امیر اہل سنت کی عید الفطر کے حوالہ سے لکھی عبارت پر اعتراض اور اس کا جواب

امیر اہل سنت کی عید الفطر کے حوالہ سے لکھی عبارت پر اعتراض اور اس کا جواب

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ امیر اہل سنت و بانی دعوت اسلامی کےمولانا محمد الیاس عطار قادری صاحب نے اپنی کتاب ” فیضان سنت(پرانی)“ میں عید الفطر کے بیان میں ایک عنوان قائم کیا گیا ہے ”ہم عید کیوں نہ منائیں؟“ اس کے بعد لکھا ہے : ”دیکھیے نا! جب کوئی مُلک کسی ظالم بادشاہ کے چُنگل سے آزادی پاتا ہے تو ہر سال اسی ماہ کی اسی تاریخ کو اس کی یادگار کے طور پر جشن منایا جاتا ہے۔“

بعض مولوی حضرات کہتے ہیں کہ یہ عبارت شرعا درست نہیں کہ اس عبارت میں ہر طرح کے ظلم سے پاک اللہ پاک کی حکومت کوظالم حکومت جیسا کہا ہے، کیوں کہ رمضان کے روزوں کا حکم اللہ پاک کا حکم ہے اور سارے شرعی احکامات نافذ کرنے کی حکومت اللہ پاک کی حکومت ہے، تو اس تشبیہ والی عبارت میں اللہ پاک کی حکومت مشبہ اور ظالم حکومت مشبہ بہ ہے، اور وجہ شبہ ظالم حکومت کے ظالمانہ احکامات کی طرح پورے رمضان کے مہینے کے روزوں کی مشقت ہے، اور اللہ پاک اور اس کی حکومت تو ہر طرح کے ظلم سے پاک ہے۔

آپ دلائل کی روشنی میں معترضین کا جواب عطا فرمادیں۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

امیر اہل سنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو ایمان کی حفاظت کی بہترین انداز میں ترغیب دی اور کفریہ کلمات سے بچنے کا ایسا ذہن دیا جو بلاشبہ ایک تجدیدی کام ہے۔ اس عظیم ہستی کے متعلق یہ بہتان لگانا کہ انہوں نے گستاخانہ عبارت لکھی ہے یہ کم علمی و بُغض ہی ہوسکتاہے۔

اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ سوال میں مذکور عبارت میں ادنیٰ سی بھی گستاخی نہیں ہے اور نہ ہی اس عبارت میں تشبیہ و نظیر ہے۔ سوال میں مذکور معترض کی عبارت غلط و باطل ہے۔

اعتراض کرنے والے نے ڈنڈی مارتے ہوئے امیر اہل سنت کی مکمل عبارت پیش نہیں کی۔ مکمل عبارت یہ تھی:

دیکھیے نا! جب کوئی مُلک کسی ظالم بادشاہ کے چُنگل سے آزادی پاتا ہے تو ہر سال اسی ماہ کی اسی تاریخ کو اس کی یادگار کے طور پر جشن منایا جاتا ہے۔نیز جب کوئی طالِبِ عِلْم امتِحان میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کس قَدَر خوش ہوتا ہے ۔ ماہِ رَمَضانُ الْمُبَارَک کی بَرَکتوں اور رَحمتوں کے توکیا کہنے !یہ تو وہ عظیمُ الشَّان مہینہ ہے ۔ جس میں بَنی نَوعِ انسان کی فَلاح وبَہبودی ، اِصلاح وتَرقّی اور نَجات اُخرَوی(اُخْ۔رَ ۔ وی)کیلئے ایک ” خُدائی قانون“یعنی قُرآنِ مجِید نازِل ہوا ۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر مُسلمان کی حَرارتِ اِیمان کا اِمتِحان لیا جاتا ہے۔پس زندَگی کا ایک بِہترین دستُور الْعَمل پاکر اور ایک مہینے کے سَخت اِمتِحان میں کامیاب ہوکر ایک مسلمان کا خوش ہونا فِطری بات ہے۔“

اس مکمل عبارت کو مدنظر رکھا جائے تو بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں کوئی غیر شرعی بات نہیں بلکہ ایک مثال کے ذریعے فطری خوشی کو ثابت کیا ہے۔

مزید وضاحت کے لئے تشبیہ کے مطلب و غرض کو بیان کیا جاتا ہے:

تشبیہ کا لفظ’’شبہ‘‘سے نکلا ہے جس کے معنی ’’مماثل ہونا‘‘کے ہیں۔ علم بیان کی اصطلاح میں جب کسی ایک شے کی کسی اچھی یا بری خصوصیت کو کسی دوسری شے کی اچھی یا بری خصوصیت کے ہم معنی قرار دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں:

1۔وہ شے جسے کسی دوسری شے سے تشبیہ دی جائے ،اسے مشبہ کہتے ہیں۔

2۔وہ شے جس کے ساتھ تشبیہ دی جائے، مشبہ بہ کہلاتی ہے۔

3۔وہ مشترک صفت جو مشبہ اور مشبہ بہ میں پائی جائے، اسے وجہ شبہ کہتے ہیں۔

4۔غرضِ تشبیہ وہ مقصد جس کی خاطر تشبیہ دی جائے۔

5۔حرفِ تشبیہ وہ حرف جسے تشبیہ دینے کے لیے استعمال کیا جائے مثلا سا، ہی، طرح ، وغیرہ وغیرہ۔

مثال:

’’آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ

دم دے نہ جائے ہستیء ناپائیدار دیکھ‘‘

اس شعر میں انسان مشبہ، شرار مشبہ بہ، مثال حرف تشبیہ، ناپائیداری وجہ شبہ اور زندگی کی ناپائیداری کو واضح کرنا غرض تشبیہ ہے۔

امیر اہل سنت کی عبارت ایک مثال ہے۔مثال کہتے ہیں کسی شے کو اس کے غیر کے ساتھ جانچنا اورپرکھنا۔یہ ضروری نہیں کہ ہر مثال میں تشبیہ ہو ۔مثال میں غرض یہی ہوتی ہے کہ مثال عمدہ پیرائے میں بیان کرکے کسی کام کرنے کی ترغیب دلانا اور اس کی خوبیوں کو احسن انداز میں بیان کرنا تاکہ قاری (پڑھنے والا )آسانی سے سمجھ کر اس کی طرف راغب ہو۔ یا مثال اس لئے دی جاتی ہے کہ کسی فعل سے نفرت دلانا اور اس کی برائیوں کو کھول کربیان کرنا تاکہ قاری اس سے نفرت کرنے لگے۔تعظیم قدر الصلاۃ میں ابو عبد اللہ محمد بن نصر بن حجاج مَرْوَزِی (متوفی:294ھ)روایت کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا

”فإن مثل من أشرک باللہ کمثل رجل اشتری عبدا لہ من خالص مالہ بذہب أو ورق ثم أسکنہ دارہ، وقال: اعمل وارفع إلی، فجعل العبد یعمل ویرفع إلی غیر سیدہ، فأیکم یرضی أن یکون عبدہ کذلک؟ وإن اللہ خلقکم ورزقکم فلا تشرکوا بہ شیئا‘‘

یعنی جو اللہ( عزوجل )کے ساتھ کسی کو شریک کرے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کسی غلام کو اپنے مال سونے یا چاندی سے خریدے ،پھر اسے اپنے گھر رکھے ،اس غلام سے کہے کام کر اور کمائی مجھے لاکر دے۔اب غلام کام کرے اور کمائی کسی دوسرے آقا کو دے تو کیا اس غلا م کا آقا اس سے راضی ہوگا؟ بے شک اللہ ( عزوجل ) نے تمہیں پیدا کیا ہےاور تمہیں رزق دیتاہےلہذا کسی دوسرے کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو۔(تعظیم قدر الصلاۃ،جلد1،صفحہ177،مکتبۃ الدار،المدینۃ المنورۃ)

اب یہاں آقا کو رب تعالیٰ سے تشبیہ نہیں دی جارہی بلکہ مثال کے ذریعے شرک سے بچایا جارہا ہے۔

پھر اگر اس عبارت کو تشبیہ بھی بنایا جائے تو اس میں تشبیہ من کل الوجوہ (ہر اعتبار سے تشبیہ )نہیں بلکہ فقط فطری خوشی کے معاملے میں تشبیہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث موجود ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا”يا رسول الله، كيف يأتيك الوحي؟ “یا رسول اللہ آپ پر وحی کس طرح سے آتی ہے ؟تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” أحْيانًا يَأْتِيني مِثْلَ صلْصلة الجرس“ یعنی کبھی کبھی مجھ پر وحی مثل گھنٹی کی آواز کے آتی ہے۔(صحیح البخاری ، كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟،جلد1،صفحہ6،دارطوق النجاۃ،مصر)

اب یہاں وحی کی گھنٹی سے کلی طو ر پر تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ تشبیہ مسلسل آواز آنے میں دی گئی ہے ۔یعنی جس طرح گھنٹی سے آواز آتی رہتی ہے جب تک گھنٹی بجتی رہے اسی طرح فرشتہ جب وحی لے کر آتاہے تو دوران وحی ایک آواز(جو گھنٹی کی آواز کے علاوہ ہے وہ) سنائی دیتی رہتی ہے ۔ فتح الباری میں اس حدیث کے متعلق ہے

’’فإن قیل المحمود لا یشبہ بالمذموم والمشبہ الوحی وہو محمود والمشبہ بہ صوت الجرس وہو مذموم لصحۃ النہی عنہ والجواب أنہ لا یلزم فی التشبیہ تساوی المشبہ بالمشبہ بہ فی الصفات کلہا بل یکفی اشتراکہما فی صفۃ،قیل والصلصلۃ المذکورۃ صوت الملک بالوحی ملخصا‘‘

یعنی اگر کہا جائے کہ محمود چیز کو مذموم سے مشابہت نہیں دی جاتی کہ یہاں مشبہ وحی ہے اور مشبہ بہ گھنٹی کی آواز ہے جبکہ گھنٹی کی ممانعت حضور علیہ السلام سے ثابت ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ کا مشبہ بہ سے تمام صفات میں برابری ہونا ضروری نہیں ہوتاہے بلکہ ان کا کسی ایک صفت میں اشتراک پایا جانا بھی کافی ہے۔کہا گیا کہ اس حدیث میں گھنٹی سے مراد فرشتے کی وحی کے دوران آواز ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری،جلد1،صفحہ 20، دار المعرفۃ ،بیروت)

مزید وضاحت کے لیے فتاوی رضویہ کا ایک مکمل فتوی پیش خدمت ہے کہ اعلی ٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا: ’’ایک عالم سنی حنفی المذہب نے اپنے وعظ میں کہا کہ اللہ( عزوجل )نے ایک سو چار(104) کتاب نازل فرمائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب میں پرودگار نے فرمایا{وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} الخ (اور اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔

اے مسلمانو!آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دیتاہوں اس کے بعد آپ لوگ خیال کریں کہ قوت ایمانی میں کہاں تک ضعف ہوگیاہے، دیکھو کسی حاکم کاچپراسی ثمن لے کر آتاہے تو اس کا کس قدر خوف ہوتا ہے حالانکہ حاکم ایک بندہ مثل ماو شما، سمن پیسہ آدھے پیسہ کا کاغذ جس میں معمولی مضمون ہوتاہے، چپراسی پانچ چھ روپے کا ملازم ہوتاہے، مگریہ حالت ہوتی ہے کہ اس کے خوف کے مارے لوگ روپوش ہوجاتے ہیں، لاچاری سے لینا ہی پڑتاہے بعدہ وکیل کی تلاش اور روپے کا صرف کرنا کذا وکذا، اور اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین کہ دم بھر میں تہہ وبالا کرسکتا ہے اس کا حکمنامہ یعنی قرآن پاک ومقدس کہ جس کے ایک ایک حرف پر دس بیس تیس نیکی کاوعدہ ہے وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے کہ جن کی خاطر زمین وآسمان پیدا ہوا، اب بتاؤ کہ اس احکم الحاکمین اور اس قرآن مجید اور اس کے رسول کا فرمان ہم سب مسلمان لوگ کہاں تک بجا لاتے ہیں ہمیشہ وعظ سنتے ہیں عمل نہیں کرتے الخ، اس پر دوسرے ایک عالم نے کہا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چپراسی کہنا دین کا ، یا اس سے مثال دینا، یا اس سے تشبیہ ، تینوں صورتوں میں کفرہے، اور کہنے والا سابی ہے اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اب عرض ہے کہ یہ تشبیہ ہے یا تمثیل، اورمثال کافرق پورے طور سے بیان فرمائیے یہ سوال اگرچہ کوتاہ ہے مگر بڑا اہم اور ضروری ہے جس کے سبب سے ایک بڑا فتنہ وفسادبرپا ہورہاہے، بینواتو جروا۔‘‘

جوابا اعلیٰ حضرت( رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

’’حاش للہ اس میں نہ تشبیہ ہے نہ تمثیل، نہ اصلا معاذ اللہ توہین کی بو، یہ تو لوگوں کی زجر وتوبیخ ہے کہ ایک ذلیل حاکم کا ذلیل فرمان ذلیل چپراسی لائے اس پرتو تمہاری یہ حالت ہوتی ہے اور ملک الملوک واحد قہار جل وعلا کاعزیز وعظیم وجلیل وکریم فرمان اعزالمسلمین اکرم المحبوبین(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر تشریف لائے اس کی پر وا نہیں کرتے، اس سے اپنی قوت ایمانی کے حال کا اندازہ کرسکتے ہو، ا س کی نظیر حضور بشیر و نذیر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشادہے کہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے ہے’’والذی نفسی بیدہ لویعلم احد ھم انہ یجد عرقا سمینا اومرماتین حسنتین لشھد العشاء ‘‘قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ان میں کسی کویہ معلوم ہوتاکہ کوئی فربہ ہڈی جس پر گوشت کا خفیف حصہ لپٹا رہ گیا ہو یا بکری کے اچھے دو کھُر ملیں گے (جن کے شگاف میں گوشت کا لگاؤ ہوتاہے)تو ضرور نماز عشاء میں حاضر ہوتا۔۔۔کیامعاذاللہ یہ ثواب ورضائے الٰہی کو دو کوڑی کی ہڈی یا دو کھروں سے تشبیہ ہے، حاشابلکہ ان کے حال کی تقبیح اور ان پر زجر وتوبیخ ہے کہ ایسی حقیر چیز کے لئے تو دوڑتے ہیں اور ایسی عظیم شئے کی پروانہیں کرتے۔۔۔

اور اگر یوں ہوتا کہ خدا ناترسو!اللہ ورسول سے اتنا ڈرو جتنا دنیوی حاکم اور اس کے سمن اور چپراسی سے ڈرتے ہو جب بھی اسے تمثیل وتشبیہ وتوہین سے علاقہ نہیں تو اب اس کی نظیر یہ حدیث ہوتی کہ ابن عدی نے ابوامامہ باہلی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا’’استحیی اﷲاستحیائک من رجلین من صالحی عشیرتک ‘‘اللہ تعالیٰ سے ایسی شرم کر جیسی اپنے کنبے کے دونیک مردوں سے کرتاہے۔

یہاں معاذاللہ، اللہ تعالیٰ کو کنبے کے دو مردوں سے تشبیہ نہیں،نہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اتنی ہی حیا چاہئے جتنی دو مردوں سے بلکہ اس مقدار حیا کی طرف ہدایت ہے کہ اللہ سے کرے تو معاصی سے روکنے کو کافی ہو۔ یو نہی نہ یہاں معاذاللہ دنیوی حاکم اور سمن اور چپراسی سے تشبیہ ہے نہ یہ کہ اللہ ورسول وقرآن سے اتناہی ڈرو جتنا ان سے بلکہ اس مقدار خوف کی طر ف ہدایت ہے کہ اللہ ورسول وقرآن سے ہو تو اتقاواجتناب معاصی کے لئے بس ہو، ہمارے ائمہ مذہب ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم )کے نزدیک ساب مرتد ہے اور اس کے سب احکام مثل مرتد، مرتداگر توبہ کرے ’’تقبل ولا یقتل ‘‘(قبول کریں گے اور قتل نہ کریں گے)’’کما حققناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی فتاوٰنا‘‘ (جیسا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے۔ )

تشبیہ میں اگر وجہ شبہ امور متعددہ سے منتزع ہو تمثیل ہے جیسے کریمہ’’ کمثل الحمار یحمل اسفارا ‘‘(گدھے کی مثال ہے جو پیٹھ پر کتابیں اٹھائے۔) ورنہ نہیں، اور کبھی تشبیہ مرکب کو تمثیل کہتے ہیں جس کے معنی میں مفرد کی مفرد سے تشبیہ ملحوظ نہیں بلکہ ہیأت مجموعی سے ،کریمہ ’’وھی تجری بھم فی موج کالجبال ‘‘ (اور وہی انھیں لئے جارہی ہے ایسی موجوں میں جیسے پہاڑ۔ )میں تشبیہ ہے۔ اور کریمہ {مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا}الایۃ (ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی، الایۃ۔)میں تمثیل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

(فتاوٰی رضویہ،جلد15،صفحہ150،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

22ربیع الاول 1445ھ09 اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں