نیٹ کیفے کا کاروبار

نیٹ کیفے کا کاروبار

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ زید انٹرنیٹ کیفے بنانا چاہتا ہے، منع کیے جانے کے باوجود وہ مان نہیں رہا؟ سوال یہ ہے کہ آیا نیٹ کیفے بنانا جائز ہے؟ نیز اس کی آمدنی حلال ہے یا حرام ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

مروجہ طریقے پر انٹرنیٹ کیفے چلانا بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے ،اس لیے یہ منع ہے۔ زید کو چاہیے کہ اس کی بجائے کسی اور چیز کی دوکان بنائے، جس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو۔ البتہ نیٹ کیفے سے جو رقم کمائی جائے گی وہ حرام نہیں ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رقم ایسی شے کو کرایے پر دے کر حاصل کی گئی جس کا اچھا اور برا دونوں طرح کا استعمال ہو سکتا تھا، اگر کسی نے غلط استعمال کیا تو اس کا عمل اسی کے سر ہوگا اور اسی کو اس کا گناہ ملے گا، جبکہ دینے والے کو اس بات کا علم نہ ہو کہ یہ اس کا جائز استعمال کرے گا یا ناجائز۔ البتہ اگر اسے کنفرم معلوم ہو کہ یہ اس چیز کا غلط استعمال ہی کرے گا تو اس کا دینا ہی جائز نہیں۔

نیز زید کے لیے یہ کام مطلقا ممنوع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً اس سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے، دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمان نوجوان بھی جو کسی وجہ سے موبائل کا غلط استعمال نہیں کر پاتے وہ یہاں آ کر بے ہودہ کام کرتے ہیں، تو گویا یہ ان کے گناہ پر ان کی مدد کرنا ہوا، جس سے ہمیں قرانِ حکیم میں روکا گیا ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ﴾

ترجمۂ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔(پارہ 6، سورة المائدة 5، آیت نمبر 2)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’برتقدیر اول جبکہ یہ جانتا تھا کہ وہ نالش دروغ کے لئے کاغذ لیتاہے تو اسے اس کے ہاتھ بیچنا معصیت پر اعانت کرنا ہوا جس طرح اہل فتنہ کے ہاتھ ہتھیار اور معصیت پر اعانت خود ممنوع و معصیت۔ قال اللہ عزوجل(اللہ تعالیٰ فرماتاہے ) ” وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ “ (ترجمہ:) آپس میں ایک دوسرے کی مددنہ کرو گناہ اور حد سے بڑھنے پر۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد نمبر 17، صفحه نمبر 149، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وقار ملت مفتی محمد وقار الدین قادری ﷫ (المتوفی: 1413ھ/1993ء) ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی کمائی کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: ’’

ریڈیو اور ٹیلی ویژن مشینی آلات ہیں ۔ ان سے جائز کام بھی لئے جاتے ہیں اور ناجائز کام بھی ۔ یہ صرف حرام کام کے لئے استعمال نہیں ہوتے اور نہ محض غلط کاموں کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ جس طرح چھری اور بندوق وغیرہ جیسے آلات سے جہاد بھی کیا جاتاہے اور اپنے ذاتی کاموں اور شکار میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور انہی سے انسان کو قتل کرنے والا فعلِ قبیح بھی کیا جاتاہے ۔ لہذا جو آلات صرف معصیت کے لئے متعین نہ ہوں ان کا بنانا اور مرمت کرنا جائز ہے ۔ تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مرمت کرنا بھی جائزہے ۔ اسی طرح اس کی مرمت کی اجرت بھی حلال ہے ۔‘‘(وقار الفتاوٰی، جلد نمبر1، صفحہ نمبر219، مطبوعه: بزم وقارالدین ،کراچی)

فقیہ اعظم امام اہل سنت ﷫ امام احمد رضا خان ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:

”اس میں شك نہیں کہ جس کی سکونت سے مسلمانوں کے عقائد یااعمال میں فتنہ وضلال کا اندیشہ وخیال ہو اسے جگہ دینا معاذاﷲ مسلمانوں کو فتنہ پر پیش کرناہے،تو ” یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الْفٰحِشَۃُ “(وہ چاہتے ہیں کہ فحاشی پھیلے۔)حقیقۃ نہ سہی اس کی طرف منجر ہے۔” وانما الدین النصح لکل مسلم” دین تو یہی ہے کہ سب مسلمانوں کی خیر خواہی کیجئے۔وباﷲ التوفیق۔“(فتاوی رضویہ، کتاب الوکالۃ، جلد نمبر 19، صفحه نمبر 442، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاہور)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

21 شوال المکرم 1444ھ / 12 مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں