مسجد پر وقف آمدن کیا مدرسہ میں لگاسکتے ہیں

علماء دین کی خدمت میں عرض ہے کہ مسجد پر وقف آمدن کیا مدرسہ میں لگاسکتے ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسجد کی آمدن مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جو آمدن جس مد میں ہو اسی میں خرچ کرنا ضروری ہے اس کے علاوہ کسی دوسری مد میں کرنا جائز نہیں ہوتا ہے لہذا مسجد کی آمدن مسجد کے امور میں ہی خرچ کرنا ضروری ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے مصرف مثلا مدرسہ وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز و حرام ہے۔

“الدر المختار” میں ہے:اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه بسبب خراب وقف أحدهما جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه لانهما حينئذ كشئ واحد (وإن اختلف أحدهما بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا لا يجوز له ذلك

جب واقف ایک ہو اور جہت وقف بھی ایک ہو اور آمدن کی تقسیم بعض موقوف علیہ حضرات پر کم پڑجائے توحاکم کو اختیار ہے کہ وہ دوسرے فاضل وقف سے ان پر خرچ کردے کیونکہ یہ دونوں وقف ایک جیسے ہیں، اور اگر واقف یا جہت وقف دونوں کی مختلف ہو مثلًا دو حضرات نے علیحدہ علیحدہ مسجد بنائی یا ایک نے مسجد اور دوسرے نے مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لئے علیحدہ وقف مقرر کئے تو پھر ایک کی آمدن سے دوسرے کے مصارف کے لئے خرچ کرنا جائز نہیں

(الدر المختار  کتاب الوقف ص371 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: وقف جس غرض کےلئے ہے اسکی آمدنی اگرچہ اس کے صرف سے فاضل(اضافی)ہو دوسری غرض میں صرف کرنی حرام ہے وقف مسجد کی آمدنی مدرسہ میں صرف ہونی درکنار دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں ہوسکتی،نہ ایک مدرسہ کی آمدنی مسجد یا دوسرے مدرسہ میں.

(فتاوی رضویہ ج16 کتاب الشرکۃ ص 205 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

“فتاوی فقیہ ملت” میں ہے:مسجد کی رقم جو تعمیر مسجد کیلئے ہے مدرسہ کی تعمیر میں ہرگز نہیں لگ سکتی کہ ایک مدرسہ کی آمدنی دوسرے مدرسہ میں نہیں لگ سکتی تو مسجد کی آمدنی مدرسہ میں کیوں کر لگ سکتی ہے.

(فتاوی فقیہ ملت ج2 باب فی المساجد ص159 مطبوعہ شبیر برادر لاہور)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زید مجدہ

28/08/2021