غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع ِ متین اس بارے میں کہ  غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا ہے؟

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب

غیر اللہ سے مدد مانگنا شرعاً جائز ہے  اور اللہ پاک کے نیک بندے مدد مانگنے والوں کی مدد  بھی فرماتے ہیں ۔ مسلمان اللہ عزوجل کے نیک بندوں سےجو مددمانگتے ہیں ، وہ ان کوواسطہ  وصولِ فیض اوروسیلہ قضائے حاجات سمجھتے ہیں  کہ اولیاء اللہ مانگنے والے اورربِ ذوالجلال  کے درمیان  واسطہ ہیں ، وہ اللہ عزوجل کی مددکے مظہرہیں اوریہ قطعایقینادرست ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں ” وابتغوا الیہ الوسیلۃ  یعنی اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو” کاحکم فرمایاہے۔حقیقی استعانت صرف اللہ عزوجل  کے ساتھ خاص ہےکہ وہ قادربالذات ومالک مستقل وغنی بے نیازہے ۔استعانت حقیقیہ کااعتقاداگرکوئی کسی ولی کے لیے رکھے ، تویہ شرک ہے ۔بحمداللہ کوئی مسلمان بھی اس معنی کااعتقادکسی ولی کے لیے نہیں رکھتا۔  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں سے مددمانگنے کے جواز پر قرآن و احادیث شاہد ہیں۔

قرآن پا ک میں اللہ پاک کا فرمان ہے:   اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ یعنی: اے مسلمانو!  تمہارا مددگار صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔  (پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  55)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے صاف بیان فرمایا کہ اللہ پاک، اس کا رسول  اور ایمان والے مددگار ہیں، اس آیت میں لفظ “ولی” کے معنیٰ محب، دوست اور نصیر یعنی مددگار  کے ہیں۔  جب اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول اور ایمان والوں کو مدد گار یعنی مدد کرنے والا بنایا ہے تو ان سے مدد مانگنے میں کیا مضائقہ اوران سے مدد مانگا ناجائز ، حرام اور شرک کیسے ہوگیا؟

علامہ احمد بن محمد الصاوی علیہ الرحمۃاللہ القوی تفسیر صاوی میں آیت”وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ “کے تحت لکھتے ہیں:”المراد بالدعاء العبادۃ وحینئذ فلیس فی الآیۃ دلیل علی ما زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرک فانہ جھل مرکب لان سوال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانہ من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھول “ یعنی: آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے، لہٰذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے ،خارجیوں کی یہ بکواس جہل مرکب ہے ،کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکا ر نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔

(تفسیر صاوی،جلد4،صفحہ1550،مطبوعہ لاہور)

غیرُاللہ سے مدد مانگنے کا جواز سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی احادیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے،چنانچہ  حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مَروی ہے کہ رسولُ  اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فرماتے ہیں : ” اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ “بھلائی اور حاجتیں ان لوگوں سے مانگوجن کے چہرےعبادت الہٰی سے روشن ہیں ۔ (المعجم الکبیر،مجاھد عن ابن عباس،جلد11،صفحہ81،مطبوعہ القاھرۃ )

احادیث میں نیک بندوں سے مدد مانگنے کا فرمایا گیا ہے چنانچہ مشہور ومعروف حدیث جو مختلف اسناد کے ساتھ مروی ہے کہ خود حضور علیہ الصلوۃ و  السلام نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے لوگوں کا حاجت روا بنایا ہے چنانچہ المعجم الکبیر میں سلیمان بن احمد الشامی ابو القاسم الطبرانی روایت کرتے ہیں: ”عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ یَفْزَعُ النَّاسُ إِلَیْهِمْ فِی حَوَائِجِهِمْ أُولَئِکَ الْآمِنُونَ مِنْ عَذَابِ الله”  ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق کی حاجت روائی کے لئے خاص فرمایا ہے ۔لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لاتے ہیں ، یہ بندے عذاب الٰہی عزوجل سے امان میں ہیں۔                                                                                            (المعجم الکبیر،باب العین ،زید بن اسلم، عن ابن عمر،جلد12، صفحہ358،مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاہرۃ)

المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے:”حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اطلبوا المعروف من رحماء أمتي تعيشوا في أكنافهم “  یعنی: میرے نرم دل امتیوں سے نیکی واحسان مانگو، ان کے ظل عنایت میں آرام کرو گے۔                                                                     (المستدرك على الصحيحين للحاكم ،کتاب الرقاق،جلد4،صفحہ357، دار الكتب العلمية،بيروت)

    المعجم الکبیرمیں ہے:”حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا وهو بأرض ليس بها أنيس، فليقل: يا عباد الله أغيثوني، يا عباد الله أغيثوني، فإن لله عبادا لا نراهم“ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کوگم کردے یااسے مددکی حاجت ہواوروہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے :”اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو ! میر ی مدد کرو کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنھیں ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے  ( وہ اس کی مدد کریں گے ۔ )               (المعجم الكبير للطبراني ،ما أسند عتبة بن غزوان،جلد17،صفحہ 117، مطبوعہ القاهرة)

امام اہلسنت اعلی حضرت امام الشاہ احمدرضاخان  علیہ رحمۃ الرحمن اس طرح کی کئی احادیث نقل کرنے کے بعدتحریرفرماتے ہیں : انصاف کی آنکھیں کہاں ہیں ؟ ذرا ایمان کی نگاہ سے دیکھیں یہ سولہ بلکہ سترہ حدیثیں کیسا صاف صاف واشگاف فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے نیک امتیوں سے استعانت کرنے ان سے حاجتیں مانگنے، ان سے خیر واحسان کرنے کاحکم دیا کہ وہ تمھاری حاجتیں بکشادہ پیشانی روا کریں گے، ان سے مانگو تو رزق پاؤ گے،مرادیں پاؤ گے، ان کے دامن حمایت میں چین کرو گے ان کے سایہ عنایت میں عیش اٹھاؤ گے۔یارب! مگر استعانت اور کس چیز کانام ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا صورت استعانت ہوگی، پھر حضرات اولیاء سے زیادہ کون سا امتی نیک ورحم دل ہوگا کہ ان سے استعانت شرک ٹھہرا کہ اس سے حاجتیں مانگنے کا حکم دیاجائے گا، الحمدللہ حق کا آفتاب بے پردہ وحجاب روشن ہوا۔“ (فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ317،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاوی میں ہے :”سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان و نحو ذالک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتھم ام لا ؟فاجاب بما نصہ ان الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصالحین جائزۃ وللانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم “یعنی ان سے سوال کیا گیا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء ومرسلین واولیاء و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (مثلاً یارسول اللہ ،یاعلی ،یا شیخ عبدالقادر جیلانی )اوران کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟اوراولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ بے شک! انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں ۔ (فتاوی رملی ،مسائل شتی ،تفضیل البشر علی الملائکہ، جلد4،صفحہ382،مکتبۃ الاسلامیہ)

 امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : ” استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات ومالک مستقل وغنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتاہے، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصول فیض وذریعہ ووسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے۔ خود رب العزت تبارک وتعالی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا:  وابتغوا الیہ الوسیلۃ   اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔بایں معنی استعانت بالغیر ہر گز اس سے حصرایاک نستعین کے منافی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ303،رضافاونڈیشن،لاہور)

    فتاوی رضویہ میں ہے:”استعانت بالغیروہی ناجائزہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتاہے تو شرک وحرمت بالائے طاق، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے۔“                                                                                                ( فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ325،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

سیدی جمال بن عبداﷲبن عمر مکی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں :”سئلت ممن یقول فی حال الشدائد یارسول اﷲ اویا علی اویا شیخ عبدالقادر مثلاً هل هو جائز شرعاً ام لا؟ اجبت نعم الاستغاثة بالاولیاء ونداؤهم والتوسل بهم امر مشروع وشیء مرغوب لاینکره الامکابر اومعاند وقد حرم برکة الاولیاء الکرام الخ” یعنی مجھ سے سوال ہوا اس شخص کے بارے میں جو مصیبت کے وقت میں کہتا ہے یارسول اﷲیا علی یا شیخ عبدالقادر،مثلاً آیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ میں نے جواب دیا:ہاں اولیاء سے مدد مانگنی اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسّل کرنا شرع میں جائز اور پسندیدہ چیز ہے، جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا صاحبِ عناد،اور بےشک وہ اولیاء کرام کی برکت سے محروم ہے۔                                                                                                                                       (فتاوٰی جمال بن عبداﷲبن عمر مکی،ماخوذ از فتاوٰی رضویہ،جلد29، صفحہ554،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی مشکوٰۃ شریف کی شرح میں فرماتے ہیں: ”حجۃ الاسلام امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ مے شود بوی درحیات استمداد مے شود بوی بعدازوفات” یعنی:حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں جس سے زندگی میں مدد مانگی جائے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جاسکتی ہے۔مزید شیخ محقق فرماتے ہیں: ” سیدی احمد بن زروق کہ از عاظم فقہاء وعلماء ومشائخ دیار مغرب است گفت روزے شیخ ابوالعباس حضرم از من پرسید امدادِحی قوی ست یا امداد میّت قوی ست من گفتم قوی می گویند کہ امداد حی قوی تر است ومن می گویم کہ امداد میّت قوی تراست پس شیخ گفت نعم زیرا کہ وی دربساط است ودر حضرت اوست (قال) ونقل دریں معنی ازیں طائفہ بیشتر ازان ست کہ حصر و احصار کردہ شود یافتہ نمی شود درکتاب و سنت اقوالِ سلف صالح چیزے کہ منافی ومخالف ایں باشد و ردکندایں را” یعنی:سیدی احمد بن زروق جودیارِ مغرب کے عظیم ترین فقہاء اور علماء ومشائخ سے ہیں فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ ابوالعباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا زندہ کی امداد قوی ہے یاوفات یافتہ کی؟ میں نے کہا کچھ لوگ زندہ کی امداد زیادہ قوی بتاتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وفات یافتہ کی امداد زیادہ قوی ہے۔ اسی پر شیخ نے فرمایا:ہاں !اس لیے کہ وہ حق کے دربار اور اس کی بارگارہ میں حاضر ہے (فرمایا)اس مضمون کا کلام ان بزرگوں سے اتنا زیادہ منقول ہے کہ حد وشمار سے باہر ہے اور کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقول میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جو اس کے منافی ومخالف اور اسے رد کرنے والی ہو۔                                    (اشعۃ اللمعات،باب زیارۃ القبور،جلد1،صفحہ716،مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر)

مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ” اِن (اولیاء کرام)  سے اِستِمداد و اِستِعانت محبوب ہے، یہ مدد مانگنے والے کی مدد فرماتے ہیں چاہے وہ کسی جائز لفظ کے ساتھ ہو۔ رہا ان کو فاعلِ مستقل جاننا، یہ وہابیہ کا فریب ہے، مسلمان کبھی ایسا خیال نہیں کرتا، مسلمان کے فعل کو خواہ مخواہ قبیح صورت پر ڈھالنا وہابیت کا خاصہ ہے۔                (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 1، صفحہ نمبر 276، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم

کتبہ            

احمدرضا عطاری حنفی

24 جمادی الاخر 1442ھ/              6  فروری 2021

مصدق:أبو احمد مفتی محمد انس رضا قادری