توبہ کی شہرتِ کاذِبہ(جھوٹی شہرت) کے متعلق اہم معلومات

توبہ کی شہرتِ کاذِبہ(جھوٹی شہرت) کے متعلق اہم معلومات

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کوئی شخص چاہے عالم ہویا پیر یا شاعر اس سے کفر سرزد جائے، پھر اس سے اس کفر کے متعلق توبہ ثابت نہ ہو اور وہ مرجائے ،اس کے بعد لوگوں میں یہ مشہور ہوجائے کہ اس نے توبہ کرلی تھی لیکن کوئی ثبوت نہ ہو تو اس کو علمائے کرام نے شہرتِ کاذبہ فرمایا ہے اور اس مرنے والے کے متعلق احتیاطا کفر کے حوالے سے سکوت کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شہرت کاذبہ کے سبب سکوت کوئی اب کا خود ساختہ قانون ہے یا اصل محققین و مقتدیان اہل سنت کے یہاں سے بھی اس کاثبوت ملتا ہے؟

کیا مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کی آنے والی عبارت کے تحت شہرت کاذبہ کے سبب سکوت باطل ہونا ثابت ہورہاہے؟حاشیہ الموت الاحمر میں ہے:” تکلم میں احتمال یہ ہے کہ جس کی طرف وہ کلام منسوب ہو اس سے اس کے ثبوت میں تامل ہو تو کلام اگرچہ یقینا جزما کفر ہو اس شخص کو کافر نہ کہیں گے کہ اس کا تکلم ثابت نہیں۔اور متکلم میں احتمال یہ کہ اس کلام سے اس کی توبہ و رجوع مسموع ہو یہ اگر بہ ثبوتِ قطعی ثابت ہو جب تو ظاہر کہ اس کی تکفیر حرام بلکہ بفتوائے کثیر فقہاء خود کفر اور ایسا ثبوت ہو کہ مُتَرَدِّدکردے جب بھی قائل کے بارے میں کفِ لسان درکار اگرچہ قول کفر صریح ناقابل تاویل ہو، حدیث کا ارشاد ہے ”کیف وقد قیل ” اور اگر نری افواہ بے سروپا یا کن فیکون کے بعد ا سکے بعض ہوا خواہوں کا مکابرانا اِدِّعاہوتواس پر التفات نہ ہوگا۔فاحفظ)“(حاشیہ الموت الاحمر علی کل انجس اکفر، ص 58) سائل: محمد خرم قادری (لاہور)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

شہرتِ کاذِبہ کے سبب سکوت کرناآج کا خود ساختہ موقف نہیں بلکہ اکابرین علمائے اہل سنت سے ثابت ہے۔ اسماعیل دہلوی کے متعلق ہمارے اکابرین نے سکوت کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے۔ چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں:

حضور قبلہ حافظ ِملت عبدالعزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”العذاب الشدید“ میں لکھتے ہیں:

”مولوی اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے سکوت کی ایک وجہ تو اوپر گزری، دوسری وجہ یہ ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب کے اقوالِ کفریہ خبیثہ سے ان کی توبہ مشہور ہے۔چنانچہ فتاویٰ رشیدیہ ُمبوَّب حصہ اول ص 121پر مولوی رشید احمد گنگوہی کا مستفتی لکھتا ہے:” ایک بات یہ مشہور ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب شہید نے اپنے انتقال کے وقت بہت سے آدمیوں کے روبرو بعض مسائلِ تقویۃ الایمان سے توبہ کی ہے۔”

گنگوہی صاحب نے اس شہرتِ توبہ کا انکار نہیں کیا ،بلکہ شہرتِ توبہ کو شہرتِ کا ذِبہ ٹھہرایا،چنانچہ صفحہ123 پر لکھتے ہیں:”توبہ کرنا انکا بعض مسائل سے محض افتراء اہلِ بدعت کا ہے۔”

جب گنگوہی صاحب خود مانتے ہیں کہ بدعتیوں نے مولوی اسماعیل پر افتراء کرکے یہ شہرت دے دی ہے کہ انہوں نے اپنے کفریات سے توبہ کرلی تھی، توشہرت حاصل ہو گئی، اب اس شہرت توبہ کی موجودگی میں احتیاط یہی ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے احتیاطاً کفِ لسان کیا جائے مگر ان کے اقوالِ کفریہ خبیثہ ملعونہ کو کفر و ضلال ہی کہا جائے گا، اعلیٰ حضرت و علمائے اہل سنت نے یہی کیا کہ ان اقوالِ کفریہ کو کفر و ضلال کہا اور شہرتِ توبہ کے شبہ کی بنا پر مولوی اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے کفِ لسان فرمایا، یہ دوسری وجہ بھی تکفیر سے سکوت کے لیے کافی اور نہایت معقول ہے۔اس کو جاہلانہ تاویل بتانا دیوبندی رہبر کی سخت جہالت اور نری عداوت ہے۔“(العذاب الشدید المعروف الدیوبندیت ،ص240،مکتبہ فکر رضا،کھیوڑہ)

خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ اللہ الہادی اپنی کتاب ” اَطیبُ البیان “ میں تحریر فرماتے ہیں:

”تقویۃ الایمان کے کثیر کفریات مذکور ہوچکے ، حضراتِ انبیاء اور سید المرسلین علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام کی توہین و تنقیض کے کلمات اور بے ادبانہ بدگوئیوں اور گستاخیوں سے کتاب بھری ہوئی ہے، ایسے کلمات بے شک کفر ہیں۔ شفاء شریف جلد2 صفحہ 237 میں ہے:”اَن جمیع من سبّ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم او عابہ او الحق بہ نقصافی نفسہ او دینہ او خصلۃ من خصالہ او عرض بہ اوشبہہ بشئی علی طریق السب لہ اوالاذراء علیہ اوالتصغیر لشانہ اوالنقص والعیب لہ فہو ساب لہ والحکم فیہ حکم السابّ”

لیکن چونکہ اسماعیل دہلوی کی نسبت یہ مشہور تھا کہ اس نے اپنے ان تمام اقوال سے توبہ کرلی تھی اس لیے علمائے محتاطین نے اس کوکافرکہنے سے احتیاطاًزبان روکی اوراقوال کوکفروضلال بتایا۔اس کا تو اللہ کو علم ہے کہ اس نے واقع میں توبہ کی تھی یا نہیں اگرچہ آجکل کے وہابیہ جو اس کے کفریات کی حمایت و ترویج کرتے ہیں وہ توبہ کے منکر ہیں۔۔۔لیکن جن علماء نے سنا کہ اس کی نسبت توبہ کی شہرت ہے انہوں نے احتیاط کی اور مفتی کو ایسا ہی چاہیے ۔“(اطیب البیان فی رد تقویۃ الایمان، صفحہ 339،340، جماعت رضائے مصطفے،نارووال)

شیر بیشۂ اہلسنت خلیفہ اعلیٰ حضرت مفتی حشمت علی خان لکھنوی علیہ الرحمۃ پردورانِ مناظرہ منظور سنبھلی نے یہ اعتراض کیا کہ:”مولوی صاحب نے تقویۃ الایمان کی عبارت پڑھ کر حضرت مولانا اسماعیل شہید کا کفر ثابت کیا ہے مگر آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے اعلیٰ حضرت تو ان کو مسلمان کہتے ہیں اب وہی منطق چلائیے اگر آپ سچے ہیں تو اعلیٰ حضرت کافر کو مسلمان کہہ کر کافر ہو گئے اور اگر اعلیٰ حضرت سچے ہیں تو آپ مسلمان کو کافر کہہ کر کافر ہوگئے۔”

اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مفتی حشمت علی خان لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

”یہ بھی بالکل جھوٹ ہے کہ حضور اعلیٰ حضرت قبلہ رضی اللہ عنہ نے اسماعیل کو مسلمان کہا ہے ہر گز نہیں بلکہ اس کو کافر کہنے سے زبان روکی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہے ، اگرچہ وہ شہرت فی نفسہا غلط ہو مگر اُس شہرت کاذِبہ سے بھی شبہ پیدا ہوگیا۔ اور تکفیر کے لیے ” قطع و یقین” درکار ہے۔ احتیاط کی وجہ سے بھی تکفیر سےکف لسان کرنے والا اگر آپ کے نزدیک کافر ہے تو یہ دیکھیے آپ کے پیشوا رشید احمد گنگوہی اپنے فتاوے رشیدیہ حصہ اول مطبوعہ ہندوستان پرنٹنگ ورکس وہلی کے صفحہ نمبر 38 پر لکھتے ہیں: بعض آئمہ نے جو یزید کی نسبت کفر سے کف لسان کیا ہے وہ احتیاط ہے۔ اب گنگوہی صاحب پر لگائیے کفر کا فتوی کے یزید کی تکفیر سے بوجہ احتیاط کف لسان کرتے ہیں۔“ (روئیداد مناظرہ ادری ص 198)

یہی احتمال حضور قبلہ سیدی محدث اعظم پاکستان مفتی سردار احمد صاحب علیہ الرحمہ نے بھی مناظرہ بریلی کے اندر بیان فرمایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:

”اعلی حضرت نے آپ کے اسماعیل دہلوی کے ستر کفریات ”الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیہ“ میں بیان کیے ،مگر مولوی اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہونے کی بنا پر کافر کہنے سے احتیاط برتی۔بے شک اعلی حضرت قبلہ نہایت احتیاط برتنے والے تھے اور متبع شریعت و عالم دین کی یہی شان ہونی چاہیے۔۔۔۔جس شخص سے کفریات صادر ہوں اور اس کی توبہ کی شہرت ہو اس کو کافر کہنے سے زبان روکنا احتیاط ہے۔“ (روئیدادمناظرہ بریلی ص،صفحہ287،288، مکتبہ سعیدیہ جامعہ قادریہ رضویہ)

باقی جو سوال میں مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت” اور اگر نری افواہ بے سروپا یا کن فیکون کے بعد ا سکے بعض ہوا خواہوں کا مکابرانا اِدِّعاہوتواس پر التفات نہ ہوگا۔فاحفظ)”پیش کی گئی ہے ۔ اس سے شہرت کاذبہ کے سبب کافر کہنے میں سکوت کی نفی نہیں ہورہی ہے بلکہ یہ صورت وہ ہے کہ جب اس کفربولنے والی کی توبہ کی شہرت نہ ہو بلکہ ایک دو افراد اس کی افواہ پھیلارہے ہوں۔جیساکہ آپکی عبارت ”ا سکے بعض ہوا خواہوں کا مکابرانا اِدِّعاہو“سے واضح ہے ۔

فتاوی مفتی اعظم میں مولانا مفتی حافظ عبدالحق رضوی مصباحی رحمۃ اللہ علیہ مفتی اعطم ہند کے فرمان کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”شبہ فی المتکلم: یہ ہے کہ کفری کلام بولنے والے نے توبہ کرلی ہے،مگر توبہ کا ثبوت شرعی نہ ہو۔ اگر یہ ثبوت قطعی ثابت ہو جائے تب ا س کی تکفیر ہرگز نہ ہوگی اور اگر ایسا ثبوت ہو جو متردد کردے جب بھی قائل کے بارے میں کف لسان واجب ہوگا۔اگرچہ قول کفر صریح ناقابل تاویل ہو۔ اور اگر محض افواہ ہوکہ اس کے بعض ہوا خواہوں نے اڑادی ہے تو اس پر التفات نہ ہوگا۔۔۔۔اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسماعیل دہلوی کی صرف تکفیر لزومی فقہی فرمائی اور تکفیر التزامی کلامی سے کیوں احتراز اور کف لسان فرمایا۔ اس کی رقم الحروف کے نزدیک علمائے اہل سنت کی کتابوں سے مطالعہ سے صرف دو وجہ سمجھ آتی ہے،جس کو ہدیہ ناظرین کررہاہوں۔

پہلی وجہ: اسماعیل دہلوی کی عبارتیں معانی کفریہ میں تحذیر الناس ،براہین قاطعہ اور حفظ الایمان کی طرح متعین نہیں ہیں۔ اگرچہ معانی کفریہ میں متبین اور لزوم کفر میں ظاہر ہیں۔ اور تاویل بعید میں ممکن ہے۔

دوسری وجہ: اسماعیل دہلوی کی توبہ کی شہرت ہے۔ اگرچہ یہ شہرت ثبوت شرعی کو نہیں پہنچی لیکن پھر بھی شبہ فی المتکلم کی وجہ سے اجتناب کیا اور کف لسان ہی کو اپنا مسلک و مختار ٹھہرایا۔ لیکن اسکا یہ بھی مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کو مسلمان بتایا،بلکہ مثل یزید اس کے کفر و اسلام سے سکوت ہی کو احوط قرار دیا۔“(فتاوی مفتی اعطم،جلد7،صفحہ23۔۔۔،شبیر برادرز،لاہور)

مفتی عبدالحق رضوی صاحب کی تشریح سے مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کا کلام بالکل واضح ہوگیا کہ آپ توبہ کی شہرت جو صادقہ نہیں بلکہ کاذبہ ہے یعنی ثابت نہیں ہے اس کو تیسرے درجے میں لارہے ہیں اور اس پر سکوت فرمارہے ہیں۔

اشکال: توبہ کی شہرت کاذبہ سے سکوت ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ کالعدم ہے۔ پرانے وہابیوں کے اعتقاد کے مطابق دہلوی کی توبہ کی شہرتِ شہرت صادقہ ہے۔اور وہابیوں دیوبندیوں کا اعتراض تھا کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز تنقیص نبوی کے باوجود دہلوی کو کافر نہیں مانتے ہیں۔پس پرانے وہابیہ کے اعتقاد کے مطابق دہلوی کی شہرت توبہ کو شہرت صادقہ فرض کر کے علمائے اہل سنت نے الزامی جواب دیا گیا کہ جب تمہارے بقول دہلوی نے توبہ کر لی تھی تو اس شہرت توبہ کے سبب اس کی تکفیر نہیں کی گئی۔لیکن الزامی جواب پرانے وہابیہ کے قول کے مطابق دیا گیا ہے۔ الزامی جواب خصم کے مسلمات کے مطابق دیا جاتا ہے۔دہلوی کی شہرت توبہ کے ذریعہ سب سے پہلے الزامی جواب حضور صدر الافاضل قدس سرہ العزیز نے اطیب البیان میں دیا ہے۔انہوں نے رقم فرمایا ہے کہ پرانے وہابی کہتے تھے کہ دہلوی نے تمام کفریات سے توبہ کر لیا تھا اور بعد کے وہابیہ اس توبہ کا انکار کرتے ہیں۔

جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ وہابیوں کے پرانے علماء سے بھی توبہ کی شہرت صادقہ ثابت نہیں۔تفصیل اس میں یہ ہے کہ صدرالافاضل کے ارشاد سے یہ ثابت ہی نہیں ہورہا کہ انہوں نے پرانے وہابی مولویوں سے توبہ کی شہرت صادقہ کا لکھا ہے ہو۔ ان کا فرمان ملاحظہ ہو:

”اس کا تو اللہ کو علم ہے کہ اس نے واقع میں توبہ کی تھی یا نہیں اگرچہ آجکل کے وہابیہ جو اس کے کفریات کی حمایت و ترویج کرتے ہیں وہ توبہ کے منکر ہیں۔“

اس میں صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ واضح فرمارہے کہ یہ پتہ نہیں اس نے توبہ کی ہے یا نہیں اگرچہ موجودہ وہابی اسکے منکر ہیں۔ یعنی یہ تو آپ نے فرمایا ہی نہیں کہ پرانے وہابیوں سے شہرت صادقہ ثابت ہے بلکہ آپ نے لاعلمی ہی کا اظہار کیا ہے کہ توبہ مشہور ہے اللہ بہتر جانتا ہے کی ہے یا نہیں کی۔

نیز حضور قبلہ حافظ ِملت عبدالعزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”العذاب الشدید“ میں فرمارہے ہیں:

”جب گنگوہی صاحب خود مانتے ہیں کہ بدعتیوں نے مولوی اسماعیل پر افتراء کرکے یہ شہرت دے دی ہے کہ انہوں نے اپنے کفریات سے توبہ کرلی تھی، توشہرت حاصل ہو گئی، اب اس شہرت توبہ کی موجودگی میں احتیاط یہی ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے احتیاطاً کفِ لسان کیا جائے ۔“(العذاب الشدید المعروف الدیوبندیت ،ص240،مکتبہ فکر رضا،کھیوڑہ)

یہاں بالکل واضح طور پر قبلہ حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ وہابیوں کی توبہ صادقہ کا نہیں بلکہ شہرت کاذبہ کا ہی ذکرکرکے اس پر سکوت فرمارہے ہیں۔

نیز شہرت صادقہ یہ نہیں ہوتی کہ وہابی کہہ رہے ہیں تو اس کو شہرت صادقہ کہہ دیا جائے ۔شہرت صادقہ یہ ہے کہ یقینی طور پر کئی عادل لوگوں کی نسبت مشہورہوکہ ان کے سامنے توبہ کی ہے اوران حضرات سے اس کی تائید ثابت ہو۔ ورنہ جن کی نسبت یہ مشہور ہے وہ فاسق ، بدمذہب یا کافرہوں اگرچہ کثیر ہوں اس کا اعتبار نہیں ہوتا۔فتاوی تتارخانیہ میں ہے

”ذمی مات فشہد عشرۃ من النصاریٰ انہ اسلم لایصلی علیہ بشھادتہم وکذا لو شہد فساق من المسلمین “

ترجمہ:ذمی مر ا اور دس عیسائیوں نے گواہی دی کے یہ مسلمان ہوگیا تھا تو ان عیسائیوں کی گواہی پر اس مرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ،اسی طرح مسلمانوں میں سے فساق کی گواہی پر بھی نہیں پڑھی جائے گی۔ (الفتاوٰی التتارخانیۃ،کتاب الشہادۃ،الفصل شہادۃ اہل الکفر،جلد12،صفحہ40،مکتبہ فاروقیہ،کوئٹہ)

المحیط البرہانی میں ہے

”رجل من أہل الذمۃ مات فشہد مسلم عدل أو مسلمۃ أنہ أسلم قبل موتہ وأنکر أولیاؤہ من أہل الذمۃ ذلک، فمیراثہ لأولیائہ من أہل الذمۃ بحالہ وإنہ ظاہر، قال: وینبغی للمسلمین أن یغسلوہ ویکفنوہ ویصلون علیہ۔۔۔وشہادۃ الفساق من المسلمین علی إسلامہ لا تقبل ولا یصلی علیہ بشہادتہم“

یعنی ذمی میں سے کوئی شخص مرگیا اور مسلمان عادل مردیا عادلہ مسلمان عورت نے گواہی دی کہ اس نے موت سے قبل اسلام قبول کرلیا تھا اور مرنے والے کے ذمی اولیاء نے اسلام قبول کرنے کا انکار کیا تووراثت اولیاء کے لئے ہوگااورمسلمانوں کے لئے واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور کفن پہنا کر اس پر نماز پڑھیں۔ مسلمانوں میں فساق کی شہادت کافر کے اسلام پر قبول نہیں ہوگی اور اس شہادت کی وجہ سے کافر پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔(المحیط البرہانی ،کتاب الشہادات،الفصل الحادی عشر فی شہادۃ أہل الکفر والشہادۃ علیہم،جلد8،صفحہ412،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

نیز وہابیوں کوچپ کروانے کے لیے توبہ کی شہرت کا تو تب کہا جاتا کہ وہ مناظروں میں اس کا اقرار کررہے ہوتے کہ اسماعیل دہلوی نے توبہ کی ہے ۔وہ تو اس کا انکارکرتے ہیں اور اعتراض یہ کرتے ہیں کہ جب فضل حق خیر آبادی نے تکفیر کی ہے تو اعلی حضرت امام احمد رضانے کیوں سکوت کیا ہے؟اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ کسی وجہ سے سکوت کرنے پر مفتی پر ہی کفر کا حکم نہیں آتا تمہارے مولویوں نے بھی سکوت کیا ہے جیسا کہ مفتی حشمت علی خان لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

” احتیاط کی وجہ سے بھی تکفیر سےکف لسان کرنے والا اگر آپ کے نزدیک کافر ہے تو یہ دیکھیے آپ کے پیشوا رشید احمد گنگوہی اپنے فتاوے رشیدیہ حصہ اول مطبوعہ ہندوستان پرنٹنگ ورکس وہلی کے صفحہ نمبر 38 پر لکھتے ہیں: بعض آئمہ نے جو یزید کی نسبت کفر سے کف لسان کیا ہے وہ احتیاط ہے۔ اب گنگوہی صاحب پر لگائیے کفر کا فتوی کے یزید کی تکفیر سے بوجہ احتیاط کف لسان کرتے ہیں۔“ (روئیداد مناظرہ ادری ص 198)

دوسری بات یہ ہے کہ علمائے اہل سنت نے فقط مناظروں میں ہی مخالف کو چپ کروانے کے لیے یہ الزامی جواب نہیں دیا بلکہ اس کے علاوہ بھی اپنی کتب و فتاوی میں یہ علت بیان کی ہے کہ اس کی توبہ مشہور ہوچکی تھی چنانچہ فقیہ ملت میں ہے:

”چونکہ علامہ فضل حق خیر آباد ی علیہ الرحمۃ والرضوان کا وصال 1278ھ میں ہوا اور اس وقت تک اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور نہیں ہوئی تھی،جس کی بنا پر آپ نے اس کی تکفیر فرمائی برخلاف اس کے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ربہ القوی کی ولاد ت 1272ھ میں ہوئی اور آپ کا وصال 1340ھ میں ہو ا اس وقت تک اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہوچکی تھی اس لیے آپ نے احتیاطا اس کی تکفیر سے کف لسان فرمایا۔“ (فتاوی فقیہ ملت،جلد1،صفحہ40،شبیر برادرز،لاہور )

فتاوی بریلی میں ہے:

” اسماعیل دہلوی کی گمراہی و بددینی تقویۃ الایمان سے واضح ہے بہت سے کفریات اس میں مذکور ہیں توہین انبیاء کرام و اولیاء عظام کا وہ مرتکب ہے مگر ان کی توبہ کی بھی خبر ہے لہذا ان کو کافر کہنے سے توقف کیا گیا ہے۔“ (فتاوی بریلی ،صفحہ 307،شبیر برادرز،لاہور)

فتاوی شارح بخاری میں مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ کا اسماعیل دہلوی کے بارے میں جو ارشاد ہے اس میں اس کا بھی احتمال ہے کہ دہلوی کی توبہ مشہور ہونے کی وجہ سے کف لسان فرمایا اور یہ صحیح ہے کہ اعلی حضرت قدس سرہ کے عہد مبارک میں اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہوئی تھی جس کا ثبوت فتاوی رشیدیہ ص: 84/85 کا سوال و جواب ہے۔ اگرچہ گنگوہی صاحب نے اسے یہ کہہ کر اڑا دیا بدعتیوں کا ہے مگر سوال سے ظاہر ہے کہ اسماعیل کی توبہ مشہور تھی مقام احتیاط میں کافر کہنے سے کف میں عوامی شہرت کافی ہے۔واللہ تعالی اعلم۔“ (فتاوری شارح بخاری،جلد3،صفحہ319،برکات المدینہ ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

12محرم الحرام 1445ھ31جولائی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں