گستاخانہ خاکے

گستاخانہ خاکے

پیشکش: صدائے قلب

نائن الیون کے بعدجب یورپین ممالک میں اسلام تیز ی سے بڑھنا شروع ہوا تو یہود ونصاریٰ کی اسلام دشمنی میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی،انہوں نے کبھی دہشت گردوں کے ذریعے اسلام کو نقصان پہنچایا تو کبھی اپنے بغض کا اظہار توہین آمیز خاکوں اور ویڈیو میں کرنا شروع کردیا جس کی ایک کڑی پیرس کا پریس تھا ،جس نے توہین آمیز خاکے چھاپے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس پر حملہ مسلمانوں نے کیا ہے کہ ان یہودیوں نے خود کروایا ہے۔

بہرحال اس حملے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے توہین آمیز خاکوں کی بڑی تعداد میں اشاعت کی جس پر امت ِ مسلمہ میں تشویش کی لہر دوڑ پڑی ہے۔مسلمان ناموشِ رسالت کا دفاع کرتے ہوئے ان توہین آمیز خاکوں پر ہمیشہ کی طرح اب بھی احتجاج کر رہے ہیں ۔ایسے موقع پر مسلمان احتجاجاًکئی ایسے افعال کرتے ہیں جس میں فائدہ کفار کوہوتا ہے۔ کفارکوکیا فائدہ ہوتا ہے اور وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس کی وضاحت کے لئے مختصر سا آرٹیکل پیش خدمت ہے:

 یہود ونصاریٰ اسلام دشمنی کا اظہار تو اس طرح کی گستاخانہ حرکتوں سے میں کرتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے درج ذیل مفادات ہوتے ہیں:

(1) شہرت حاصل کرنا:جس کافر کوکچھ شہرت چاہئے ہو وہ اس طرح کی مذموم حرکت کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں میں مشہور ہوجائے جیسے ٹیری جونزایک ایسا ملعون شخص ہے جسے اسلام سے نفرت اور گستاخانہ رویے کی بنا پر شہرت ملی۔ یہ ملعون سزایافتہ مجرم ہے۔پاکستانی عیسائی پادریوں کے بقول یہ کوئی پادری بھی نہیں ہے ایک عام سا نالائق شخص ہے ۔ اس نے اپنا گرجا بنا یا جس میں ممبروں کی تعداد صرف 50 تھی۔ا س کی اپنی بیٹی کا بیان ہے کہ ٹیری جونز گرجے کے نام کا چندہ خود کھاتا رہا ہے۔ اسے 2002ء میں ڈاکٹر کا جعلی ٹائٹل رکھنے کے جرم میں 3800ڈالر جرمانہ بھی ہو چکا ہے۔اس نے اپنی مشہوری کے لئے قرآن پاک کو جلایا۔ اسی طرح پیرس اخبار کا مالک بھی شہرت کا متلاشی تھا،کافی عرصہ سے اس طرح کی شرمناک حرکتیں کرکے اپنے اخبار کر مشہور کرکے پیسے کمانا چاہتا تھا۔

(2) پیسہ کمانا:اگر ہم جائزہ لیں تو گزشتہ چند سالوں سے مسلسل ہر سال گستاخانہ خاکے شائع کئے جارہے ہیں، تمام تر دھمکیوں اور احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے ۔اگر ہم صرف ظاہری طور پر دیکھیں تو گستاخانہ خاکہ شائع کرنے والے اخبارات گمنامی سے نکل کر شہرت کی بلند سطح پر پہنچ گئے اور انہیں صرف گستاخانہ خاکوں کو شائع کرنے پر ہی بنا کچھ خرچ کیے پبلسٹی مل گئی۔ یہ سلسلہ ڈنمارک سے شروع ہو ا اور اس اخبار کی شہرت کو دیکھتے ہوئے یورپی ممالک میں یہ مائنڈ سیٹ بن گیا کہ جو اخبار گستاخانہ خاکے چھاپے گا اسے مفت میں پبلسٹی اور اشتہارات ملنے لگیں گے۔ اس کے بعد یہ تجربہ انٹرنیٹ پر کیا گیا اور گستاخانہ خاکے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر چھاپے گئے۔ ان ویب سائٹس کو بھی شہرت ملی۔ افسوس سے بتانا پڑ رہا ہے کہ مسلمان ان کے معاون ثابت ہوئے۔ مسلمانوں نے جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو ان ویب سائٹس اور خاکوں کا بتایا اور ان ویب سائٹس کے مالکان نے مسلمانوں کو جذباتیت سے فائدہ اٹھایا۔ مسلمان ایک دوسرے کو ان ویب سائٹس کا بتا کر ان کی مفت میں پبلسٹی حاصل کرنے کی خواہش میں معاون بنے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے منسلک لوگ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ پرکلکنگ(Clicking)یعنی صرف ویب سائٹ اوپن کرنے پر ویب سائٹ کے مالک کو اشتہار یعنی پیسے ملتے ہیں، جتنے لوگ کسی ویب سائٹ کو اوپن کریں گے اتنا ہی اس کے مالک کو پیسے ملتے جائیں گے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ان ویب سائٹس پر احتجاجی جملے لکھتے رہے بلکہ ان کے مالکان کو گالیاں بھی دیتے رہے ،لیکن یہ مالکان ان سب کے لیے تیار تھے خصوصاً یہودی صرف کاروباری نقطہ نظر سے معاملات کو دیکھتے ہیں، انہیں اگر گالیوں کے عوض پیسے اور شہرت مل رہی ہو تو وہ گالیاں بھی اعزاز سمجھتے ہیں ۔

پھر یہاں تک ہوا کہ CNNجیسے خبر رساں ادارے نے بھی ایسے موقع پر رقم کمانے اور پیسے حاصل کرنے کا سوچا، اس نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سروے شروع کروا دیا کہ کیا آپ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے حق میں ہیں؟ اس پر ساتھ ساتھ بتایا جارہا تھا کہ کس طرف سے کتنے فیصد لوگوں کی کیا رائے موصول ہو چکی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ Yes کی تعداد زیادہ شو کی جاتی رہی اور مسلمان تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کو CNN کالنک بھیج کر No پر کلک کرنے کا کہتے رہے ۔اس حوالے سے حقائق کاجائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس قدر Noکے باوجودYes کی تعداد زیادہ رکھی گئی حالانکہ Yesکے لیے کوئی خاص کمپین نہیں چل رہی تھی۔ جبکہ Noکے لئے مسلمان دھڑا دھڑ ایک دوسرے کو CNNکالنک بھیج رہے تھے۔ کاروباری نقطہ نظر سے اگر Noکی تعداد زیادہ ہو جاتی تو یہ سلسلہ رک جاتا لیکنYes کی تعداد زیادہ ظاہر کرنے سے اس ویب سائٹ کی ٹریفک میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور CNNبھی کروڑ پتی کی اس دوڑ میں آگے چلا گیا۔

(3)کفارکا مسلم ممالک میں اپنے سفارتحانے بچانے کی غرض سے کثیر تعداد میں فوج بھیجنا :اس حوالے سے ایک اہم انکشاف یہ بھی ہوا کہ اس طرح کے خاکوں میں پس پردہ فائدہ امریکہ نے حاصل کیا اور سفارت خانوں پر حملوں کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے مسلم ممالک میں اپنے سفارت خانوں میں فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔یہ ٹرینڈ کمانڈوز کے دستے ہیں جو امریکہ سیکورٹی کے نام پر مسلم ممالک میں بھیج رہا ہے اور ان کمانڈوز کو سفارتی ویزہ دیا جائے گا اور انہیں سفارت خانوں میں رکھا جائے گا۔ یہاں یہ یادرہے کہ سفارتی ویزوں پر آئے افراد ملکی قوانین سے بالاتر ہوتے ہیں اور عموماً انہیں سزا نہیں دی جاتی ،اسی طرح سفارت خانہ بھی اس ملک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور کوئی بھی ادارہ سفارت خانے میں داخل ہو کر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ اب امریکہ مسلم ممالک میں موجود اپنے سفارت خانوں میں اضافی کمانڈوز کو بھیج رہا ہے۔

(4)مسلمانوں کو بے حِس کرنا:اس طرح کی گستاخانہ حرکتو ں میں کفار کی ایک کوشش مسلمانوں کو بے حس کرناہے کہ روز روز کے ان واقعات سے مسلمان تھک ہار کے بیٹھ جائیں اور اسے معمول کی بات سمجھنے لگیں جیسے آج سے پندرہ بیس سال پہلے اگر ایک قتل ہوجاتا تھا یا بم پھٹنے کی اطلاع ملتی تھی تو کئی کئی دن اس کاذکر ہوتا تھا ،لوگ فکر مند ہوتھے لیکن ا ب کثر ت کے ساتھ ہونے والے قتل و غارت کے واقعات نے ہمیں بے حِس بنادیا ہے کہ ایک لمحہ کے لئے کسی جگہ قتل کی خبر ملتی ہے تو تھوڑی دیر بعد ذہن دوسری خبر کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ کفار یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان خاکوں اور فلموں کا عادی بنا کر پھر معاذ اللہ دینِ اسلام کو اپنی مرضی کے ساتھ پیش کیا جائے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کو غلط رنگ میں پیش کیا جائے ،اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دیا جاسکے ، کیونکہ قرآن و حدیث میں یہ کفار کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے ، لیکن میڈیا کے ہتھیار سے مسلمانوں کے دینی اعتبار سے کمزور کیا جاسکتا ہے جس کی ایک کڑی صحابہ کرام پر فلمیں بنانا ہے جو آج کل رائج ہورہا ہے کہ جیسے مرضی غیر شرعی سٹوری بنائی،کافروں کو نبی ،صحابہ کا کردار دیا ،کسی کی داڑھی نہیں تو کوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی والا ہے، لوگ ان فلموں کو دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں دینی معلومات مل رہی ہیں۔

ان حالات میں مسلمانوں کو درج ذیل احتیاطیں کرنی چاہئیں:

(1) گستاخانہ خاکوں کی تشہیر نہ کی جائے:جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ان خاکوں کو دیکھنا ان رینک (Rank)کو بڑھانا ہے،اس سے کفار کا مقصود پوراہوتا ہے،اسلام کے خلاف زہر اگلنے کے ساتھ ساتھ انہیں پیسے بھی ملتے ہیں۔ لہٰذا مسلمان گستاخانہ تصاویر کو بالکل نہ دیکھیں اور نہ شیئرکریں۔ بخاری شریف کی حدیث پاک ہے”عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: لاَ یُلْدَغُ المُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ“ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا۔ (صحیح البخاری، باب:لا یلدغ المؤمن من جحر مرتین،جلد8، صفحہ31، حدیث6133،دار طوق النجاۃ،مصر)

(2) احتجاج میں مسلمانوں کو ہی نقصان نہ پہنچایاجائے ان کی دکانیں اور گاڑیاں جلا کر:احتجاجی ریلیوں میں مسلمانوں کی چیزوں کو توڑنارسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ آپ کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔

(3) انبیاء علیہم السلام کی شان کو قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ کفارکے دینی اور قانونی نکات کوبیان کیا جائے:ایسے موقع پرمسلمانوں کو چاہئے کہ ان کفار کے مذہبی اورقانونی نکات کو پیش کرکے انہیں شرمندہ کریں جیسے برطانیہ کے قانون کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی توہین کی سزا موت ہے ۔لہٰذا اگر لبرل برطانیہ کے قانون کو دیکھیں تو اس کے مطابق بھی یہ کہنا سر ے سے ہی غلط ہے کہ توہین رسالت آزادی اظہار ِرائے ہے۔ اسی طرح بائیبل میں بھی خدا کی توہین کرنے والے کی سزا موت بتائی گئی ہے ۔

توہین رسالت الہامی مذاہب پر ایمان رکھنے والے ہر فرد کا بنیادی مسئلہ ہے اسے کسی بھی صورت آزادی اظہار رائے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ کے جو ٹھیکیدار توہین رسالت کو آزادی اظہاررائے کا نام دے رہے ہیں وہی ہو لوکاسٹ کے حوالے سے سخت موقف رکھتے ہیں اور یورپ خصوصاً اسرائیل میں ہولو کاسٹ کے حوالے سے بولنا قانون کے تحت سخت ترین سزا ہے۔ حالانکہ ہولو کاسٹ ایک دنیاوی واقعہ ہے جس کے مطابق ہٹلر نے یہودیوں کو گیس چیمبر میں ڈال کر مار دیا تھا ۔ہٹلر نے اس موقع پر کہا تھا کہ میں چند سو یہودیوں کو اس لیے چھوڑ رہا ہوں کہ میرے بعد دنیا جان لے میں نے انہیں کیوں مارا ہے؟ ہٹلر کے اس اقدام کی تعریف کرنا یورپ میں سنگین جرم ہے۔ یہی یورپ کی منافقت کی اعلیٰ مثال ہے کہ وہ انبیاء کرام کی توہین کو آزادی اظہار رائے قرار دیتے ہیں لیکن وہاں ہولوکاسٹ کی تعریف سنگین جرم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں