آدھی رات کے بعد عشا کی نماز

آدھی رات کے بعد عشا کی نماز

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آدھی رات کے بعد عشاء کی نماز پڑھنا کیا مکروہ ہے؟ اگر مکروہ ہے تو یہ مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سوال میں پوچھی گئی صورت کے مطابق بلاعذر آدھی رات کے بعد جماعت اولیٰ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔اسکے مکروہ تنزیہی اور تحریمی ہونے میں علماء کا اختلاف ہےبعض نے کہا ہے کہ تحریمی کاقول کیا ہے لیکن اظہر یعنی زیادہ ظاہر قول یہی ہے کہ آدھی رات سے نماز کو بلا عذر مؤخر کرنا مکروہ تنزیہی ہے، اسلئے کہ اتنی تاخیر نماز کو قضاء پر پیش کرنے کے مترادف ہے اور قلت جماعت کا سبب ہے یاد رہے کہ یہ کراہت اس وقت ہے جب جماعت کے ساتھ نماز کو اتنا مؤخر کیا جائے اور اگر جماعت کے علاوہ اتنی تاخیر پائی گئی (تنہا نماز پڑھنے کی صورت میں )تو بلا کراہت نماز جائز ہو گی۔

المحيط البرهاني میں ہے :

”وأما العشاء فتأخيرها أفضل إلى ثلث الليل في رواية وفي رواية: إلى نصف الليل هكذا ذكر في «القدوري» وذكر الطحاوي بأن تأخير العشاء إلى ثلث الليل مستحب، وبعده إلى نصف الليل مباح غير مكروه، قال الطحاوي وبعد نصف الليل إلى طلوع الفجر مكروه إذا كان التأخير بغير عذر“

ترجمہ: بہرحال عشاء میں تاخیر کرناایک روایت کے مطابق تہائی رات تک افضل ہے اور ایک روایت میں آدھی رات تک تاخیر کرنا بھی ہے۔ جیسا کہ قدوری شریف میں ذکر کیا گیا ۔ امام طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ عشاء کی نماز کو رات کے تیسرے حصے تک مؤخر کرنا مستحب ہے اور اس کے بعد نصف رات تک جائز اور غیر مکروہ ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں نصف رات کے بعد طلوع فجر تک عشاء کی نماز کو موخر کرنا مکروہ ہے جب یہ تاخیر بغیر عذر کے ہو۔

(المحيط البرهاني في الفقه النعماني،ج1،ص274،دار الكتب العلمية، بيروت )

علامہ ابو بکربن مسعود کاسانی حنفی فرماتے ہیں :

”وأماالعشاء المستحب فيها التأخير إلى ثلث الليل في الشتاء، ويجوز التأخير إلى نصف الليل، ويكره التأخير عن النصف وأما في الصيف فالتعجيل أفضل، ۔۔۔۔۔۔۔ ولأن التأخير عن النصف الأخير تعريض لها للفوات، فإن لم ينم إلى نصف الليل ثم نام فغلبه النوم فلا يستيقظ في المعتاد إلى ما بعد انفجار الصبح، وتعريض الصلاة للفوات مكروه “

ترجمہ: سردیوں میں عشاء کی نماز تہائی رات تک مؤخر کرنا مستحب ہے اور نصف رات تک تاخیر جائز ہے، اس سے زیادہ مکروہ ہے اور گرمیوں میں عشاء کی تعجیل افضل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور نصف رات سے نماز عشاء کی تاخیر کرنا گویا اس کو قضا پر پیش کر دینا ہے کہ اگر نصف رات تک آرام نہیں کیا پھر آرام کیا اور نیند کا غلبہ ہو گیا تو معتاد یہ ہے کہ صبح پھوٹنے کے بعد تک بیدار نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ نماز کو قضا پر پیش کر دینا مکروہ ہے۔(بدائع الصنائعق،فصل شرائط ارکان الصلاۃ ،ج1،ص126،دارالکتب العلمیہ بیروت)

درمختار میں ہے:

”(و) تأخير (عشاء إلى ثلث الليل) قيده في الخانية وغيرها بالشتاء، أما الصيف فيندب تعجيلها (فإن أخرها إلى ما زاد على النصف) كره لتقليل الجماعة“

ترجمہ: عشاء کو موخر کرنا رات کے تیسرے حصے تک خانیہ میں اس کو سردی کے ساتھ مقید کیا ہے۔اور گرمی میں اس کو جلدی پڑھنا مستحب ہے۔اگر تاخیر نصف رات سے بڑھ گئی تو قلت جماعت کی وجہ سے اتنی تاخیر مکروہ ہے۔(الدرالمختارج1،ص276 دار الفکر،بیروت)

رد المححتار میں ہے:

”(قوله: كره) أي تحريما كما يأتي تقييده في المتن أو تنزيها وهو الأظهر كما نذكره عن الحلية.۔۔۔۔۔۔

(قوله: تحريما) كذا في البحر عن القنية، لكن في الحلية أن كلام الطحاوي يشير إلى أن الكراهة في تأخير العشاء تنزيهيا وهو الأظهر. اه“

ترجمہ:مصنف کا قول (مکروہ )سے مراد یا تحریمی ہے یا تنزیہی ہے اور تنزیہی ہونا یہ زیادہ ظاہر ہے جس طرح ہم نے حلیہ کے حوالے سے بیان کیا ۔

مصنف کا قول (مکروہ تحریمی )جیسا کہ البحر میں قنیہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے لیکن الحلیہ میں امام طحاوی کا کلام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کراہت سے مراد مکروہ تنزیہی ہے اور یہی ظاہر ہے۔(رد المحتارج1،ص268 ، دار الفکر،بیروت)

رد المحتارمیں ہے:

” لتقليل الجماعة) يفيد أن المصلي في بيته يؤخرها لعدم الجماعة في حقه، تأمل رملي: أي لو أخرها لا يكره.۔۔۔ “

ترجمہ: صاحب در مختار کا قول “لتقلیل الجماعت “اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ نمازی اپنے گھر میں نماز کو مؤخر کر سکتا ہے کہ اس کہ ذمے اب جماعت نہیں ہے ۔اس میں تفکر کر ،رملی ،یعنی اگر نماز کو مؤخر کرے گا تو یہ مکروہ نہیں ہوگا۔(رد المحتارج1،ص268 ، دار الفکر،بیروت)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

کتبہ:غلام رسول قادری مدنی

4ربیع الاول 1445ھ

21ستمبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں