بن سہل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم امام قَربانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تھے ۔انہوں نے بدعتیوں کا تذکرہ شروع کیاتوایک شخص نے عرض کیا کہ اگر آپ (یہ ذکر چھوڑ کر ہمیں) حدیث سناتے تو ہم کوزیادہ پسند تھا۔ امام قَربانی رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر بہت غصہ ہوئے اورفرمایا: ان بدعتیوں (کی تردید کے بارے )میں میرا کلام کرنا مجھے ساٹھ سال کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (تلبیس إبلیس ،صفحہ16،دار الفکر ، بیروت)

اصول بزدوی میں ہے

’’صاحب الھوی المشھور لیس من الامۃ علی الاطلاق ‘‘

ترجمہ:دین میں جو گمراہی والا مشہور ہو وہ علی الاطلاق امت میں سے نہیں ہے۔ ( اصول بزدوی،باب الاہلیۃ،صفحہ 243،مطبوعہ کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ

قاسم بلال عطاری مدنی

27 رمضان المبارک17 اپریل 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں