شب قدر کے متعلق اہم معلومات

شب قدر کے متعلق اہم معلومات

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شب قدر رمضان کی کس تاریخ کو ہوتی ہے اور اس کی نشانیاں کیا ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

اس میں اختلاف ہے کہ شب ِ قدر کون سی رات ہے، اس کے متعلق چھ اقوال ہیں:

(۱)رمضان المبارک کی پہلی رات (۲)اکیسویں رات(۳)تیئسویں رات(۴)پچیسویں رات(۵)ستائیسویں رات اور(۶)انتیسویں رات۔ بعض کا قول ہے کہ شب ِ قدر ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ مگر حضرت ابی بن کعب و حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دوسرے علماء کرام کا قول یہ ہے کہ شب ِ قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔

(تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۴۰۰، پ۳۰، القد ر)

بعض علماء کرام نے بطور اشارہ اس کی دلیل یہ بھی پیش کی ہے کہ ”لیلۃ القدر” میں نو حروف ہیں اور ”لیلۃ القدر” کا لفظ اس سورہ میں تین جگہ آیا ہے اور نو کو تین سے ضرب دینے سے ستائیس ہوتے ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ شب ِ قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔

(تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۴۰۰، پ۳۰، القدر)

شب قدر کی علامات کی کچھ علامات ہیں جن سے اس رات کی پہچان ہوتی ہے چنانچہ اس کے متعلق مسند امام احمد میں ایک حدیث پاک ہے

’’عن عبادۃ بن الصامت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لیلۃ القدر فی العشر البواقی من قامھن ابتغاء حسبتھن فان اللہ تبارک وتعالی یغفر لہ ما تقدم من ذنبہ و ما تاخر و ھی لیلۃ وتر تسع ا و سبع او خامسۃ او ثالثۃ او اخر لیلۃ وقال رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم ان امارۃ لیلۃ القدر انھا صافیۃ بلجۃ کان فیھا قمراساطعاً ساکنۃ ساجیۃ لا برد فیھا ولا حر ولا یحل الکواکب ان یرمی بہ فیھا حتی تصبح وان امارتھا ان الشمس صبیحتھا تخرج مستویۃ لیس لھا شعاع مثل القمر لیلۃ البدر ولا یحل للشیطن ان یخرج معھا یومئیذ‘‘

یعنی حضرت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :شب قدر رمضان المبارک کی آخری راتوں میں ہے تو جو کوئی ایمان کے ساتھ بنیت ثواب اس مبارک رات میں عبادت کرے اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور یہ طاق رات ہے یعنی آخری عشرہ کی طاق راتیں اکیس یاتیئس یا پچیس یا ستائیس یا انتیسویں شب یا رمضان کی آخری شب میں ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارک شب کھلی ہوئی ،روشن اور بالکل صاف و شفاف ہوتی ہے اس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے گویا کہ اس میں چاند کھلا ہو ا ہوتا ہے اس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جارے، مزید فرمایاکہ اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند اللہ عزوجل نے اس دن طلوع آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے ۔ ( مسند امام احمد، تتمة مسند الأنصار ، حديث عبادة بن الصامت ،جلد37،صفحہ425 حدیث 22765، مؤسسة الرسالة،بیروت)

واللہ ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مفتی محمد انس رضا قادری

26 رمضان المبارک17اپریل 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں