قبلہ کی طرف تھوکنا کیسا؟

سوال:جو شخص قبلہ کی طرف بھولے سے یا انجانے میں تھوک دے تو اس شخص کی امامت کا کیا حکم ہےکیا ایسا شخص امامت کا اہل ہے؟حدیث پاک میں تو ایسے شخص کو حضور ﷺ نے امامت سے معزول کر دیا تھا۔

یوزر آئی ڈی:امان اللہ عطاری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

قبلہ کی طرف جان بوجھ کر تھوکنا سخت ممنوع ہے البتہ بندے میں امامت کی تمام شرائط پائی جائیں اور فاسق معلن نہ ہو تو امامت کروا سکتا ہے قبلہ کی طرف تھوکنے سے امامت کے اہل ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا اور حضور ﷺ نے جس کو امامت سے معزول فرمایا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ امام نے دوران نماز قبلہ کی جانب تھوکا اور حضور ﷺ کو یہ برا لگا اور بطور حاکم و سلطان امامت سے معزول کیا کہ آئندہ ایسا کوئی نہ کرے۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’من تفل تجاہ القبلۃ جاء یوم القیامۃ تفلہ بین عینیہ‘‘ترجمہ:جس نے قبلہ کی طرف تھوکا،وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اُس کا تھوک اُس کی آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) ہو گا۔ (سنن ابی داؤد،جلد2،صفحہ179،مطبوعہ لاھور)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں جس میں حضور ﷺ نے قبلہ کی طرف تھوکنے والے کو امامت سے معزول کر دیا تھا:خیال رہے کہ یہ امام صحابی تھے،مگراتفاقًا ان سے یہ خطا ہوگئی پھرتوبہ کرلی کیونکہ کوئی صحابی فاسق نہیں،جب اتفاقًا خطا پرامامت سے معزول کردیا گیا تو جان بوجھ کر بے ادبی کرنے والا ضرورمعزول کردیاجائے گا۔۔۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قوم وسلطان امام کو امامت سے علیحدہ کرسکتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح،جلد1،صفحہ704،ایپ)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

16ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ/6 جون2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں