تحریک آزادی میں علماء کا کردار

تحریک آزادی میں علماء کا کردار

پیشکش: صدائے قلب

بعض لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں کہ اپنی حرکتوں کے سبب ہمیشہ ذلیل ہی ہوتےرہتے ہیں پر اپنی کرتُوتُوں سے سبق نہیں سیکھتے۔انہی لوگوں میں سے ایک سیاسی لیڈر جو گِرگٹ کی طرح ہے کہ جس طرح گِرگٹ رنگ بدلتی ہے یہ پارٹیاں بدلتا ہے۔میری مراد فواد چوہدر ی ہےجو کبھی مسلم لیک قاف میں ہوتا ہے، تو کبھی پیپلز پارٹی اور آج کل تحریک انصاف میں ہے۔جب پیپلز پارٹی میں تھا تو آصف زرداری کا دفاع کرتا تھا اور اب اسی زرداری کو چور کہتا ہے۔اس شخص کو الیکشن کے کاغذات جمع کرواتے وقت جج کے سامنے دعائے قنوت نہ پڑھنا آئی، لیکن گمانِ فاسد یہ ہے کہ اسے مفتی منیب الرحمن صاحب اور علامہ خادم حسین رضوی صاحب سے زیادہ علم ہے۔

دودن کی وزارت ملنے پر اپنی اوقات بھول گیا اور دین و علماء کے خلاف زبان درازی کرنا شروع ہوگیا۔پہلے جس وزارتِ اطلاعات کی خاطر قادیانیت کو سپورٹ کیا،علمائے کرام کے خلاف زہر اگلا ،وہ وزارت چندہ ماہ ہی رہی اور بعد میں ذلیل و خوار ہوکر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی لگ گیا۔آتاجاتاکچھ ہے نہیں بس علماء کے خلاف سازشیں کرتا ہے اور میڈیاپر آنے کا شوق ہے۔ وزیر سائنس ہوتے ہی دین کے اہم مسئلہ رؤیت حلا ل میں ٹانگ اڑانا شروع کردی اور چاند دیکھنے کوشرعی نہیں بلکہ سائنسی مسئلہ قرار دے دیا اور قمری کیلنڈربنانے کا اعلان کردیا، جبکہ خوش اسلوبی کے ساتھ رؤیت حلال کمیٹی کا نظام چل رہا تھا۔جوفتنہ باز مولوی ہرسال پشاور میں خود ساختہ چاند دیکھ کر رمضان و عید کرتا ہے اسے کنٹرول کرنے کے بجائے اختلاف کا حل قمری کیلنڈر نکالا۔بے وقوف کو اتنا بھی پتا نہیں کہ پوپلزئی نے اس قمری کینلنڈر کو بھی نہیں ماننا اور اختلاف اسی طرح برقرار رہنا ہے۔

فواد چوہدری کو کچھ کرنا ہی تھا تو یہ کرتا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نماز وں کے اوقات مرتب کرواتا تاکہ عوام کونمازوں کے ساتھ ساتھ سحرو افطار کا مستند وقت معلوم ہوتا اور لوگوں کے روزے محفوظ رہتے ،یہ نہ ہوتا کہ کوئی چینل کس وقت پر روزہ افطار کروا رہا ہے کوئی کس وقت پر۔

فواد چوہدری نے اس دوران یہ بھی کہا کہ علماء کرام کا تحریک آزادی میں کوئی کردار نہیں ہے۔یہ فواد چوہدری کی تاریخ سے جہالت ہے۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو تحریک آزادی ہی کیا علماء اہل سنت کا ہراہم مسئلہ پربہترین کردار رہا ہے، چاہے وہ عقیدے کا مسئلہ ہویا ملک و قوم کی سلامتی کا مسئلہ ہو۔لیکن چونکہ موضوع تحریک آزادی میں علمائے کرام کے کردار پر ہے اس لیے اس پر مختصر کلام پیشِ خدمت ہے:

1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بے دریغ قتل کیا۔ بے شمارگاؤں دیہات جلا دیے اورکثیردیہاتیوں کو پھانسی دے دی۔ اُس زمانے میں ہندوستان میں بینک نہیں ہوتے تھے اور امیر لوگ اپنی دولت زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے امرا کی حویلیاں بارود سے اڑا دیں اور زمین کھدوا کر سارا سونا چاندی لوٹ لیا۔انگلینڈ میں نئی فوجی بھرتی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس جنگ کو بھی مذہب کا روپ دیا گیا۔ عیسائی پادری نے اپنے وعظ میں کہا کہ ہم نے توکافروں کو مسیحیت اور شائستگی جیسی نعمت کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے نہ صرف اسے ٹھکرا دیا بلکہ تشدد پر اتر آئے۔ اب تلوار نیام سے نکال لینی چاہیے اور ان سے ہزار گنا بڑا بدلہ لینا چاہیے۔ لندن کے اخبار “دا ٹائم“ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہاں ہر درخت کی شاخ پر باغی کی لاش ہونی چاہیے، اور پھر واقعی یہی کیا گیا۔ دہلی میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس سے کوئی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ ایک سال تک ان لاشوں کو ہٹانے کی اجازت نہ تھی۔ کانپور میں ایک برگد کے درخت سے 150 لاشیں لٹک رہی تھیں۔

(برطانوی_ایسٹ انڈیا_کمپنیhttps://ur.wikipedia.org/wiki/))

آزادی کی اس جنگ میں انگریزوں نے مسلمانوں پر بڑے ظلم ڈھائے، خاص طور سے دہلی کے مکینوں پر، جہاں کے ہر گلی کوچے میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ صرف کوچہ چیلاں میں ایک دن کے اندر 1,400 لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ایک انگریز اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’بوڑھوں کو قتل ہوتے دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا تھا۔‘‘

بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے نقل مکانی کی۔ انگریزوں نے آبادیوں کی آبادیاں جلا ڈالے اور جگہ جگہ درختوں پر مسلمانوں کو پھانسی دینا شروع کی۔ آزادی کی جنگ میں مسلمانوں خاص طور سے علماء نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔انگریزوں کو ہمیشہ اگر کوئی خوف اور ڈر تھا تو مسلمانوں کی طرف سے تھا، نہ کہ ہندؤں کی طرف سے، جو تعداد میں مسلمانوں سے بہت زیادہ تھے۔

ایک معروف انگریز ڈاکٹر ولیم میور نے وائسرائے کو رپورٹ بھیجی کہ 1857ء کی جنگ تو صرف مسلمانوں نے لڑی ہے، ان کے دلوں میں جذبۂ جہاد ہے۔ ہم اُس وقت تک ان پر اپنی حکومت مضبوط نہیں کرسکتے جب تک ان کے جذبۂ جہاد کو ختم نہ کیا جائے، لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کو راستے سے ہٹا دیا جائے کیونکہ یہ علماء ہی ان میں جذبۂ جہاد ابھارتے ہیں۔

اس خطرناک اور زہریلے مشورے پر عمل کرتے ہوئے عام بغاوت پر قابو پانے کے لیے مسلم علماء کے خلاف انتہائی جبر اور ظلم کی پالیسی اپنائی گئی۔ وحشت اور اذیت کے ساتھ ان کا قتلِ عام شروع ہوا۔ ظلم کی وہ مثالیں قائم کی گئیں کہ آج بھی انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔انگریز مؤرخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ 1864ء سے1867ء تک تین سال ہندوستان کی تاریخ کے الم ناک ترین سال تھے۔ ان تین برسوں میں 14 ہزار علماء کو انگریزوں نے پھانسی پر لٹکایا۔ وہ لکھتا ہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا کہ جس پر علماء کی گردنیں لٹکتی نظر نہ آتی ہوں۔ علما کو خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے جلتے تندور میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لاہور کی شاہی مسجد میں پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا اور ایک ایک دن 80, 80 علماء کو پھانسی پر ٹکایا جاتا۔

یہی ٹامس لکھتا ہے کہ مَیں دلی میں خیمے میں ٹھہرا ہوا تھا کہ مجھے گوشت جلنے کی بو محسوس ہوئی، میں خیمے کے پیچھے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ انگارے دہک رہے تھے اور ان انگاروں پر چالیس علماء کو کپڑے اتارکر پاؤں باندھ کر ڈال دیا گیا۔ پھر اس کے بعد چالیس علماء لائے گئے اور ایک انگریز افسر نے ان سے کہا کہ ’’اے مولویو! جس طرح ان کو آگ میں ڈال کر جلایا جارہا ہے تم کو بھی اسی طرح آگ میں جھونکا جائے گا۔ اگر تم میں سے ایک آدمی بھی یہ کہہ دے کہ ہم 1857ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے تو تم کو چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘ٹامس کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ علماء آگ پر پک گئے لیکن کسی ایک مسلمان عالم نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہ جھکائی اور نہ معافی کی درخواست کی۔

(آزادی –کے فراموش-اوراقhttps://www.jasarat.com/sunday/2017/11/05/))

تحریک آزادی میں ایک بہت بڑا کردار علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ کا ہے جو اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین تھے۔انہوں نے دیکھا کہ یہ انگریز ہمارے ذہنوں میں چھا جائے گا۔ مسلمان کی نسل کشی کرے گا۔ ہمارے مذہب اور تشخّص کو تباہ وبرباد کردے گا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے1857ءمیں دہلی میں بیٹھ کر انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی نے اسے اِ ن الفاظ میں بیان کیا کہ آخر علامہ فضل حق نے ترکش سے آخری تیر نکالا، بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتاء پیش کیا، مفتی صدر الدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کر دئیے۔

(سیرت فضل حق خیر آبادی، صفحہ23 (

جب فتویٰ مرتّب کیا سب اکابر علماء سے اس فتویٰ پر دستخط کرائے۔ سارے اکابر علماء نے اس جہاد کے فتوے پر دستخط فرمائے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال و جدال ہوا کہ انگریزحکومت کی چولیں ہل گئیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے، اس نے اپنی تدبیر یں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے جنگ آزادی کی تحریک کُچل تو دی مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی اور دیگر علمائے حق نے آزادی کا جو ولولہ لوگوں کے دلوں میں ودیعت کر دیا تھا اس نے بعد میں کبھی بھی انگریزوں کو چین نہ لینے دیا۔

انگریزوں کے دلوں میں یہ بات تھی کہ اگر چہ ہم نے یہ تحریک بظاہر کچل دی ہے مگر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد نہیں نکال سکتے، یہ بہت مشکل کام ہے۔ پھر ملکہ وکٹوریہ نے ایک مکارانہ چال چلی۔ وہ مکارانہ چال یہ تھی کہ ہندوستان میں یہ اعلان کردیا جائے کہ جتنے بھی باغی ہیں سب کو معاف کردیا ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے یہ اعلان کردیا ۔علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے، وہ مجاہدین کی دہلی میں تربیت کرتے تھے۔ دہلی سے آپ علی گڑھ تشریف لے گئے ۔علی گڑھ میں آپ کچھ عرصے رہے اور وہاں مجاہدین کی مدد کرتے رہے۔ جب انگریزنے یہ اعلان کیا کہ باغیوں کو معاف کردیا گیا ہے اور سارے مجاہدین باہر آگئے، تو علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب بھی اپنے وطن خیرآباد تشریف لے آئے۔

آپ خیر آباد پہنچے تھے کہ کچھ دنوں کے بعد مخبر نے یہ اطلاع کردی کہ یہ وہی علامہ فضلِ حق صاحب ہیں جنہوں نے انگریزکے خلاف جہاد کا پہلا فتویٰ دیا تھا۔ چنانچہ اس سازش کے تحت آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار کرنے کے بعد آپ کو لکھنو لے جایا گیا اور وہاں آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ جیسے ہی کاروائی شروع ہوئی گواہ نے آپ کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ جس جج کے سامنے آپ پیش ہوئے ،اس جج نے بھی آپ سے کچھ کتابیں پڑھیں تھیں،وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ علامہ صاحب کسی طرح مقدمے سے نکل آئیں اورسزا سے بچ جائیں۔چنانچہ گواہ نے کہا کہ انگریز کے خلاف جنہوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا یہ وہ عالم دین نہیں ہیں۔یہ ساری کاروائی کے بعد جب آپ کے رہا ہونے کی منزل قریب آئی تو جج نے آپ کے کان میں کہا کہ علامہ صاحب آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ فتویٰ میں نے نہیں دیا ،آپ سزا سے بچ جائیں گے۔جج یہ کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا یہ سمجھ کر کہ علامہ صاحب میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔

جب جج نے آ پ سے پوچھا کہ آپ نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے؟آپ نے گرج دار لہجے میں کہا کہ اس گواہ نے مروت میں آکر مجھے پہچاننے سے انکار کردیا ہے۔ میں نے ہی انگریز حکومت کے خلاف جہاد کافتویٰ دیا ہے اوراس کے عوض مجھے جو سزاملے گی میں قبول کروں گا۔جج اورگواہ سرپکڑ کر بیٹھ گئے آپ کو اس جرم کی سزا عمر قید سنائی گئی۔آپ علیہ الرحمہ کو انگریزوں نے (فتویٰ جہاد اور اہلِ ہند کو انگریز کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنے کے جُرم میں) فسادِ ہند کے زمانے میں جزیرہ رنگون (یعنی جزیرہ انڈمان جسے کالا پانی کہا جاتا تھا) میں قید کر دیا۔ وہیں تین برس کے بعد 12صفر المظفر 1278ھ بروز پیر بمطابق19 اگست1861ء کو امام حریت نے عالم کو فیضیاب فرمانے کے بعد اسیری ہی کی حالت میں جزائر انڈیمان میں جام شہادت نوش فرمایا اور وہیں آپ کا مزار شریف ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مجاہد کو انگریز سے آزادی سے پہلے ہی اپنے نیک بندے کو آزاد کرلیا۔

(تذکرہ علماء ہند فارسی،مصفنہ مولوی رحمان علی،صفحہ165)

علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مزید درج ذیل علمائے کرام کو کالا پانی کی سزا ہوئی: مولانا احمد الله عظیم آبادی، مولانا یحییٰ علی، مولانا عبد الرحیم صادق پوری، مولانا جعفر تھانیسری ، مفتی احمدکاکوروی اور مفتی مظہر کریم دریا آبادی رحمهم الله۔ جن میں مولانا احمد الله عظیم آبادی، مولانا یحییٰ علی اور مولانا فضل حق خیرآبادی رحمہم الله وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمه الله اور مولانا جعفر تھانیسری رحمہ اللہ اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولانا جعفر تھانیسری رحمہ الله اپنی کتاب ”کالاپانی“ میں تحریرفرماتے ہیں:”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔ انگریزوں نے ہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دار سلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارا لے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے، ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔1857ء کی جنگ آزادی کو انگریزوں نے ”غدر“کا نام دیا۔ غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر 1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یا تو سرعام پھانسی دیدی گئی یا بہت سے لوگوں کو اسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدتر زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا۔

مولانا احمد اللہ گجراتی رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے عالم تھے۔ ایک انگریز نے ان سے کچھ عربی سیکھی تھی۔ وہ انگریز اس وقت ان لوگوں میں سے تھا جو مسلمان علماء کو پھانسی دے رہے تھے۔ اس نے مولانا احمد اللہ گجراتی رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ میرے استاد ہیں، آپ صرف زبان سے کہہ دیں کہ میں اس تحریک آزادی میں شریک نہ تھا۔میں آپ کا نام پھانسی والوں میں سے نکال دوں گا۔ احمد اللہ گجراتی نے جواب دیا کہ میں یہ بات کر کے اللہ رب العزت کے دفتر سے نام نکلوانا نہیں چاہتا۔

(https://www.zeropoint.com.pk/special-features/2017/02/01/234732)

تحریک آزادی کا جوبیج فضل حق خیر آبادی اور دیگر علمائے کرام و مجاہدین بو گئے تھے وہ رفتہ رفتہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ ایک تنا ور درخت بن گیا اور انگریزوں سے نجات پانے کی تحریک بہت مضبوط ہوگئی۔اس وقت بھی علمائے کرام نے ہی دو قومی نظریہ پیش کیا اور حصولِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔

بیسیوں صدی اوائل میں آزادی کی تحریک چلانے میں جبکہ بشمول قائد اعظم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندؤوں کی ہمنوا اور کانگریس کی حامی تھی، اس وقت مجددِ وقت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نے اپنے متعدد فتاویٰ میں دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھتے ہوئے مسلمانوں کو یہ شعور دیا کہ انگریز اور ہندو دونوں ہی ہمارے دشمن ہیں۔ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔جب بعض نافہم مسلم لیڈر گاندھی کو اپنا “خلیفہ” تک ماننے پر بضد تھے اس وقت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ گاندھی جیسے ایک مشرک کو مسلمانوں کا لیڈر ماننے پر راضی نہ تھے، اور وہ گاندھی کی چالوں کوسمجھتے تھے کہ ہندو مسلمانوں کو مغلوب کرنا چاہتے ہیں۔آپ ہندو شدت پسندی کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”اب جس شہر، جس قصبہ، جس گاؤں میں چاہو آزمادیکھو، اپنی مذہبی قربانی کے لئے گائے پچھاڑو ۔ اس وقت (یہی ہندو) یہی تمہاری بائیں پسلی کے نکلے، یہی تمہارے سگے بھائی، یہی تمہارے منہ بولے بزرگ ،یہی تمہارے آقا ،یہی تمہارے پیشوا ،تمہاری ہڈی پسلی توڑنے کو تیار ہوتے ہیں یانہیں؟ ان متفرقات کا جمع کرنا بھی جہنم میں ڈالئے، وہ آج تمام ہندؤوں اور نہ صرف ہندؤوں تم سب ہندو پرستوں کا امامِ ظاہر وبادشاہِ باطن ہے، یعنی گاندھی، صاف نہ کہہ چکا کہ مسلمان اگر قربانی گاؤ نہ چھوڑیں گے تو ہم تلوار کے زور سے چھڑادیں گے؟ اب بھی کوئی شک رہا کہ تما م مشرکینِ ہند دین میں ہم سے محارب ہیں، پھر انہیں﴿لم یقاتلوکم فی الدین﴾میں داخل کرنا کیا نری بے حیائی ہے یا صریح بے ایمانی بھی؟ محاربہ مذہبی ہر قوم کا اس بات پر ہوتاہے جسے وہ اپنے دین کی رو سے زشت ومنکر جانے، اسی کے ازالہ کے لئے لڑائی ہوتی ہے، اور ازالہ منکرتین قسم ہے کہ موقع ہو تو ہاتھ سے ورنہ زبان سے ورنہ دل سے۔ “

(فتاوٰی رضویہ،جلد14،صفحہ454،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

ہندو مسلم اتحاد کے مؤ ید محمد علی جوہر اور شوکت علی جب امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی تحریک خلافت میں شمولیت کی دعوت دی تو آپ نے فرمایا:”مولانا میری اور آپ کی سیاست میں فرق ہے ۔ آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی ہیں، میں مخالف ہوں۔“ اس جواب سے علی برداران کچھ ناراض سے ہو گئے تو فاضل بریلوی نے تالیف قلب کے لئے مکررارشادفرمایا:” مولانا میں ملکی آزادی کا مخالف نہیں،ہندومسلم اتحاد کا مخالف ہوں۔“

(فاضل بریلوی اور ترک موالات،صفحہ45،ادارہ مسعودیہ،کراچی)

مارچ1925ء میں جامعہ نعیمیہ مراد آباد (بھارت) میں چار روزہ کانفرس ہوئی جس میں صاحبزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے صدرِ مجلس استقبالیہ کی حیثیت سے خطبہ صدارت پڑھا۔ اسی کانفرنس میں”الجمعیۃ العالیۃ المرکزیۃ“(آل انڈیا سنی کانفرنس)کی داغ بیل ڈالی گئی۔ صدراالافاضل مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی اس کے ناظم اعلیٰ اور امیر ملت حضرت پیر سید حماعت علی شاہ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ،اس کے صدر منتخب کئے گئے۔قائدین نے شبانہ روز کوشش سے متحدہ پاک و ہند کے گوشے گوشے میں اس جماعت کی شاخیں قائم کیں، ایک طرف اہل سنت وجماعت کے علماء و مشائخ کو منظم کیاتو دوسری طرف ہندؤوں اور گانگریسی علماء کی چالوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔

1930؁میں جب شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال نے الہٰ آباد میں تقسیم ہند کی بات کی تو ہندؤوں نے اس پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا۔ طبقہ علماء میں سب سے پہلے حضرت صدرا لافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تجویز کی پرزور تائید کی اور فرمایا:”ڈاکٹر اقبال کی رائے پر کہ ہندوستان کو دوحصوں پر تقسیم کردیا جائے۔ ایک حصہ ہندؤوں کے زیر اقتدار اور دوسرا مسلمانوں کے۔ ہندؤوں کو اس قدر اس پر غیظ آیا یہ ہندو اخبارات کو دیکھنے سے ظاہر ہوگا۔ کیا یہ کوئی ناانصافی کی بات تھی ؟ اگر اس سے ایک طرف مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچتا تھا تو ہندؤوں کوبھی اسی نسبت سے فائدہ ملتا تھا۔ کیا چیز تھی جو اس رائے کی مخالفت پر ہندؤوں کو برانگیختہ کرتی رہی اور انہیں اس میں اپناکیا ضرر نظر آیا؟ بجز اس کے کہ مسلمانوں کی بقا کی ایک صورت اس میں نظرآتی تھی اور انہیں تھوڑا سا اقتدار ملا جاتا تھا۔ اس حالت میں بھی مسلمان کہلانے والی جماعت (جمعیۃ العلماء ہند وغیرہ) ہندؤں کا کلمہ پڑھتی ہے اور اپنی اس پرانی فرسودہ لکیر کو پیٹا کرے،تو اس پر ہزار افسوس۔“

(تحریک آزادی ہند اور السوادالاعظم،صفحہ275،رضاپبلی کیشنز،لاہور)

1946ء میں علماء اہل سنت کاایک فتویٰ شائع ہوا،جس میں کانگریس کی مخالفت اور مسلم لیگ کی تائید کی گئی تھی۔اس فتوی پر پچاس سے زیادہ اہل سنت کے جلیل القدر علماء کے دستخظ تھے ، جن میں سرفہرست شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند مولانا محمد مصطفےٰ رضاخان رحمۃ اللہ علیہ تھے اور دیگر علماء میں سے کوئی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا خلیفہ تھا تو کوئی شاگرد ۔

1946ء کے فیصلہ کن الیکشن میں حضرت مولانا محمد مصطفےٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بریلی میں مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں سب سے پہلا ووٹ ڈالا۔پیر جماعت علی شاہ صاحب نے اپنے مریدوں اور مسلمانوں کو بہت سخت تاکید کی کہ وہ اپنا ووٹ مسلم لیگ کو دیں۔11دسمبر 1945ء کو روزنامہ” وحدت“ دہلی میں حضرت امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتوے کا اعادہ کرتے ہو ئے ارشادفرمایا:”میں فتوی دے چکا ہوں کہ جو مسلمان مسلم لیگ کو ووٹ نہ دے اس کا جنازہ نہ پڑھو اور مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہ کرو۔۔۔۔فقیر اپنے فتوے کا دوبارہ اعلان کرتا ہے کہ جو مسلم لیگ کامخالف ہے خواہ کوئی ہو اگر وہ مرجائے تو اس کا جنازہ نہ پڑھاجاوے،نہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے۔“

(ستر باادب سوالات دینیہ ایمانیہ،صفحہ56،پیلی بھیت ،انڈیا)

علمائے اہل سنت خصوصا پیر جماعت علی شاہ صاحب نے 1946ء کومسلم لیگ کو کامیاب کروایا ۔یہی وجہ تھی کہ محمد علی جناح صاحب پیر جماعت علی شاہ صاحب کے معتقد تھے۔سید اختر حسین علی پوری لکھتے ہیں:”جب مسلم لیگ کو بے مثال کامیابی نصیب ہوئی تو قائد اعظم نے بمبئی میں پیر جماعت علی شاہ کے مرید صادق سیٹھ محمد علی کو مبارک باد دی اور کہا کہ یہ سب تمہارے پیر صاحب کی کوشش اور دعا کا نتیجہ ہے۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب نے قائد اعظم کو مبارک باد کا تار دیا۔جوابا انہوں نے بھی آپ کو تار دیا اور لکھا کہ یہ سب آپ کی ہمت اور دعا کا نتیجہ ہے۔ اب یقینا پاکستان بن جائے گا۔“

(سیرت امیر ملت،صفحہ 487، علی پور سیداں)

علمائے اہلسنت خصوصا امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب کی ان کوششوں کو دیکھ کر محمد علی جناح صاحب نے کہا:”میرا ایمان ہے کہ پاکستان ضرور بنے گا کیونکہ امیر ملت مجھ سے فرما چکے ہیں کہ پاکستان ضرور بنے گا اور مجھے یقین واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبان کو سچا ضرور کرے گا۔“

(مجلہ برگ گل،صفحہ1994،وفاقی اردو کالج،کراچی)

پاکستان آزاد ہونے کے بعد بھی اس ملک کی سلامتی و بہتری کے لیے علمائے کرام نے ہمیشہ بہترین کردار ادا کیا۔پرویزمشرف کےدور کے بعد جب فواد چوہدری کا نام و نشان نہیں تھا اور کئی مرتبہ الیکشنز میں عبرتناک شکست کھا چکا تھا ،اس وقت ملک میں دہشت گردی شروع ہوئی اور جگہ جگہ خود کش حملے ہونا شروع ہوگئے ۔ اس وقت علمائے کرام نے ان خود کش حملوں کو حرام قرار دیااور اس پر باقاعدہ فتاویٰ جاری کے،اسی فتویٰ کی وجہ سے شہید پاکستان حضرت مفتی سرفراز نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کیا گیا۔مزیددہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی کاروائی بنام ”ضربِ عضب“ کی علمائے کرام نے برپورتائید کی۔جس فواد چوہدری کا دماغ صرف اس بارے چلتا ہے کہ مستقبل میں کس پارٹی میں شامل ہونا ہے وہ جاہل شخص علمائے کرام کی کردار کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور علماء کے خلاف بول کر کفار اور سیکولر لوگوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ،لیکن وہ جانتا نہیں کہ تاریخ میں ایسے کئی غدار شخص آئے جنہوں نے دین و علماء کو دبانا چاہا لیکن تاریخ کی کتب میں ذلیل لوگوں کی فہرست میں اپنا نام شامل کرکے چلے گے اور ان عبرتناک انجام ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں