پورا ماہ اعتکاف کی منت اور بعد میں اعتکاف ٹوٹ جانا

پورا ماہ اعتکاف کی منت اور بعد میں اعتکاف ٹوٹ جانا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ایک اسلامی بہن نے منت مانی کہ میرے بیٹے کی نوکری لگ گئی تو میں اِس رمضان المبارک کے پورے ماہ کا اعتکاف کروں گی، اس کے بیٹے کو نوکری مل گئی، تو اس نے رمضان المبارک کے آتے ہی اعتکاف شروع کر دیا، مگر 10 دن بعد اس کے والد کا انتقال ہو گیا، تو اس نے اعتکاف توڑ دیا، اب اس کی قضا وغیرہ کا کیا شرعی حکم ہے ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورتِ مسئولہ میں اس اسلامی بہن پر رمضان المبارک کے بقیہ اُن ایام کے اعتکاف کی قضا لازم ہے جن میں انہوں نے اعتکاف نہیں کیا، یعنی جیسا کہ بیان کیا گیا کہ دس دن کا اعتکاف کر لیا تھا پھر اسے توڑ ڈالا تو چونکہ یہ رمضان (1444ھ) تیس ایام کا تھا، اس لیے بقیہ بیس دنوں کی قضا کرے۔ نیز ان بیس دنوں میں پے در پے یعنی بلا ناغہ اعتکاف ہونا اور ان میں روزہ رکھنا بھی شرط ہے ۔ یادرہے! دن کے اعتکاف میں اس دن سے قبل آنے والی رات شامل ہوتی ہے۔

علامہ افتخار الدين شیخ طاہر بن احمد بن عبد الرشيد بخاری حنفی﷫ (المتوفی:542ھ/1148ء) لکھتے ہیں:

”وفي شرح الطحاوي أوجب علي نفسه اعتکاف شهر بعينه لزمه متتابعا، ولو أفطر يوما أو يومين عليه قضاء ما أفطر ولا يلزمه قضاء ما صح اعتکافه فيه، ولا يجب الاستقبال وان لزمه التتابع کما في صوم رمضان ان أفطر يوما لا يلزمه الاستقبال وان أوجب التتابع ولو لم يعتكف ذالك الشهر بعينه حتی مضی يلزمه اعتکاف شهر متتابع بصوم وفي غير المعين يلزمه متتابعا أيضا“

ترجمہ:اور شرح طحاوی میں ہے کہ کسی شخص نے اپنے اوپر معین مہینے کا اعتکاف واجب کر لیاتو اس پر پے در پے (اسے پورا کرنا) لازم ہوگا، اور اگر اس نے ایک یا دو دن روزہ چھوڑ دیا تو اس پر انہی ایام کی قضا لازم ہے جن میں روزہ نہ رکھا تھا، اور جن ایام میں اس کا اعتکاف صحیح ہو چکا ان کی قضا اس پر لازم نہیں۔ اور نئے سرے سے تمام ایام کا اعتکاف کرنا واجب نہیں ہوگا، اگرچہ اس پر تتابع لازم تھا جیسا کہ رمضان کے روزے میں حکم ہے، اگر کسی دن روزہ چھوڑ دیا تو اس شخص پر از سرے نو روزے رکھنا لازم نہیں ہو جاتا اگرچہ ان میں تتابع واجب کیا گیا ہے۔ اور اگر اس شخص نے اس معین ماہ کا اعتکاف نہ کیا یہاں تک کہ وہ ماہ گزر گیا تو اس پر ایک ماہ کا پے در پے روزوں کے ساتھ اعتکاف لازم رہے گا، اور اگر مہینہ غیر معین تھا تو بھی پے در پے ہی اعتکاف لازم ہے۔ (خلاصة الفتاوی، کتاب الصوم، الفصل السادس في الاعتکاف، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 271-272، مطبوعه: مکتبة رشيدية کوئٹہ)

ملک العلماء علامہ ابو بكر بن مسعود كاسانی حنفی ﷫(المتوفى: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:

”وكل اعتكاف وجب في الأيام والليالي جميعا: يلزمه اعتكاف شهر يصومه متتابعا. ولو أوجب على نفسه اعتكاف شهر بعينه بأن قال: لله علي أن أعتكف ‌رجب؛ يلزمه أن يعتكف فيه يصومه متتابعا، وإن أفطر يوما أو يومين؛ فعليه قضاء ذلك ولا يلزمه قضاء ما صح اعتكافه فيه“

ترجمہ: ہر وہ اعتکاف جو دنوں اور راتوں تمام میں واجب ہوا ہو تو اس شخص کے لیے پورے ماہ کا اعتکاف کرنا لازم ہوگا مسلسل روزے رکھتے ہوئے۔ اور اگر کسی شخص نے اپنے اوپر کسی معین ماہ کا اعتکاف واجب کر لیا بایں طور کہ اس نے کہا: اللہ پاک کے لیے مجھ پر رجب کے مہینے کا اعتکاف لازم ہے، تو اس کے لیے مسلسل روزے رکھتے ہوئے رجب کے ماہ میں کا اعتکاف کرنا ضروری ہوگا اور اگر اس نے ایک یا دو دن اعتکاف نہ کیا تو اس پر صرف ان کی قضا لازم ہوگی، اور اس کے لیے ان دنوں کی قضا لازم نہیں جن میں اعتکاف درست ہو چکا۔(البدائع الصنائع، کتاب الاعتکاف، فصل شرائط صحة الاعتكاف، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 112، مطبوعه: دار الكتب العلمية)

امام حافظ الدین محمد بن محمد بزّازی حنفی ﷫ (المتوفی: 827ھ/1424ء) لکھتے ہیں:

”ثم في الاعتكاف والصوم إن أفسد يوماً إن كان شهراً معيناً لا يلزمه الاستقبال لعدم القدرة، وإن غير معين يلزمه لقدرته علي التتابع“

ترجمہ: پھر اعتکاف اور روزے میں اگر ایک دن فاسد ہو جائے تو اگر وہ منت معین مہینے کی ہو تو اس کے لیے نئے سرے سے تمام کی قضا لازم نہیں ہوگی اس پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے، اور اگر وہ منت غیر معین مہینے کی ہو تو اس کے لیے نئے سرے سے تمام کی قضا اس کے تتابع پر قادر ہونے کے سبب لازم ہوگی۔(الفتاوی البزازیة، کتاب الأيمان، الفصل الثانی فيما يکون يمينا، الثالث في النذر، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 236، مطبوعه: دار الکتب العلمیة)

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”وإن لم يعتكف رمضان المعين قضى شهرا غيره بصوم مقصود لعود شرطه إلى الكمال الأصلي فلم يجز في رمضان آخر ولا في واجب سوى قضاء رمضان الأول لأنه خلف عنه وتحقيقه في الأصول في بحث الأمر“

ترجمہ: اور اگر کسی شخص نے معین رمضان میں اعتکاف نہ کیا تو وہ کسی دوسرے مہینہ میں صومِ مقصود کے ساتھ ایک ماہ کی قضا کرے گا، کیونکہ اعتکاف کی شرط کمال اصلی کی طرف لوٹ آئی ہے۔ پس دوسرے رمضان میں (قضا کرنا) جائز نہیں، اور پہلے رمضان کے قضا (روزے رکھنے کے وقت) کے علاوہ کسی اور واجب (روزے رکھتے وقت) میں بھی یہ اعتکاف جائز نہیں، کیونکہ پہلے رمضان کے قضا (روزے) اس پہلے رمضان کے نائب ہیں، اور اس کی تحقیق کتب اصول میں امر کی بحث میں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 152، مطبوعه: دار الکتب العلمیة)

اس کے تحت علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫(المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

”(قوله قضى شهرا غيره) أي متتابعا لأنه التزم الاعتكاف في شهر بعينه وقد فاته فيقضيه متتابعا كما إذا أوجب اعتكاف رجب ولم يعتكف فيه… (قوله وتحقيقه في الأصول) وهو أن النذر كان موجبا للصوم المقصود ولكن سقط لشرف الوقت، ولما لم يعتكف في الوقت صار ذلك النذر بمنزلة نذر مطلق عن الوقت فعاد شرطه إلى الكمال بأن وجب الاعتكاف بصوم مقصود لزوال المانع وهو رمضان“

ترجمہ: (شارح کا قول: کسی دوسرے ماہ میں ایک مہینے کی قضا کرے گا) یعنی کسی اور مہینے میں پے در پے (اعتکاف کی قضا کرے) کیونکہ اس نے معین مہینے میں اعتکاف کو اپنے ذمہ لیا ہوا تھا، جبکہ وہ فوت ہو چکا ہے۔ پس وہ پے در پے اسے قضا کرے گا جیسا کہ جب کوئی شخص رجب کے اعتکاف کو واجب کرے، اور اس میں اعتکاف نہ کرے۔ … (شارح کا قول: اور اس کی تحقیق کتبِ اصول میں ہے) اور وہ یہ ہے کہ نذر (منت) صومِ مقصود کو واجب کرتی ہے، لیکن (رمضان کے) وقت کے شرف کی بدولت یہ حکم ساقط ہو گیا تھا، اور جب اس نے اس وقت میں اعتکاف نہ کیا تو یہ نذر (منت) مطلق عن الوقت کے قائم مقام ہوگئی، پس اس کی شرط اپنے کمال کی طرف لوٹ گئی، بایں طور کہ (اعتکاف کو توڑنے والے پر اب) مانع یعنی رمضان کے زائل ہو جانے کے سبب یہ اعتکاف صومِ مقصود کے ساتھ واجب ہوگیا۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 443، مطبوعه: دار الفکر)

آپ ﷫ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:

”ويقضي المنذور مع الصوم غير أنه لو كان شهرا معينا يقضي قدر ما فسد وإلا استقبله لأنه لزمه متتابعا“

ترجمہ:منت کا اعتکاف روزے کے ساتھ قضا کیا جائے گا، تاہم اگر وہ معین مہینے کی منت ہو تو جتنے دن فاسد ہوئے اتنے ہی کی قضا کرے گا، وگرنہ (اگر منت معین مہینے کی نہ ہو تو) نئے سرے سے قضا کرے گا کیونکہ اس پر پے در پے ہی اعتکاف لازم ہوا تھا۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 447، مطبوعه: دار الفکر)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں:

”منت کا اعتکاف توڑا تو اگر کسی معّین مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضاکرے، ورنہ اگرعلی الاتصال واجب ہوا تھا تو سِرے سے اعتکاف کرے، اور علی الاتصال واجب نہ تھا تو باقی کا اعتکاف کرے۔…اعتکاف کی قضا صرف قصداً توڑنے سے نہیں بلکہ اگر عذر کی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمار ہوگیا، یا بلا اختیار چھوٹا، مثلاً عورت کو حیض یا نفاس آیا، یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی، ان میں بھی قضا واجب ہے، اور ان میں اگر بعض فوت ہو تو کُل کی قضا کی حاجت نہیں، بلکہ بعض کی قضا کر دے اور کُل فوت ہوا تو کُل کی قضا ہے، اورمنّت میں علی الاتصال واجب ہوا تھا اور تو علی الاتصال (یعنی مسلسل بلا ناغہ) کُل کی قضا ہے۔(بہار شریعت، جلد نمبر 1، حصہ نمبر 5،صفحه نمبر 1028-1029، مطبوعه: مکتبة المدینہ)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

عبده المذنب احمدرضا عطاری حنفی عفا عنه الباري

06 شوال المکرم 1444ھ / 27 اپریل 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں