امیر اہل سنت،امیر المجاہدین اور کنزالعلماء کے خلاف زبان درازی

امیر اہل سنت،امیر المجاہدین اور کنزالعلماء کے خلاف زبان درازی

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور کئی مولوی حضرات اپنی نجی تقاریر،جمعہ کے بیانات اور اپنے سوشل میڈیا کے چینل وغیرہ میں مستند علمائے اہل سنت بالخصوص امیر اہل سنت مولانا محمد الیا س عطار قادری ،امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی اور کنز العلماء قبلہ اشرف آصف جلالی صاحب کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں اور کئی مرتبہ سنی سنائی باتوں پر میڈیا میں آکر ان کے خلاف بولنادینا شروع کر دیتے ہیں جن میں اکثر باتیں بہتان پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کو عوام میں لانا شرعادرست نہیں ہوتا۔ایسے لوگوں کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے؟ جو احباب ایسے مولویوں کو روک سکتے ہوں لیکن پھر بھی ان کو نہ روکیں ان کے متعلق کیا حکم ہے؟اہل علم حضرات کا اگر کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو عام عوام کو کیا کرنا چاہیے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں جو بھی غیر عالم کسی مستند عالم پر اپنی جہالت میں تنقید کرے وہ سخت گناہ گار ہےاور اگر یہ تنقید کسی بغض کی وجہ سے ہو تو کفر کا خوف ہے۔اور علماء کرام سے بے وجہ بغض ہلاکت کا باعث ہے ،اور ایسے کو حدیثِ مبارکہ میں فاسق قرار دیا گیا ہے ، ایسے شخص کو امام یا دینی مقتدا بنانا جائز نہیں۔ اگر کوئی عالم دین دیگر مستند علماء پر تنقید کرے تو اگر بغیر دلیل کے ایسا کرے تو سخت گناہ گار ہے اور یہ اس عالم کی شایان شان نہیں۔ اگر کسی کے کہنے پر وہ تنقید کرتا ہے تو بغیر تصدیق کے تنقید کرنا درست نہیں اور اگر واقعی کسی سنی عالم سے لغزش ہو تو اس کو منبر یا میڈیا میں عام کرنا درست نہیں۔ اہل علم حضرات کا اگر کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو پہلے تو وہ اختلاف عوام میں لانا نہیں چاہیے اور علمی اختلاف میں ذاتیات پر حملے نہیں ہونے چاہیئں اور عام عوام کا اس علمی اختلاف سے کسی بھی سنی عالم سے بدظن ہونا اور مزید لوگوں کو کرناجائز نہیں ۔ پھر اگر دیگر علماء پر اس وجہ سے تنقید کرے کہ وہ اس کی تحریک سے وابستہ نہیں یا اس کی ریلی میں شریک نہیں ہوئے یا گھسی پٹی دلیل لے کر علماء پر سرعام زبان درازی کرے تو ہٹ دھرم و فاسق معلن ہے۔اور ایسے شخص پر توبہ لازم ہے اگر نا مانے تو اس کو امام و خطیب بنانا اور اس کی تقاریر سننا درست نہیں، کہ فاسق کی لوگوں پر شرعاً توہین لازم ہے جبکہ اسے امام بنانے میں اس کی تعظیم ہے ،اور جو لوگ اس برائی کو روک سکتے ہیں اسکے باوجود وہ نہ روکیں تو ایسوں کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ وہ بہت برا کام کرتے ہیں ۔

المعجم الصغیر للطبرانی میں ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” اغد عالماً، أو متعلماً، أو مستمعاً، أو محباً، ولا تكن الخامس فتهلك “

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” تو صبح عالم ہونے یا طالب علم ہونے یا ان کو سننے والا ہونے یا ان سے محبت کرنے والا ہونے کی حالت میں کر اور پانچواں نا ہونا کہ تو ہلاک ہو جائے گا ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی ، جلد 2 ، حدیث 786 ، صفحہ 63، دار الکتب العلمیہ بیروت)

المعجم الکبیر میں ہے:

” ثلاثۃ لایستخف بحقہم الامنافق بین النفاق ذوالشیبۃ فی الاسلام وذوالعلم والامام المقسط”

ترجمہ : تین آدمیوں کی توہین منافق ہی کرے گا: مسلمان بوڑھا، صاحب علم اور عادل حاکم کی ۔ ( المعجم الکبیر ، جلد 8، حدیث 7819 ،صففحہ 238،المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت)

مجمع الانہر میں ہے:

” الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر ۔۔۔ومن بغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر.”

ترجمہ : علمائے حق اور اشراف کی توہین کفر ہے، اور جو بغیر کسی ظاہری سبب کسی عالم سے بغض رکھے تو اس پر کفر کا خوف ہے اور اگر کسی عالم فقیہ کے منہ کو شب و شتم کرے یا اسے (بطور استہزاء) علوی کہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔ ( مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر ، ثم ان الفاظ الکفر انواع ، جلد 1 ،صفحہ 695 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

“من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر۔۔۔ويخاف عليه الكفر إذا شتم عالما، أو فقيها من غير سبب، ويكفر بقوله لعالم ذكر الحمار في است علمك يريد علم الدين كذا في البحر الرائق”

ترجمہ : جو کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری سبب کے بغض رکھے تو اس پر کفر کا خوف ہے ، جس نے کسی عالم یا فقیہ کو بغیر سبب کے برا بھلا کہا تو اس پر بھی کفر کا خوف ہے اور جو کسی عالم کے لئے کہے کہ تیرے علم کی دم میں گدھے کا خالیہ اور علم سے مراد علم دین مراد لے تو اس کی تکفیر کی جائے گی ، ایسے بحر الرائق میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری ،کتاب السیر ، مطلب فی موجبات الکفر ،جلد 2 ،صفحہ 270، دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

“عالم کی توہین اگر بوجہ علم دین ہے بلا شبہ کفر ہے کما فی مجمع الانھر (جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے ۔ ت) وگرنہ اگر بے سبب ظاہرکے ہے تو اس پر خوف کفر ہے کما فی الخلاصۃ ومنح الروض (جیسا کہ خلاصہ اور منح الروض میں ہے۔ ) ورنہ اشد کبیرہ ہونے میں شک نہیں۔” ( فتاوی رضویہ ،جلد 15 ، صفحہ 163 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاوی فیض الرسول میں ہے:

”بلاوجہ شرعی باعمل سنی عالم دین کو گالی دینے اور توہین و تنقیص کرنے سخت گنہ گار مستحق عذاب نار ہے بلکہ اس کے کافر ہونے کا اندیشہ ہے ۔“ (فتاوی فیض الرسول ، جلد 1 ،صفحہ 156، شبیر برادرز)

فتاوی رضویہ میں ہے:

“سنّی عالم متقی پر اُس کی لغزش کے سبب ملامت کی اجازت نہیں ہوسکتی ،کما نص علیہ الائمۃ واشارت الیہ الاحادیث (جیسا کہ ائمہ نے اس کی تصریح کی ہے اور احادیث میں بھی اس پر رہنمائی ہے۔) یہ اس کے حق میں ہے جو سُنّی عالم ہو۔” ( فتاوی رضویہ ،جلد 8 ، صفحہ 506،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:” اہل حق بحمد اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ شاہراہ ہدایت اتباع جمہور ہے جس سے سہواً خطا ہوئی اگرچہ معذور ہے مگر اس کا وہ قول متروک و مہجور ہے، وہ جانتے ہیں کہ”لکل جواد کبوۃ لکل صارم نبوۃ و لکل عالم ھفوۃ“ ہر تیز گھوڑا کبھی ٹھوکر کھا لیتا ہے اور ہر تیغ براں کبھی کر جاتی ہے اور ہر عالم سے کبھی کوئی لغزش وقوع پاتی ہے۔ وباﷲ العصمۃ۔“

(فتاویٰ رضویہ،جلد29،صفحہ173،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

دوسری جگہ ہے:” شک نہیں کہ قاضی ممدوح گیارھویں صدی کے ایک عالم تھے مگر عالم، سے لغزش بھی ہوتی ہے، پھر اس کی لغزش سے بچنے کا حکم ہے نہ کہ اتباع کا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں”اتقوا ز لۃ العالم وانتظر وافَیْنئَتَہ۔رواہ الحسن بن علی الحلوانی استاذ مسلم و ابن عدی والبیھقی والعسکری فی الامثال عن عمر وبن عوف المزنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ“عالم کی لغزش سے بچو او راس کے رجوع کا اتنظار رکھو۔ اسے استاذِ امام مسلم حسن بن علی حلوانی ، ابن عدی، بیہقی او رامثال میں عسکری نے حضرت عمروبن عوف مزنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔

عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: عالم سے لغزش ہوتی ہے تو وہ اس سے رجوع کرلیتاہے اور اس کی خبر شہروں شہروں پہنچ کر لغزش اس سے منقول رہ جاتی ہے” ذکرہ المناوی فی فیض القدیر “( اسے علامہ مناوی نے فیض القدیر میں لکھا ۔)“(فتاویٰ رضویہ،جلد9،صفحہ366،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

تبیین الحقائق میں ہے:

” لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقدوجب علیھم اھانتہ شرعاً”

ترجمہ :فاسق امام کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے جب کہ لوگوں پر شرعاً اس کی توہین لازم ہے۔

(تبیین الحقائق ،کتاب الصلوٰۃ ،باب الامامۃ،جلد 2، صفحہ 134،المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)

فتاوی رضویہ میں ہے:

“ایسے شخص پر توبہ فرض ہے اگر نہ مانے اور اصرار کرے تو اس کے پیچھے ہرگز نماز نہ پڑھی جائے۔” (فتاوی رضویہ ، جلد 3 ،صفحہ 281، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

قرآن مجید میں ہے:

کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۷۹﴾

ترجمہ :جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ (پارہ 6، سورۃ المائدہ ،آیت نمبر 79)

اس آیت کریمہ کے تحت خزائن العرفان میں ہے:

” آیت سے ثابت ہوا کہ نہی منکر یعنی برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور بدی کو منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے ۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے اول تو انہیں منع کیا جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی ان سے مل گئے اور کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے ، ان کے اس عصیان و تعدی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالی نے حضرت داؤد و حضرت عیسی علیہما السلام کی زبان سے ان پر لعنت اتاری ۔” (پارہ 6، سورۃ المائدہ ،آیت نمبر 79)

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

20/06/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں