ختم نبوت کا دھرنا،حقائق و نتائج کی روشنی میں

ختم نبوت کا دھرنا،حقائق و نتائج کی روشنی میں

پیشکش: صدائے قلب

عاشق رسول دینی جماعتوں کا ایک معقول مطالبہ: اسلام آباد فیض آباد(نومبر2017)کے دھرنے والے عاشقان رسول کا ایک سادہ سا معقول، شرعی اورقانونی مطالبہ تھا کہ جس نے ختم نبوت جیسے قطعی اجماعی و آئینی مسئلہ پرڈاکہ ڈالا اور قادیانیوں کے لیے راہ ہموار کی اسے سامنے لایا جائے اور اس کی پہلی کڑی وزیرقانون زاہد حامد کو مستعفی کیا جائے کہ جس کی بہرحال کوتاہی ضرور ہے۔ ان علماء کرام کی صداقت و شرافت کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جس موقف پر پہلے تھے آخر تک اسی پر ڈٹے رہے، نہ آپریشن کے دوران بھاگے اور نہ اس وقت مطالبات میں اضافہ ہی کیاجب پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو چکی تھی۔

سیاستدانوں کے جھوٹ اورنااہلی کا ثبوت:سیاستدانوں نے پہلے اس حلف نامہ میں ترمیم پر کوئی کلام نہ کیا، بلکہ حیلے بہانے سے اسی کو درست ٹھہراتے رہے، لیکن جب معاملہ عام ہوا تو سب نے عجیب و غریب انداز میں صفائیاں دینا شروع کردیں۔ کسی نے کہا کہ کاغذات کا اتنا پلندہ تھا کہ پڑھنے کا موقع نہ ملا وغیرہ۔ زبانی سیاستدانوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہمارا ختم نبوت پرایمان ہے لیکن عملی طورپر ذرا بھی کام نہ کیا۔بلکہ وہ عمران خان جو نواز شریف کی چھوٹی چھوٹی باتوں پرتنقید کرتا ہے اس مسئلہ میں اس نے ذرا سی بھی لب کشائی نہ کی۔ وجہ یہ ہے کہ عمران خان خود سیکولر شخص ہے،اگر اس کی حکومت آئی تو یہ زیادہ بے دینی پھیلائے گا۔ پی ٹی آئی کے بعض لیڈرجو ختم نبوت کے حق میں بولتے ہیں یہ اپنے طور پر بولتے ہیں ،ان کو عمران خان کے نظریات کا صحیح علم نہیں۔ دھرنے میں موجود لوگوں کے بارے میں احسن اقبال نے پہلا جھوٹ بولا کہ دھرنے میں چند لوگ ہیں،جبکہ وہ ہزاروں میں تھے۔دوسرا بہتان عظیم یہ باندھا کہ دھرنے والوں کو انڈیا سے سپورٹ مل رہی ہے، حالانکہ ایسا کچھ ثابت ہوا نہ ہو سکتا تھا کہ اہل سنت کی یہ وہی جماعت ہے جس نے مسلمانوں کے ہندؤوں سے الگ قوم ہونے کا فتوی دے کر بنیوں سے علیحدہ پاک وطن بنانے کی سعی کی تھی اور امام احمد رضا کے شہزادے مولانا مصطفی رضا خان، مولانا نعیم الدین مراد آبادی اور پیر جماعت علی شاہ وغیرہ کثیر علما کی سرکردگی میں سنی کانفرنسیں کر کے لاکھوں لوگوں کو پاکستان کے حق میں جمع کیا تھا۔ یہ ایک پرامن و محب وطن جماعت ہے جو گمراہ مولویوں کی طرح مسلمانوں کے ساتھ جہاد کرنے کی حامی نہیں، بلکہ اسی جماعت نے دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائی ، سینکڑوں مفتیان اہلسنت کی تصدیق کے ساتھ مفتی سرفراز نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے خوش کش حملہ حرام ہونے پر فتوی دے کرخود اپنی جان قربان کی۔ پھرجب ہزاروں پولیس والے ان ”چند لوگوں“ (بقول وزیر داخلہ) کو ہٹانے میں ناکام رہے تو احسن اقبال نے دوسرا جھوٹ بولا کہ ان کے پاس آتشیں اسلحہ تھا اس لیے پولیس والوں کو واپس بلایا گیا۔ جبکہ ان نہتوں بے چاروں کے پاس سے کوئی پستول تک نہ نکلا۔تیسراجھوٹ یہ بولا کہ آپریشن کے دوران کوئی شخص قتل نہیں ہوا، حالانکہ پوری دنیا نے میڈیا پر پولیس کی فائرنگ ،لاٹھی چارج کو دیکھا اور بعد میں بے چارے دھرنےوالوں نے پولیس والوں کے چلائے ہوئے کارتوسوں کے خولوں سے بھرے ہوئے توڑے اکٹھے کیے۔ سوشل میڈیا پر اب بھی وہ کلپ دیکھے جاسکتے ہیں جس میں دھرنے میں کئی شہدا کی نماز جنازہ پڑھی گئیں۔

میڈیا کی قلا بازیاں:میڈیانے پہلے پہل اس دھرنے کو ایسے نظرانداز کرتے ہوئے عوام سے چھپایا جیسے انسان اپنا گناہ چھپاتا ہے۔یہ میڈیا کاکوئی نیا کام نہیں ممتاز قادری رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ کو بھی اس نام نہاد حق گو آزاد میڈیا نے یونہی نظرانداز کیا تھا۔یہ میڈیا پیسے لے کر یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے سیاسی قسم کی شخصیات کوکوریج دیتا ہے، غریب مولویوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ جب فیض آباد دھرنے کاآپریشن ہونے لگا تومیڈیا نے تماشے کے طور دھرنے والوں کے خلاف اور حکومت کے حق میں خبریں دینا شروع کیں۔ آپریشن شروع ہوتے ہیں میڈیا کی پہلی خبر وں میں یہ بات مشہور ہوئی کہ پولیس نے کامیابی حاصل کرلی ہے، کنٹرول سنبھال لیا ہے، بلکہ اسٹیج پربھی قبضہ کرلیا ہے۔ دھرنے کے کیمپ پولیس والوں نے جلائے لیکن میڈیانے یہ کہا کہ خود دھرنے والوں نے اپنے کیمپ جلائے ہیں۔ پھر میڈیا نے یہ کہا کہ دھرنے والوں کے پاس آنسو گیس بھی تھی جبکہ یہ صریح جھوٹ ہے ۔دھرنے والوں کے پاس فقط چند ماسک تھے اور کچھ نہ تھا۔ کسی ایک بھی کلپ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ دھرنے میں سے کوئی پولیس پر شیلنگ کررہاہو۔ ہاں جو پولیس شیلنگ کرتی تھی بعض لوگ اسے ہی واپس پولیس پر پھینک دیتے تھے۔ آپریشن کے رد عمل کے طور پر پورے ملک میں عوام جب سڑکوں پرآ گئی تو میڈیا نے فورا پینترا بدلہ اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومت کے خلاف اوردھرنے کے حق میں بولنا شروع ہوگئے۔ جب حکومت اوردھرنے والوں کا باہمی معاہدہ طے ہوگیا تو پھر میڈیا دوبارہ اپنی دوغلہ پالیسی پرآگیااور پھرمذہبی لوگوں پر آہستہ آہستہ تنقید شروع کر دی۔ سب سے پہلے اسلام دشمن اورمرزائیت نواز چینل جیو Geoنے جھوٹ بولا کہ علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے معاہدہ کی شرائط پریس کانفرنس میں بیان کیں لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ یہ لائیو نہیں چل رہا تو برہم ہوگئے اور کہا کہ سب چینل والوں کو پکڑ لو، جب تک یہ لائیو کوریج نہیں کرتے ان کو جانے نہیں دینا۔ جیو کے اینکرنے اپنے چینل پر صریح جھوٹ بولا کہ میڈیاوالوں کو انکے حصار سے رینجر نے چھڑایا۔جبکہ ویڈیو کلپ میں نے خود دیکھا جس میں علامہ خادم رضوی صاحب لائیو کوریج نہ دے کر عوام کو حقائق سے آگاہ نہ کرنے پرناراض ضرور ہوئے لیکن فوراً فرمادیا کہ جن چینل والوں نے ہمارے بارے میں خبریں دیں اور جس نے نہ دیں سب کا بھلا ہو۔ اس کے بعد انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ میڈیا والے ہمارے مہمان ہیں انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ دھرنا ختم ہونے کےبعد میڈیا کو دھرنے کے حوالے سے ایک نیا موضوع مل گیا تا کہ ایک دو دن اس پر مختلف انداز سے بحث کرکے ان کی روزی روٹی چل سکے۔ البتہ اس بات کی سمجھ انہیں خوب ہے کہ یہ رزق کس کی حمایت سے وابستہ ہے۔ بے چارے مولویوں نے انہیں کیا دینا، یا ان کا کیا کر لینا ہے۔

قانون والوں کے غیر قانونی فیصلے:چاہیے تو یہ تھا کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ آئین و قانون کے محافظ ہونے کا منصبی فریضہ ادا کرتی اور ختم نبوت ایسے نازک قانون میں کانٹ چھانٹ کرنے والوں کے بارے میں سوموٹو ایکشن لیتی لیکن بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ مذہبی لوگوں نے پکا محب وطن و غلام رسول ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے جب احتجاج کیا تو ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی اور سپریم کورٹ کے قاضی فائز عیسی نے عاشق رسول دینی جماعتوں سے اپنے دیرینہ بغض کے سبب عجیب و غریب نامعقول باتیں کیں۔ پہلے دھرنے کو بغیر سوچے سمجھے غیرقانونی قراردیا اورفوراجگہ خالی کروانے کا کہا اوردلیل یہ دی کہ عوام پریشان ہے۔ جناب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ عمران خان کا دھرنا دینی نہیں سیاسی تھا اورکئی مہینے رہا،پورے ملک کا نظام تباہ ہوگیا،ساری عوام پریشان تھی لیکن اس وقت قانون کو یہ سب عین قانون کے مطابق لگا اور کسی سوموٹو کی حاجت تو دور کی بات درخواستوں پر بھی کچھ فیصلہ نہ دیا۔ لیکن آئین و قانون کی حفاظت و حمایت میں دیا جانے والا ختم نبوت کا دھرنا غیرقانونی اورغیراخلاقی قرار دیا، اور انسانی حقوق کے عالمی قانون کی خلاف ورزی کر کے یزیدیت کا ثبوت دیتے ہوئے دھرنے والوں کا کھانا،پانی بند کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ یہاں تک بغیرتحقیق کے دھرنے والوں کے پاس اسلحہ ہونے کا بھی کہہ دیا،(حالانکہ ٹی وی چینلز پر سب نے دیکھا کہ فوجی دستہ معاہدے کے بعد دھرنے میں گیا اور ایک پستول تک بھی برآمد نہیں ہوا۔) دھرنے میں شریک علما کو خلافِ شرع کام کرنے والا قراردیا۔ جیسے یہ جسٹس صاحب خود تو بہت پابند شرع اور ختم نبوت کے ڈاکہ پر بڑی غیرت ایمانی والے ثابت ہوئے ہیں۔ المختصر حکومت کو آپریشن کے ظلم پر ججز نے خوب ابھارا۔ جب حکومت اورمذہبی راہنماؤں کا معاہدہ طے پاگیا تو جسٹس شوکت صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہو ا کہ معاہدہ کیوں ہوا؟ اس پر طرہ یہ کہ جناب نے خود کو ناموس رسالت کا سپاہی ثابت کر کے ختم نبوت والوں کو بغیرکسی دلیل کے فوج کی سازش قراردے دیا۔ پھر انہیں اس بات کی بھی بہت تکلیف ہوئی کہ دھرنے والوں نے فوج کا شکریہ کیوں ادا کیا؟مزید جسٹس موصوف نے ختم نبوت کے دھرنے کو آپریشن ردالفساد کا حصہ قرار دیا اور اپنی ان باتوں کی وجہ سے بعض تجزیہ کاروں کی سخت تنقید کا بھی شکار ہیں۔ حیرت ہے ان ججز پر کہ دعوی عشق رسول کا کرتے ہیں اور آئین و قانون کے لٹیروں کے حق میں بولتے ہوئے مذہبی لوگوں پر تنقید کرتے ہیں

تمہارا شہر، تمہی مدّعی، تمہی مُنصف

مجھے یقین ہے میرا ہی قصور نکلے گا

سرکاری دین فروش مولویوں کی منافقت: ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دیوبندی، وہابی مکتبہ فکر نے اپنے ڈپلومیٹک کردار کا مظاہرہ کیا۔ پہلے جہاد،ناموس رسالت اورختم نبوت کے نام پرلوگوں سے پیسے بٹورتے رہے جب ختم نبوت پرحملہ ہوا تو بجائے احتجاج کرنے کے الٹا حکومت کے حمایتی بن گئے۔ پہلے وہابیوں کے امیرساجد میرنے کہا کہ ختم نبوت کے متعلق ترمیم نہیں ہوئی مولوی ایسے ہی لگے ہیں، حتی کہ اس مسئلہ پر مناظرے کا چیلنج دے دیا۔ جب علامہ اشرف آصف جلالی صاحب نے مناظرہ قبول کرلیا تو ساجد میر صاحب کو سانپ سونگھ گیا۔ یونہی ہرحکومت کو کرایہ پر بہم مہیا ہونے والے جناب فضل الرحمٰن صاحب بھی حکومت کےحمایتی بنے رہے۔ جب ساری عوام ختم نبوت پرنکلی اوردیوبندی وہابیوں کو ان کے ہم مذہبوں نے لعن طعن کی تو ان کے بعض مولویوں نے اپنا مذہب بچانے کے لیے دو تین ویڈیو کلپ بنا کر جان چھڑائی۔ مفتی نعیم جو پہلے دھرنے والوں کو انتشار پھیلانے والے فرما رہے تھے ، عوام کےروڈ پرآتے ہی جناب حکومت کے خلاف اوردھرنے والوں کے حق میں بولنا شروع ہو گئے۔ دیوبندی مولوی طاہراشرفی صاحب جو پہلے ایک وٹس ایپ میسج میں اپنے دیوبندیوں کی پراسرارخاموشی پر روتے رہے اور دھرنے والوں کی تائید کرتے رہے، جب عوام روڈ پرآئی تو اس نے یہ کہا کہ اس عوام میں سب سنی نہیں دیگر مکتبہ فکرکے لوگ بھی ہیں۔ یعنی دیوبندیوں کو بھی زبردستی دھرنے میں گھسا دیا جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ دیوبندیوں کا مولوی طارق جمیل نواز شریف کی دل جوئی و اشک شوئی کو اس کے پاس پہنچا ہو اتھا۔ مزید موصوف نے 92 چینل پر کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ فورا چاروں مسالک کے علما کو اکٹھا کرکے اس مسئلہ کو حل کرے۔ یہ جناب کی ایک چال تھی کہ پکی پکائی پرآبیٹھیں تاکہ کل کو ان کا ہم مسلک مؤرخ یہ لکھ سکے کہ دیوبندی مسلک نے نواز شریف کے دور میں ختم نبوت کے دفاع پر بہت کام کیا۔ اس گروہ کا یہ کوئی نیا کام نہیں، تاریخ پاکستان میں بھی انہوں نے یہی ہتھکنڈا استعمال کیا تھا۔پاکستان بنتے وقت یہ دیوبندی کانگریس کے ساتھ تھے اورقائد اعظم کو کافراعظم کہتے تھے لیکن پاکستان بنتے ہی یہ پاکستان بنانےوالے بن گئے اور سنی علما کہ جنہوں نے پاکستان بنایا انہیں نظر انداز کردیا۔

عوام کا رد عمل:موجودہ دور میں حق و باطل کی تمیز مل جانا اللہ عزوجل کی بہت بڑی نعمت ہے۔ عوام کی اکثریت نے یہ ثابت کردیا کہ آج بھی ان کے دلوں میں عشق رسول کا دریا موجز ن ہے۔ ایک مسلمان چاہےبے عمل ہو بے شرم نہیں کہ ختم نبوت اورناموس رسالت ایسے معاملے پر بھی خاموش رہے۔ لیکن وہ سادہ لوح جو بے دین میڈیا کی چکنی باتوں میں آجاتے ہیں، یا وہ لوگ جنہیں عیش خواہی نے حق و باطل کی تمیز سے اندھا کر دیا، یونہی سیکولر اور لبرل قسم کے لوگوں نے اس حوالے سے عجیب قسم کی باتیں کیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آہستہ آہستہ ہماری عوام کو سیکولر ازم اور لبرل ازم کی دیمک کھا رہی ہے۔

نتائج:ختم نبوت کے اس دھرنے نے ذی شعور لوگوں کے سامنےیہ واضح کر دیا کہ سیاستدانوں اورمیڈیا اینکرز میں دینی سوچ بہت کم ہے۔دیوبندی وہابیوں کی حقیقت بھی عوام کے سامنے عیاں ہے کہ یہ صرف جہاد کے نام پر چندے ہی کھاتے اور اہل سنت کو مشرک و بدعتی ٹھہرا کرخود کوقرآن اوراحادیث پر عمل پیرا ہونے کا دعوی ہی کرتے ہیں عملی طور پریہ موقع پرستی کرتے اور بے دینوں کے ساتھ مل کر ان کی کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی جماعتوں کامیڈیا، سیاستدانوں اور بدمذہبوں کے شرسے بچنا بہت مشکل امر ہے۔ الزام تراشیوں میں دہشت گرد، فسادی اور شدت پسند ہونے کا الزام سر فہرست ہے۔ مذہبی تحریکوں کے کارکن گرفتار کرنا،ان کے ذمے داران پر مختلف نوعیت کے مقدمات کروانا، ان پر پابندی لگانے کی کوشش کرنا یہ سب ان کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ اس طرح اہلسنت کا کام روک کر مختلف حکومتی شعبوں میں یہ موقع پرست بدمذہبوں کو آگے لے آتے ہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی بعض تحریکیں ختم نبوت،ناموس رسالت اور عقائد اہل سنت پر بیانات کر کے موقف سے متفق ہونے کے باجود کھل کر دھرنوں میں شرکت سے مجتنب رہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ختم نبوت پر دینی طور پر بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ممتاز قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان ناموس رسالت پر قربان کر کے کفار اور لبرل لوگوں کی دست برد سے قانون ناموس رسالت محفوظ کیا اور ان کی قربانی سے بِنا پانے والی تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قانون ختم نبوت پر ایسا کام کیا ہے کہ اب کوئی سیاسی لیڈرختم نبوت کے مسئلہ میں ٹانگ اڑانے کا سوچے گا بھی نہیں۔ اب راقم کی رائے میں تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درج ذیل کام کرنے چاہییں:

٭اس وقت تمام اہل سنت کی تنظیمیں اور علماء و مشائخ اکٹھے ہیں جیسا کہ غازی ممتاز قادری کے جنازے پر جمع تھے، اب خوامخواہ کا کوئی باعث نفاق عنصر پیدا کر کے انہیں منتشر و متفرق نہ کیا جائے، اور مختلف دھڑوں کے بجائے پیار محبت سے ایک ہو کر اپنے مشترکہ اہداف پر کام کیا جائے۔ پاکستان میں گدی نشین سیاسی شخصیات جو دنیاوی سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی میں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں انہیں اس تحریک لبیک میں شامل کیاجائے۔جن سنی سیاسی تحریکوں کو تحریک لبیک کی سیاست سے جو تحفظات ہیں وہ دور کئے جائیں اور وسعت ظرفی کے ساتھ علاقے باہم تقسیم کر کے مشترکہ الیکشن لڑا جائے، کیونکہ ابھی تک اہل سنت کی کوئی بھی تحریک اس مقام پر نہیں پہنچی کہ پورے پاکستان میں سیاسی طور پر کثیر تعداد میں سیٹیں جیت جائے، ابھی بہت کام ہونے والا ہے۔ اگرتحریک لبیک کو سیاست کرنی ہے تو دیگرسنی تنظیموں پر بلاوجہ اعتراضات کرنے، انہیں دھرنے میں شریک نہ ہونے کے سبب گستاخ رسول وغیرہ کہنے کی بجائے ان پر بھی شفقت کرے۔ جب کسی کے کامل پیر،استاد یا محبوب شخص کے بارے میں لعن طعن کی جائے گی تو اس کے مریدین و محبین کیسے قریب آئیں گے؟

٭دوسرا اہم کام یہ کرنا چاہیے کہ پورے پاکستان کے مستند مفتیان کرام سے نواز شریف کے نظریات کے حوالے سے ایک فتوی لیا جائے جس میں نواز شریف کا قادیانیوں کو بھائی کہنے،ہندوں کے مذہبی تہوار میں شریک ہوکرکفریات بکنے پر شرعی حکم پوچھنے کے ساتھ ساتھ یہ استفتاء کیا جائے کہ نواز شریف کو لیڈر بنانا اور اسے ووٹ ڈالنا کیسا ہے؟

٭علمائے کرام ختم نبوت پر عمران خان کی خاموشی اور دیوبندیوں وہابیوں کی فریب کاری عوام میں عام کریں تاکہ لوگ ان سے دور رہ کر ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔

٭لبرل لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،لیکن یہ اخلاقیات کو بہت ترجیح دیتے ہیں( اگرچہ خود بدتر غیراخلاقی افعال جیسے زنا،بے حیائی ،ناچ گانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔)یہ لوگ علماء کی جلالت کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں ،علماء جو غیر شرعی افعال پر غصہ ہو کر کسی کو کمینہ،خبیث وغیرہ کہہ دیں تو یہ اس کی عوام میں تشہیر کرکے عام لوگوں کو بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،لہٰذا علماء کی بارگاہ میں عرض ہے کہ بجائے یہ ثابت کرنےکہ اس طرح کی زبان استعمال کرنا درست ہے یہ کوشش کی جائے کہ ایسے الفاظ نہ بولیں۔تاکہ تحریک لبیک پر یہ لیبل نہ لگ جائے کہ یہ شدت پسند اورگالی گلوچ والی جماعت ہے۔

٭ دین کے کئی محاذ ہیں جن پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف ایک دو محاذ پر لڑنے سے دیگر بدمذہبوں کے لیے رہ جائیں گے۔اس وقت اہل سنت جماعتوں کو چاہیے کہ مختلف شعبہ جات میں کام کریں، کوئی سیاست میں آئے ،کوئی تبلیغ کا کام کرے، کوئی بدمذہبوں اور دہریوں کا رد کرے، کوئی دینی کتب چھاپنے کا شعبہ سنبھال لے وغیرہ ، اور ایک شعبے میں کام کرنی والی جماعت دوسرے شعبے والوں پر تحکم نہ کرے کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر کیوں نہیں چلتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں