عید کی نماز اگر رہ جائے تو کیا کریں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ عید کی نماز اگر رہ جائے تو کیا کریں اگر پورے شہر میں ایک جگہ نماز ملنے کی امید ہو تو کیا اس جگہ جا کر پڑھنا لازم ہے اگر پورے شہر میں کسی بھی جگہ نماز ملنے کی امید نہ ہو تو پھر کیا حکم ہے؟  بینوا توجروا۔

 الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

کسی کی عید کی نماز اگر رہ جائے اور پورے شہر میں کسی جگہ ملنے کی امید ہو تو وہاں جا کر عید کی نماز ادا کرے، اور اگر کہیں بھی عید کی نماز ملنے کی امید نہ ہو تو اب اکیلے عید کی نماز نہیں پڑھ سکتا، لیکن چار رکعت چاشت کی نماز پڑھنا بہتر ہے۔

درمختار شرح تنویر الابصار میں ہے: ” (ولا يصليها وحده إن فاتت مع الامام) ۔۔۔ (و) لو أمكنه الذهاب إلى إمام آخر فعل لأنها (تؤدى بمصر) واحد (بمواضع) كثيرة اتفاقاً۔۔۔ فإن عجز صلى أربعا کالضحیٰ “.

ترجمہ:  اگر عید کی جماعت رہ جائے تو اکیلا نہیں پڑھے گا۔۔۔ اگر کسی دوسری جگہ جانا ممکن ہو تو جائے کیونکہ عید کی نماز ایک شہر میں کئی مقامات پر ادا کی جاتی ہے۔ اگر عاجز آ جائے ( یعنی کہیں بھی جماعت نہ ملے یا جانا ممکن نہ ہو ) تو چاشت کے چار رکعت نفل ادا کرے۔

( الدرالمختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 113، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے: ” ومن فاتته صلاة العيد مع الإمام)۔۔۔ (لم يقضها) وحده۔۔۔ فلو أمكنه الذهاب لإمام آخر فعل؛ لأنها تؤدى بمواضع اتفاقا “.

ترجمہ: جس کی عید کی نماز جماعت کے ساتھ فوت ہو جائے تو وہ اس کی اکیلے قضاء نہیں کرے گا۔ ہاں اگر کسی دوسری جگہ جانا ممکن ہو تو جائے کیونکہ عید کی نماز ایک شہر میں کئی مقامات پر ادا کی جاتی ہے۔

( اللباب فی شرح الکتاب، جلد 01، صفحہ 117، مطبوعہ مکتبۃ علمیہ بیروت ).

بہار شریعت میں ہے:  امام نے نماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامل ہی نہ ہوا تھا یا شامل تو ہوا مگر اس کی نماز فاسد ہوگئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ نہیں  پڑھ سکتا، ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رکعت چاشت کی نماز پڑھے۔ ( بہار شریعت جلد 01 ، حصہ 04، صفحہ 783، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں