بندہ غنی ہونے کے باوجود کس صورت میں زکوٰۃ لے سکتا ہے؟

بندہ غنی ہونے کے باوجود کس صورت میں زکوٰۃ لے سکتا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان متین اس بارے میں کہ ایک شخص کاروبار کرتا تھا اور کئی دوسرے شہروں میں ادھار پر مال بیچتا تھا کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں وہ ختم ہو گیا لیکن کئی لوگوں سے پیسے لینے ہیں مگر وہ ملنے کی امید نہیں ہے اب جتنے پیسے پارٹیوں سے لینے ہیں وہ تقریباً پانچ لاکھ ہیں اب اس شخص کی مالی حالت بہت کمزور ہے کیا ایسے شخص کو زکٰوۃ دے سکتے ہیں جبکہ اس کا لاکھوں روپیہ لوگوں پر قرض ہے اگرچہ ملنے کی امید نہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ جس طرح ابن السّبیل یعنی مسافر شرعا حاجت کے سبب بقدر حاجت زکاۃ لے سکتا ہے، اگرچہ اُس کے گھر میں مال موجود ہو، مگر وہ اتنا ہی لے جس سے حاجت پوری ہو جائے، زیادہ لینے کی اجازت نہیں۔ اسی ابن سبیل یعنی مسافر کی طرح علما نے فرمایا اگر مالک نصاب کا مال کسی میعاد تک کے لیے دوسرے پر دَین(قرض) ہے اور ہنوز(ابھی تک)میعاد پوری نہیں ہوئی اور اب اُسے ضرورت ہے یا جس پر اُس کا قرض ہے وہ یہاں موجود نہیں یا موجود ہے مگر نادار ہے یا دَین سے منکر ہے، اگرچہ اس کے پاس ثبوت بھی ہو ،تو ان سب صورتوں میں بقدرِ ضرورت یہ زکاۃ لے سکتا ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو قرض لے کر کام چلائے۔

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

”وفي”جوامع الفقه “:هو الغريب الذي ليس في يده شيء وإن كان له مال في بلده ومن له ديون على الناس ولا يقدر على أخذها لغيبتهم أو لعدم البينة أو لإعسارهم أو لتأجيله يحل له أخذها“

ترجمہ:اور جوامع الفقہ میں ہے ابن سبیل وہ آدمی جس کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو۔ اگرچہ اسکے شہر میں مال ہو، اور وہ شخص بھی مراد ہے جس کے لوگوں پر دیون یعنی قرض ہوں اور ان کے لینے پر قادر نہ ہو یا تو ان کے غیب ہونے کے سبب یا گواہ نہ ہونے کے سبب،یا ان کے تنگ دست ہونے کے سبب،یاقرض کی مدت مقرر کی ہو یعنی معجل نہ ہو تو اسے زکوۃ لینا حلال ہے۔(البنایہ شرح ہدایہ،کتاب الزکوۃ،باب من يجوز دفع الصدقات إليه ومن لا يجوز ،ج3،ص457، دار الکتب العلمیہ بیروت)

درمختار مع تنویر الابصار میں ہے:

”(وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه) ومنه ما لو كان ماله مؤجلا أو على غائب أو معسر أو جاحد ولو له بينة في الأصح“

ترجمہ: اور ابن سبیل ہر وہ شخص کہ جس کا مال ہو لیکن اس کے پاس نہ ہو اور اس ابن سبیل میں سے وہ بھی کہ جس کا مال مؤجل یعنی اس کے ملنے کی کوئی مقرر مدت ہو یا غائب یا تنگدست یا منکر پر قرض ہو۔ اگرچہ گواہ ہو اصح قول کے مطابق۔(ردالمحتار مع درمختار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج2 ، ص343-344، دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”(قوله: وابن السبيل) هو المسافر سمي به للزومه الطريق زيلعي (قوله: من له مال لا معه) أي سواء كان هو في غير وطنه أو في وطنه وله ديون لا يقدر على أخذها كما في النهر عن النقاية لكن الزيلعي جعل الثاني ملحقا به حيث قال: وألحق به كل من هو غائب عن ماله وإن كان في بلده؛ لأن الحاجة هي المعتبرة وقد وجدت؛ لأنه فقير يدا وإن كان غنيا ظاهرا. اهـ.

وتبعه في الدرر والفتح وهو ظاهر كلام الشارح وقال في الفتح أيضا: ولا يحل له أي لابن السبيل أن يأخذ أكثر من حاجته والأولى له أن يستقرض إن قدر ولا يلزمه ذلك لجواز عجزه عن الأداء ولا يلزمه التصدق بما فضل في يده عند قدرته على ماله كالفقير إذا استغنى والمكاتب إذا عجز. وعندهما من مال الزكاة لا يلزمها التصدق اهـ. قلت: وهذا بخلاف الفقير فإنه يحل له أن يأخذ أكثر من حاجته وبهذا فارق ابن السبيل كما أفاده في الذخيرة“

ترجمہ: اور مصنف کا ابن سبیل یہ مسافر ہے اور اسے ابن سبیل نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ اس نے راستے کو لازم کر لیا اور مصنف کا قول کہ جس کے لیے مال ہو لیکن اس کے پاس نہ ہو چاہے وہ اپنے وطن سے ہٹ کر ہو یا وطن کے اندر ہو اور اس کے لئے قرض ہو اور یہ قرض لینے پر قادر نہ ہو جیسا کہ نہر میں نقایہ کے حوالے سے لیکن زیلعی نے دوسرے کو اس کے ساتھ ملحق بنایا ہے اس حیثیت سے کہ ابن سبیل کے ساتھ لاحق کر دیا گیا ہر وہ شخص جو اپنے مال سے دور و غائب اگرچہ وہ اپنے شہر میں ہو کیونکہ حاجت یہاں معتبر ہے اور وہ پائی گئی کیونکہ یہ قبضہ کے اعتبار سے فقیر ہے ظاہر کے اعتبار سے غنی ہے اور ان کی پیروی کی درر اور فتح میں، اور کلام شارح ظاہر ہے۔ اور فتح میں ہے کہ اس ابن سبیل کے لیے حاجت سے بڑھ کر لینا درست نہیں اور بہتر یہ کہ وہ قرض لے لے اگر قادر ہو اور قرض لینا اس پر لازم نہیں ہے کیونکہ اس کا ادا کرنے سے عاجز ہونا ظاہر ہے اور مال پر قدرت حاصل کرنے کے وقت اس کے قبضے میں جو بچ جائے اسے صدقہ کرنا بھی لازم نہیں جیسا کہ فقیر جب غنی ہو جائے اور مکاتب جب عاجز ہو جائے۔ اور ان دونوں کے پاس مال زکوۃ ہو تو اسے صدقہ کرنا لازم نہیں۔ میں کہتا ہوں یہ مسئلہ فقیر کے خلاف ہے کیونکہ فقیر کے لیے حلال ہے کہ وہ حاجت سے بڑھ کر لے لے۔ اس ابن سبیل الگ ہو گیا جیسا کہ ذخیرہ میں افادہ کیا۔(ردالمحتار ، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج2 ، ص343-344، دار الفکر بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”(ومنها ابن السبيل) ، وهو الغريب المنقطع عن ماله كذا في البدائع. جاز الأخذ من الزكاة قدر حاجته، ولم يحل له أن يأخذ أكثر من حاجته وألحق به كل من هو غائب عن ماله، وإن كان في بلده؛ لأن الحاجة هي المعتبرة ثم لا يلزمه أن يتصدق بما فضل في يده عند قدرته على ماله كالفقير إذا استغنى كذا في التبيين. والاستقراض لابن السبيل خير من قبول الصدقة كذا في الظهيرية“

ترجمہ:اور ان مصارف میں سے ایک ابن السّبیل یعنی مسافر جو مال سے جدا ہو اسی طرح بدائع میں ہے۔اسے بقدر حاجت زکاۃ لینا جائز ہے،اور حاجت سے زیادہ لینے کی اجازت نہیں۔ اس کے ساتھ وہ بھی لاحق کیا گیا جو اپنے مال سے دور ہو اگرچہ اسکے شہر میں مال ہو۔ کیونکہ حاجت معتبر ہے۔ پھر مال پر قدرت کے وقت جو بچ جائے اسے صدقہ کرنا لازم نہیں جیسا کہ فقیر جب غنی ہو جائے، اسی طرح تبیین میں ہے۔ اور ابن سبیل کیلئے قبول صدقہ سے بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو قرض لے لے اسی طرح ظہیریہ میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ج1 ، ص188، دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”ابن السّبیل یعنی مسافر جس کے پاس مال نہ رہا زکاۃ لے سکتا ہے، اگرچہ اُس کے گھر مال موجود ہو مگر اُسی قدر لے جس سے حاجت پوری ہو جائے، زیادہ کی اجازت نہیں ۔ یوہیں اگر مالک نصاب کا مال کسی میعاد تک کے لیے دوسرے پر دَین ہے اور ہنوز میعاد پوری نہ ہوئی اور اب اُسے ضرورت ہے یا جس پر اُس کا آتا ہے وہ یہاں موجود نہیں یا موجود ہے مگر نادار ہے یا دَین سے منکر ہے، اگرچہ یہ ثبوت رکھتا ہوتو ان سب صورتوں میں بقدرِ ضرورت زکاۃ لے سکتا ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو قرض لے کر کام چلائے۔ اور اگر دَین معجل ہے یا میعاد پوری ہوگئی اور مدیُون غنی حاضر ہے اور اقرار بھی کرتا ہے تو زکاۃ نہیں لے سکتا۔“(بہار شریعت،حصہ5،زکاۃ کا بیان،مصارف زکوۃ،مسئلہ:16، مکتبۃ المدینہ)

بہار شریعت میں ہے:

”مسافر یا اس مالکِ نصاب نے جس کا اپنا مال دوسرے پر دَین ہے، بوقتِ ضرورت مالِ زکاۃ بقدرِ ضرورت لیا پھر اپنا مال مِل گیا مثلاً مسافر گھر پہنچ گیا یا مالکِ نصاب کا دَین وصول ہوگیا، تو جو کچھ زکاۃ میں کا باقی ہے اب بھی اپنے صَرف میں لاسکتا ہے۔“ (بہار شریعت،حصہ5،زکاۃ کا بیان،مصارف زکوۃ،مسئلہ:17، مکتبۃ المدینہ)

واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

1جمادی الاولی1445ھ

16نومبر2023ء جمعرات

اپنا تبصرہ بھیجیں